ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان تو ہوچکا ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ انتخابات کا بگل تو بج گیا ہے لیکن ابھی تک ملک میں انتخابی ماحول نہیں بنا ہے۔ بلکہ دن بدن انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ابہام بڑھتا جا رہا ہے۔
بے شک چیف جسٹس پاکستان نے عام انتخابات کے انعقاد کے کیس کے فیصلے کے وقت قوم پر واضح کیا تھا کہ انتخابات میں تاخیر یا ان کے انعقاد کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہ کی جائے بلکہ اگر کسی نے کوئی بات کرنی ہے تو اپنی بیگم کے ساتھ کرے، کھلے عام نہ کرے۔ لیکن اب یہ باتیں کھلے عام کی جا رہی ہیں کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔
اب نئی بات سامنے آئی ہے کہ انتخابات فروری میں نہیں ہوںگے بلکہ ستمبر تک تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔ انتخابات میں تاخیر کی خبریں سنانے والوں کے پاس اس کی کوئی منطق نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں بس فیصلہ ہوگیا ہے کہ انتخابات فروری میں نہیں ستمبر میں ہوںگے۔ زیادہ سوالات پوچھیں تو پھر یہ کہا جاتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب عام انتخابات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جب یہ سوال پوچھا جائے کہ وہ اب یہ کیوں سمجھ رہے ہیں کہ الیکشن کی ضرورت نہیں، پہلے کیوں سمجھ رہے تھے کہ ضرورت ہے، اس پر کہا جاتا ہے کہ سادہ سی بات ہے، پہلے معاشی بحران سنگین تھا، اس لیے الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔
لیکن اب معاشی بحران سنبھل گیا ہے، اس لیے الیکشن کرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پہلے اسٹبلشمنٹ کنگال ملک چلانے کی ذمے داری نہیں لینا چاہتی تھی۔ لیکن اب حالات سنبھل رہے ہیں۔
دوسری منطق یہ دی جا رہی ہے کہ ا ب عرب ممالک سے پیسے ملنے کے آثار نمایاں ہو گئے ہیں، نگران وزیراعظم متحدہ عرب امارات پچیس ارب ڈالر کے ایم او یو سائن کر نے گئے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب سے سرمایہ کاری آرہی ہے تو اسٹبلشمنٹ یہ سب پیسے خود اکٹھے کر کے انتخابات کیوں کرائے گی۔ یہ پیسے اگلی حکومت کے لیے جمع نہیں کیے جا رہے ہیں۔
جنھوں نے اکٹھے کیے ہیں وہ خود خرچیں گے، وہ کیوں اس پر کسی اور کو اپنے نمبر بنانے کی اجازت دیں گے۔ اس لیے اب اسٹیبلشمنٹ ساری مشکلات خودحل کرنے کے بعد ملک میں انتخابات کیوں کرائے گی۔
اس لیے فوری انتخابات کو بھول جائیں،کچھ دوست ستمبر کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن جب پوچھا جائے کہ اگر آپ کی منطق مان لیں کہ معاشی بحران حل ہو گیاہے، اس لیے انتخابات کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر ستمبر میں بھی انتخابات کیوں کرائے جائیں گے۔ جس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ابھی ستمبر تک تاخیر کا اعلان کیا جائے گا، پھر بعد میں دو سال کے لیے تاخیر ہو جائے گی۔
یہ سب منطق بیان کرنے والوں سے جب پوچھا جائے کہ انتخابات کی تاخیر کا آئینی وقانونی راستہ کیا ہوگا؟ تو جواب ملتا ہے کہ کونسا آئین کونسا قانون۔ پہلے پنجاب اور کے پی میں کون سے نوے دن میں انتخابات ہو گئے ہیں۔لیکن میں اس بات کو نہیں مانتا۔ ملک میں آئین و قانون موجود ہے۔ یہاں ایک فعال نظام انصاف بھی موجود ہے۔
اس لیے یہ کہنا کہ ملک میں آئین وقانون نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے، غلط ہے۔ اور اگر انتخابات میں تاخیر کا سارا منصوبہ اس سوچ پر بنایا جا رہا ہے کہ ملک میں آئین وقانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں، اس لیے انتخابات میں تاخیر کوئی مسئلہ نہیں۔ تو مجھے لگتا ہے کہ عام انتخابات میں تاخیر ممکن نہیں، تاخیر کا کوئی روڈ میپ ہی نہیں ہے۔
جہاں تک پنجاب اور کے پی میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں تاخیر کا سوال ہے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ انتخابات اسٹیبلشمنٹ کے حکم یا خواہش کی وجہ سے نہیں رک گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے 14مئی کو انتخابات کا حکم دے دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنا حکم واپس بھی نہیں لیا تھا۔ دوست سمجھتے نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے بھی انتخابات کرانے سے انکار نہیں کیا تھا۔ مسئلہ پیسوں کا تھا۔ الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کرانے کے لیے پیسے نہیں تھے اور حکومت پیسے دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔
سپریم کورٹ نے پیسے دینے کا حکم بھی جاری کر دیا تھا۔ جو دوست قانونی معاملات کو سمجھتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ حکومت نے کابینہ میں پیسے دینے کی منظوری دے دی تھی تا کہ حکومت پر توہین عدالت نہ لگ سکے۔
اگر حکومت پیسے روکتی تو سپریم کورٹ ایک لمحہ میں وزیر اعظم اور پوری کابینہ کو توہین عدالت کا نوٹس دے دیتی۔ پیسے پارلیمنٹ نے روکے کیونکہ پاکستان کے آئین میں لکھا ہے کہ حکومت کوئی بھی پیسے پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر نہیں خرچ کر سکتی، اسی لیے بجٹ پارلیمنٹ سے پاس کرایا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ نے پیسے دینے سے انکار کیا۔
اب معاملہ یہ تھا کہ پوری پارلیمنٹ پر توہین عدالت یا آئین شکنی کا مقدمہ نہیں چل سکتا تھا۔ اس لیے آئینی ڈیڈ لاک آگیا۔ پارلیمان کے پاس قومی اسمبلی کے انتخاب بھی ایک سال تک روکنے کا اختیار ہے۔ یہ آئین میں لکھا ہے۔ اس لیے سمجھنے کی بات ہے کہ پنجاب اور کے پی کے انتخابات پارلیمان نے روکے تھے۔ جس کی آئین میں گنجائش تھی۔ غلط یا صحیح کی بات الگ ہے۔ آئین کا غلط استعمال بھی ممکن ہے۔
اب تو پارلیمان نہیں ہے۔صدر مملکت بھی آئین شکنی کے معاملات کی زد میں ہیں، وہ تو صدر مملکت کو آئین میں قانونی استثنا حاصل ہے، اس لیے وہ بچ گئے ورنہ آرٹیکل چھ ان کے سامنے کھڑ اتھا۔
اب بھی جب وہ گھر جائیں گے تو آرٹیکل چھ ان کا پیچھا کرے گا۔ اس لیے مجھے انتخابات کی تاخیر کا کوئی آئینی وقانونی راستہ نظر نہیں آرہا۔ البتہ اگر مارشل لا لگ جائے۔ آئین کو معطل کر دیا جائے۔ تو الگ بات ہے۔ اس کے بغیر ملک میں انتخابات کی تاخیر ممکن نہیں۔ کوئی چاہتے ہوئے بھی ایسا نہیں کر سکتا۔
اگر سیاسی طور پر بھی دیکھا جائے تو انتخابات کی تاخیر کا سیاسی فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا۔ اس وقت اگر کسی سیاسی جماعت کو انتخابات میں مشکلات ہیں تو وہ صرف تحریک انصاف ہے، ان کے پاس ا میدوار نہیں ہیں۔ ان کے لیے سیاسی سرگرمیاں کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
ان کی قیادت جیل میں ہے یا منظر سے غائب ہے۔ اس لیے اگر انتخابات تاخیر کا شکارہوتے ہیں تو اس کا فائدہ تحریک انصاف کو ہی ہوگا۔ وہ چاہے یہ بیانیہ بنائیں گے کہ ان کی مقبولیت کے خوف سے انتخابات نہیں کرائے جا رہے لیکن اندر سے وہ تاخیرپر خوش ہوں گے۔ لیکن دیکھا جائے تو پھر کوئی کیوں تحریک انصاف کی سہولت کاری کے لیے انتخابات میں تاخیر کرے گا۔
تحریک انصاف کی مخالف قوتوں کے لیے انتخابات کا اس سے بہتر وقت ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ انتخابات میں کوئی تاخیر ممکن نہیں۔ انتخابات 8فروری کو ہی ہوںگے۔ باقی کہانیاں سنتے جائیں۔ شاید سننے میں یہ کہانیاں اچھی لگتی ہوں۔ لیکن ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس