اپنے قیام کے پہلے پچیس سال تک معاشی اور سماجی لحاظ سے پاکستان برصغیر کے موجودہ تمام ممالک سے آگے تھا۔ اس لیے کہ 1958 کے مارشل لا سے پہلے سیاسی قائدین دیانتدار، مخلص اور باصلاحیت تھے۔
ان میں زیادہ تر وہ تھے جو قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں شامل رہے تھے اور نئے ملک کو پاؤں پر کھڑا کرکے مضبوط اور مستحکم بنانے کے جذبوں سے سرشار تھے۔ مشرقی پاکستان کے خواجہ ناظم الدین جو قائداعظم کے بعد گورنر جنرل تعینات ہوئے، انتہائی مخلص، بے داغ کردار کے مالک اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔
اسی طرح حسین شہید سہروردی انتہائی ذہین، قابل اور بنگال کے سب سے مقبول رہنما تھے، مشرقی بنگال کو پاکستان کا حصہ بنانے میں انھی کا کردار تھا، شیخ مجیب الرحمن کی حیثیت ان کے سیاسی شاگرد اور چیلے کی سی تھی۔ ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے چین کے ساتھ دوستی کی بنیاد سہروردی صاحب نے ہی ڈالی تھی۔
مگر ڈکٹیٹر ایوب خان نے ظلم یہ کیا کہ پاکستان کے بانیوں پر سیاست میں حصہ لینے کی پابندی لگا دی اور سہروردی صاحب کو ملک بدر کردیا، حتی کہ وہ غریب الوطنی میں ہی انتقال کرگئے۔ مگر آج میں پاکستان کے ایک ایسے وزیراعظم کا ذکر کرنے لگا ہوں جو اعلی خاندانی اقدار کا حامل تھا، آکسفورڈ یونیورسٹی کا فارغ التحصیل تھا اور خود قائداعظم بھی اس کی قابلیت کے قائل تھے۔
ملک کے لیے انتہائی مخلص اور کچھ لینے کے بجائے ملک کو دینے کے جذبوں سے سرشار، 1958کے مارشل لا سے قبل پاکستان کے آخری وزیراعظم ملک فیروز خان نون ایک شاندار انسان تھے۔ وہ راجپوت برادری نون سے تعلق رکھتے تھے جو ضلع خوشاب کے گاؤں ھموکہ میں پیدا ہوئے، فٹبال اور ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔
انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے کیا اور اِنرٹمپل سے بارایٹ لا کا امتحان پاس کیا۔ وہ پنجاب کے وزیراعلی، مشرقی بنگال کے گورنر، مرکزی حکومت میں وزیردفاع اور وزیرخارجہ اور 1957میں ایک سال تک پاکستان کے وزیراعظم رہے۔ انھوں نے From Memory کے نام سے اپنی یادداشتیں تحریر کی ہیں۔
ان کا ملک کے لیے ایک تاریخی کارنامہ ایسا ہے کہ یہ قوم ہمیشہ ان کی ممنون رہے گی۔ آج گوادر کی بندرگاہ پاکستان کا حصہ اس لیے ہے کہ کبھی فیروز خان نون ملک کے وزیراعظم تھے جو انتہائی کوششوں کے بعد اسے پاکستان کے لیے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بہتر ہے کہ قارئین کو گوادر کی کہانی ان کی اپنی زبانی سنائی جائے۔ وہ اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں:
ہمارے دور کی تاریخ گوادر کے تذکرے کے بغیر نامکمل رہے گی دو ہزار چار سو مربع میل کا یہ علاقہ پاکستان کو واپس مل گیا لیکن اس کارنامے پر نہ تو جشن منایا گیا اور نہ اس کی قرار واقعی تشہیر کی گئی۔ میں نے برطانیہ اور پاکستان کے صدر اسکندر مرزا سے وعدہ لیا تھا کہ اس موقع پر جشن وغیرہ نہیں منایا جائے گا کیونکہ اس طرح سلطان مسقط کے جذبات مجروح ہونے کا اندیشہ تھا۔
پاکستان کے جنوبی ساحل پر 45 میل مشرق میں جہاں ایران کی حدیں بحیرہ عرب سے ملتی ہیں گوادر کی بندرگاہ واقع ہے۔ مسقط کے ایک شہزادے نے 1781 میں قلات کے حکمران کے ہاں پناہ لی تھی۔ قلات کا حکمران اس وقت ایک خودمختار بادشاہ تھا۔
اس بادشاہ نے گوادر کی سالانہ آمدنی جو 84 روپیہ بنتی تھی، شہزادے کی گذر اوقات کے لیے اس کے حوالے کردی۔ بعد میں جب یہ شہزادہ مسقط کا بادشاہ بنا تو اس نے گوادر پر قبضہ برقرار رکھا اور اسے قلات کے حوالے نہیں کیا، حالانکہ اب وہ گوادر کی آمدنی کا محتاج نہ تھا۔
برطانیہ نے 1839 میں قلات فتح کیا اور انگریز یہاں کے حاکم بن بیٹھے۔ قلات کے حکمران نے بعد ازاں 1861میں گوادر کی واپسی کا مطالبہ کردیا۔ برطانیہ نے قلات اور مسقط کے درمیان مداخلت کی تاہم اس نے کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرنے سے احتراز کیا۔
1947 میں جب پاکستان قائم ہوا تو حکومتِ پاکستان نے یہ مسئلہ ایک بار پھر اٹھایا۔ اس کے بعد 1949 میں مذاکرات بھی ہوئے جو کسی فیصلے کے بغیر ختم ہوگئے اور اس معاملے کو وہیں چھوڑ دیا گیا۔ لیکن جب میں 1956 میں وزیرخارجہ مقرر ہوا تو میں نے گوادر سے متعلق کاغذات طلب کیے اور اس قضیئے کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد حکومت برطانیہ کے توسط سے سلسلہ جنبانی شروع کردیا۔
برطانیہ کے سامنے ایک مشکل مرحلہ آپڑا تھا، ایک طرف دولت مشترکہ کا ایک رکن تھا اور دوسری طرف یاروفادار سلطان مسقط، جس کے ساتھ ڈیڑھ سو سال کے گہرے مراسم تھے۔ دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم تھے۔ اس لیے میری توقعات کا پارہ کبھی اوپر چڑھتا تھا اور کبھی نیچے گرجاتا تھا۔ ادھر گفت وشنید بدستور جاری رہی، یہاں تک کہ میں نے 1957 میں وزارت عظمی کی ذمے داریاں سنبھال لیں۔
میں نے اس قضیے کی تاریخ میں یہ قانونی نقطہ اٹھایا تھا کہ گوادر کی حیثیت ایک جاگیر کی ہے۔ وہ ریاست کا ایک علاقہ ہے جسے ایک شخص کو اس لیے تقویض کیا گیا تھا کہ وہ ریاست کے واجب الاد ٹیکس وصول کرنے اور اسے اپنی گذر اوقات کے لیے تصرف میں لائے یا اس رقم کو اپنی تنخواہ قیاس کرے۔
اس طرح کی امداد سے اقتداراعلی کی منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم نے پاکستان میں وہ ساری جاگیریں منسوح کردی ہیں جو بہت سے لوگوں کو برطانیہ سے اپنی خدمات کے صلے میں یا دوسرے سیاسی اسباب کی بنا پر دی گئیں تھیں۔ چونکہ گوادر بھی ایک جاگیر تھی لہذا اس کی تنسیخ بھی کی جاسکتی تھی اور اس علاقے پر قبضہ بھی کیا جاسکتا تھا۔
میں نے اس دلیل کا تذکرہ اپنے کسی برطانوی دوست سے دھمکی کے طور پر نہیں کیا، تاہم یہ ایک قانونی نقطہ تھا جو عدالتی چارہ جوئی کی صورت میں ہمارے کام آسکتا تھا۔ برطانوی حکومت بڑے مخمصے میں پھنس گئی۔
اگر پاکستان کی فوج اس علاقے پر قبضہ کرلیتی تو کیا برطانوی حکومت دولت مشترکہ کے اس ملک پر بمباری یا فوج کشی کردیتی جس کی علامتی سربراہ خود ملکہ الزبتھ تھیں؟ مسٹر میکملن، مسٹر سلون لائیڈ اور وزیر امور دولت مشترکہ لارڈ ہوم نے اس سارے معاملے میں جو منصفانہ رویہ اختیار کیا اس کا مجھے تہِ دل سے اعتراف ہے۔
انھوں نے کسی بھی فریق پر دباؤ نہیں ڈالا چنانچہ گوادر کی منتقلی نہایت خوش اسلوبی سے روبہ عمل آئی۔ قدرتی بات ہے کہ اس کا معاوضہ ادا کرنا پڑا، لیکن جہاں ملک کی حفاظت اور اس کے وقار کا مسئلہ درپیش ہو وہاں پیسہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ 1958 کے موسم سرما میں جب میں لندن میں تھا تو ہمارے ہائی کمشنر مسٹر اکرام اللہ نے گوادر کی منتقلی کی دستخط شدہ دستاویزات میرے حوالے کیں۔ اس وقت مجھے جو خوشی ہوئی آپ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔
گوادر جب تک ایک غیرملک کے ہاتھ میں تھا مجھے یوں محسوس ہوتا گویا ہم ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جس کا عقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اور یہ اجنبی کسی وقت بھی اسے ایک پاکستان دشمن طاقت کے ہاتھ فروخت کرسکتا ہے اور وہ دشمن طاقت اس سودے کے عوض بڑی سی بڑی رقم ادا کرسکتی ہے۔
اب ہم خود کو پہلے سے زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں سلطان مسقط کو بھی پاکستان جیسا زبردست اور حلیف مل گیا ہے۔ پاکستان کے لیے لازم ہے کہ خلیج فارس میں تمام حکمرانوں سے بالخصو ص کویت اور قطر سے دوستانہ تعلقات قائم رکھے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہم نے اس سلسلے میں خاطر خواہ کام نہیں کیا
گوادر کے لیے جس رقم کا ذکر کیا گیا ہے وہ فیروز خان نون صاحب نے اپنی جیب سے ادا کی تھی مگر آپ نے دیکھ لیا کہ ان کی تحریر میں نہ کہیں میں ہے، نہ کہیں اپنے کارنامے کی تشہیر، نہ ستائش کی تمنا ہے اور نہ کسی صلے کی خواہش۔ مجھے یاد ہے ایک بار پاکستانی مزدوروں کا ایک عرب ملک میں مسئلہ بن گیا تو متعلقہ وزیر کو بھیجا گیا۔
حکومتی سطح پر مذاکرات ہوئے تو مسئلہ حل ہوگیا، وزیر صاحب واپس آئے تو ان کے سپورٹروں نے ایئرپورٹ پر ان کا زبردست استقبال کیا اور نعروں میں انھیں اس عرب ملک کا فاتح قرار دیا۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے چیئرمین نے وزیر اعظم کی حیثیت سے یو این او میں تقریر کی اور امریکی صدر نے انھیں شرف ملاقات بخشا (ان کے بعد آنے والے صدر نے ان کا فون سننا بھی گوارہ نہ کیا) تو واپسی پر ان کے سپورٹروں نے ان کا اس طرح استقبال کیا۔
جس طرح وہ فاتح امریکا یا کم از کم فاتح کشمیر کی حیثیت سے آرہے ہوں۔ یہ ہے فرق پاکستان کی ابتدائی قیادت میں اور بعد میں آنے والی قیادت میں۔ ان کی ترجیح اول ملک کی ترقی، خوشحالی اور وقار تھا جب کہ بعد میں آنے والوں کے دامن میں حرص، ہوس اور ذاتی مفاد کے علاوہ کھوکھلی تقریروں اور جھوٹے پروپیگنڈے کی بہتات ہے۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس