جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے!! : تحریر سہیل وڑائچ


معاملہ تو بڑا سیدھا اور صاف تھا مگر محترم عرفان صدیقی صاحب نے اوپر تلے کالم لکھ کر اسے پیچیدہ بنا دیا ہے۔ میں نے تو صرف یہ عرض کیا تھا کہ جو سلوک وزیر اعظم عمران خان کے دور میں نواز شریف اور ان کی جماعت سے ہوا، نواز شریف کو وہ سلوک دہرانے کی بجائے مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا چاہئے۔ اس سادہ اور سیدھی بات میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘ یا صدیوں پرانی ضرب المثل میرے سامنے تھی کہ ’’جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے۔‘‘ میں نے اپنے کالموں میں یہی موقف اختیار کیا تھا کہ انتقام کا سلسلہ رکنا چاہئے وگرنہ جو آج عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے کل کو پھر نواز شریف کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ بظاہر یہ معاملہ فوراً سمجھ میں آ جانا چاہئے تھا مگر اقتدار کو قریب آتے دیکھ کر جوش انتقام بڑھنا شروع ہو گیا ہے اسی لئے کل تک جس ادارے کو طنزیہ طور پر خلائی مخلوق اور پتلیوں کا کھیل کہا جا رہا تھا اب اسے احتراماً کلید بردار کہا جا رہا ہے، نون کو یہ تبدیلی مبارک مگر میرے جیسے قصور وار کو ’’اچے‘‘ کی یہ قلبی (یا صرف لفظی) تبدیلی سمجھ نہیں آ رہی۔

محترم عرفان صدیقی صاحب نے اپنے گزشتہ کالم میں شکوہ کیا کہ میرے کالم کا نوے فیصد حصہ ذاتی حملوں، طعن و تشنیع اور کردار کشی پر مشتمل ہے۔ مگر وہ یہ بھول گئے کہ انہوں نے خود اپنے کالموں میں مجھے افلاس دلیل اور خلط مبحث کے طعنے دیئے تھے، میں نے انکے کردار، انکے دور ِوزارت اور انکی شخصیت پر ایک بھی جملہ نہیں لکھا اور نہ ہی میرا ایسا کرنے کا ارادہ ہے، میں بھی چاہتا ہوں کہ سیاسی مباحث عزت و احترام کے دائرے میں رہ کر ہونے چاہئیں۔ عرفان صدیقی صاحب کے حوالے سے مجھ سے یہ ’’غلطی‘‘ ضرور سرزد ہو گئی کہ میں نے انہیں انکے ماضی کے نظریات اور اب ان میں تبدیلی کا آئینہ دکھا دیا۔ یہ ذاتی حملے نہیں نظریاتی حملے تھے اور ہر سیاسی بحث میں نظریات کا زیر بحث آنا تو لازمی ہوتا ہے۔

عرفان صدیقی صاحب عمر میں مجھ سے بڑے ہیں، اس لئے احترام واجب ہے لیکن بحث میں بھی سیاست اور الیکشن کی طرح لیول پلینگ فیلڈ ہونا ضروری ہے ایک ’’اچے‘‘ اور ’’قصوری‘‘ میں بحث ہو تو اچے کو قصوری پر غصہ آنا ضروری ہے، کہاں ایک قلم مزدور اور کہاں ایک سابق وزیر اور موجودہ سینیٹر اور اوپر سے آنے والے وقت کا سینئر وزیر، ظاہر ہے کہاں پہاڑ اور کہاں چیونٹی! میں سمجھ سکتا ہوں کہ میرے اختلاف پر انہیں کس قدر غصہ آیا ہو گا۔ بڑے لوگوں کو عام لوگوں کا اختلاف ذرا نہیں بھاتا مگر ہم صحافی بھی مجبور ہیں کہ جب نواز شریف مظلوم تھا تو اس کےساتھ ہمدردی محسوس ہوتی تھی، آج عمران خان جیل میں ہے تو وہ بھی مظلوم لگتا ہے۔ عرفان صدیقی صاحب زبان و بیان کے بادشاہ ہیں خلط مبحث کا طعنہ مجھے دیتے ہیں مگر اس میں اصل کمال انہیں حاصل ہے، میں نے اپنے کالموں میں تحریک انصاف کو لیول پلینگ فیلڈ دینے اور اس کے ساتھ انصاف کے حوالے سے نواز شریف سے مطالبات کئے تھے چونکہ ہم عوام کو ملک کے سیاسی لیڈروں سے ایسے مطالبات کرنے کا حق حاصل ہے۔ اب محترم عرفان صدیقی صاحب نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ یہ 9مئی کو بیچ میں لے آئے ہیں، ہر ظالم اور تشدد پسند کی طرح انہوں نے جسم کے سب سے کمزور حصے پر وار کر کے ایک جائز موقف کو باطل ثابت کرنے کی کوشش کی۔

9مئی کے واقعہ کے حوالے سے میرا ٹی وی پر ریکارڈ شدہ موقف ہے کہ یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ میں نے ٹی وی شو پر عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ 9مئی کے واقعات میں ملوث تمام لوگوں کو پارٹی سے نکال دیں بالکل اسی طرح جیسے محترمہ بے نظیر بھٹو نے طیارہ اغوا کے بعد الذوالفقار سے پیپلز پارٹی کو بالکل علیحدہ کر لیا تھا یوں انکی حکمت عملی سے پارٹی بچ گئی تھی۔ افسوس کہ عمران خان نے سیاسی جماعتوں سے مصالحت کے ہمارے مشورے کی طرح اس تجویز کو بھی نہ مانا اور نتیجتاً ساری پارٹی 9مئی کے واقعات کی زد میں آ گئی۔ میرا ذاتی موقف اور تھا اور ابھی تک ہے مگر عمران خان نے اس موقع پر بالکل نواز شریف والا رویہ اپنایا، جس طرح نواز شریف نےسپریم کورٹ پر اپنے کارکنوں کے حملے میں ملوث لوگوں کو پارٹی سے نہیں نکالا تھا عمران خان نے بھی نہ نکالا۔ دونوں کا طرز عمل ایک جیسا تھا البتہ سپریم کورٹ حملے میں ملوث لوگوں کو انفرادی سزائیں ہوئیں مگر 9مئی کے واقعے کی تحریک انصاف کو اجتماعی سزا دی جا رہی ہے یہ کھلا تضاد ہے جس کی میں نے نشاندہی کی تھی جو فریق ثانی کو لازماً گراں گزرا۔ جناب سابق وزیر صاحب نے 9مئی کو سیاست نہیں سازش قرار دیا ہے بالکل درست مگر 9مئی کی تہہ میں جائیں تو اصل بات تو عمران کا یہ جرم ہے کہ وہ دو فوجی سربراہوں سے اختلاف رکھتا تھا یہ واقعی جرم ہے مگر بالکل یہی جرم میاں نواز شریف نے چھ بار کیا ہے، عمران خان کی جنرل باجوہ سے نہیں بنی جبکہ میاں نواز شریف کی نہ جنرل اسلم بیگ سے بنی نہ جنرل آصف نواز سے نباہ ہو سکا نہ جنرل وحید کاکڑ کے ساتھ چل سکے نہ جہانگیر کرامت کےساتھ گزارا ہوا نہ ہی جنرل مشرف سے اچھے تعلقات رہے اور پھر آخر میں جنرل باجوہ سے بھی انکی لڑائی ہو گئی تھی۔ عمران نے جو جرم تھوڑی بار کیا ہے وہی جرم میاں صاحب نے زیادہ بار کیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ میاں صاحب نے ہر بار مقتدرہ سے دوبارہ صلح کر لی عمران خان اس لچک سے عار ی ہیں یہی بات ہے کہ وہ مسلسل مشکل میں ہیں ۔

عمران کو ’’ تُن‘‘ دینے کا مشورہ دینے والوں سے گزارش ہے کہ اگر کل کو نواز شریف کی بطور وزیراعظم مقتدرہ سے نہ بن سکی تو پھر آپ کا بیانیہ کیا ہو گا؟ دوسری طرف اگر کل کو عمران خان سے مقتدرہ کی صلح ہو گئی تو کیا پھر بھی ن لیگ مقتدرہ کے اقدامات کی حمایت کرے گی؟؟ ن لیگ نے اپنے موقف میں جو قلابازیاں کھائی ہیں آنے والے دنوں میں یہ انہیں شرمندہ کریں گی۔ محترم عرفان صدیقی صاحب جیسے ترجمانوں کو چاہئے کہ وہ سیدھے سبھاؤ یہ کہیں کہ ن لیگ کی سیاسی مجبوری ہے کہ وہ مصلحت سے کام لیکر اقتدار میں آئے مگر الٹا کہا یہ جا رہا ہے کہ ہم اصولوں پر چل رہے ہیں، یہ دلیل مضحکہ خیز ہے اسے کوئی ماننے کو تیار نہیں۔

آخر میں عرض ہے کہ یہ کالمانہ مکالمہ ہرگز گندے کپڑے سرِعام دھونے کیلئے نہیں لیکن یہ عوامی فورم ضرور ہے آپ بے شک اقتدار میں آ رہے ہیں مگر جوابدہی اور تنقید پر چڑنے اور ناراض ہونے سے کام نہیں چلے گا اُچےغلط موقف اختیار کریں گے تو کئی قصوری اُن کی جوابدہی لئے اٹھ کھڑے ہونگے….

بشکریہ روزنامہ جنگ