پروفیسر اطہر محبوب : تحریر جاوید چوہدری


مجھے دسمبر 2019میں ایک فون آیا دوسری طرف سے نہایت تہذیب اورشائستگی کے ساتھ بتایا گیا میں پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب بول رہا ہوں یہ نام اورآوازاجنبی تھی میں نے عرض کیا ڈاکٹر صاحب میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟

پروفیسر صاحب نے جواب دیا میں آج کل اسلامیہ یونیورسٹی کا خادم ہوں میں وائس چانسلرکی خدمات ادا کر رہا ہوں میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی مجھے 28 سال بعد شہزاد کے علاوہ بھی کسی نے میری یونیورسٹی سے فون کیا تھا پروفیسر صاحب نے شکوہ کیا آپ پوری دنیا پھرتے رہتے ہیں لیکن اپنی یونیورسٹی نہیں آتے کیوں؟

میں نے عرض کیا سر مجھے آج تک یونیورسٹی نے بلایا ہی نہیں میرا ڈپارٹمنٹ شاید مجھے اون نہیں کرتا پروفیسر ہنسے اور فرمایا آج سے ہم آپ کا یہ گلہ ختم کر رہے ہیں آپ اب ہمارا شکوہ دور کر دیں آپ یونیورسٹی وزٹ کریں میں نے ان سے وعدہ کیا اور یوںمیں27 دسمبر 2019 کو 28 سال بعد یونیورسٹی گیا۔

میں نے 1991 میں جب یونیورسٹی چھوڑی تھی تو یہ ایک ایسا چھوٹا سا ادارہ تھاجس پردیہاتی چھاپ تھی اور پنجاب یونیورسٹی کے استاد اسے کیمل یونیورسٹی کہتے تھے لیکن میں جب 27 سال بعد وہاں گیا تو کایا پلٹ چکی تھی یہ یورپ اور امریکا کی جدید یونیورسٹی محسوس ہوتی تھی اس کے 326 شعبوں میں 65 ہزار طالب علم پڑھ رہے تھے 1800 فل ٹائم اور 1600 پارٹ ٹائم اساتذہ اور ملازمین تھے پی ایچ ڈی کی تعداد 700 تھی ڈپارٹمنٹس 142 تھے فیکلٹیز 15 تھیں کیمپس سات ہو چکے تھے۔

انسٹی ٹیوٹ اورسینٹر بھی سات تھے اور یونیورسٹی 1200 پی ایچ ڈی بھی پیدا کر چکی تھی اوراس کے 326پروگرامز بھی چل رہے تھے میں جہاں ریت کے ٹیلے چھوڑ کر گیا تھا وہاں اب لان باغ اور جنگل تھے اور جس جگہ الو بولتے تھے وہاں لوگ واک کرتے تھے اور کھیلتے کودتے تھے پوراکیمپس سولر انرجی پر شفٹ ہو چکا تھا مسجد دیکھنے لائق تھی لائبریری لائبریریوں میں تبدیل ہو چکی تھی اور وہاں دن رات طالب علم نظر آتے تھے ڈسپلن اور ماحول بھی حیران کن تھا اوریہ سب کچھ صرف ایک شخص نے کیا تھا اور اس کا نام پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب تھا۔

یہ جب اسلامیہ یونیورسٹی میں آئے تو اس وقت طالب علموں کی تعداد 13 ہزار تھی لیکن اب یہ 65 ہزارہو چکی تھی اور ان میں تمام صوبوں علاقوں نسلوں ثقافتوں اور زبانوں کے نوجوان شامل تھے میں نے زندگی میں بہت لوگ دیکھے ہیں مجھے مینجمنٹ کے بڑے بڑے گرو دیکھنے کا موقع بھی ملا لیکن آپ یقین کریں ان میں اطہر محبوب جیسا ایک بھی شخص نہیں تھا آپ ان کی گفتگو سنیں تو آپ کا دل چاہے گا آپ بیٹھے رہیں اوریہ بولتے رہیں۔

آپ ان کی پرفارمنس دیکھیں تو اس شخص نے کیمل یونیورسٹی کے طعنے سننے والے ادارے کو ملک کی سب سے بڑی جامعہ بنا دیا اور آپ اگر کارنامے دیکھیں تو اس شخص نے مختلف قومیتوں اور گروپوں میں تقسیم اساتذہ اور طالب علموں کو محبت میں پرو دیا اور آپ اگر ماحول دیکھیں تو انھوں نے عین صحرا کے درمیان ایک ایسا نخلستان تخلیق کر دیا جس میں پھولوں اور پودوں کے ساتھ ساتھ 68 ہزار لوگ بھی تھے (ملازمین اور طالب علم) اور یہ سب کچھ دو تین برسوں میں ہوا۔

ڈاکٹراطہر محبوب صاحب نے میرے اسی وزٹ کے دوران مجھے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دینے اورمیرے نام سے ماس کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ میں چیئر بنانے کا اعلان کیا یہ ایک حیران کن فیصلہ تھا کیوں؟ کیوں کہ یونیورسٹی نے اپنی سو سال کی تاریخ میں صرف دو اعزازی ڈگریاں دی تھیں اور وہ دونوں شخصیات بھی ان کی طالب علم نہیں تھیں۔

میں یونیورسٹی کا پہلا طالب علم تھا جسے یونیورسٹی نے اس اعزاز کے قابل سمجھا تھا اور یہ سب کچھ ایک ایساشخص کر رہا تھا جسے میں زندگی میں پہلی مرتبہ مل رہا تھا جس کا میرے ساتھ کوئی نسلی یا لسانی تعلق نہیں تھا اور وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا تھا اسے اس ایڈونچر کا نقصان ہوگا اس وقت عمران خان کی حکومت تھی اور مجھے پی ٹی آئی کا مخالف سمجھا جاتا تھا اور حکومت کے مخالف صحافی کو اعزازی ڈگری دینے کا کیا رزلٹ آ سکتا تھا؟

ڈاکٹرصاحب اچھی طرح جانتے تھے مگر اس شخص نے اس کے باوجود یہ فیصلہ کیا اور ڈٹ کر کیا اور انھیں اس فیصلے کی ٹھیک ٹھاک قیمت بھی بھگتنا پڑی فیصلے کی پہلی مخالفت یونیورسٹی کے اندر سے ہوئی لیکن پروفیسر صاحب کا جواب تھا یہ ہمارااپنا اسٹوڈنٹ ہے اگر حکومت اسے ستارہ امتیاز دے سکتی ہے تو اعزازی ڈگری میں کیا خرابی ہے؟ سینڈی کیٹ میں معاملہ گیا تو پی ٹی آئی کے ارکان نے اعتراض کر دیا۔

پروفیسر اطہر محبوب یہ ایشودوسری بلکہ تیسری مرتبہ سینڈی کیٹ میں لے کر گئے وہاںسے اجازت مل گئی تو سرکار کا گھن چکر شروع ہو گیا فائل ایک دفتر سے دوسرے اوردوسرے سے تیسرے میں دھکے کھاتی رہی یہ عمل تین مرتبہ پورا کیا گیا لیکن کسی نہ کسی وجہ سے دوبارہ یونیورسٹی میں واپس بھجوا دیا گیا اور فائل کا سفر ایک بار پھر شروع ہو گیا یہ سلسلہ پورے تین سال چلا مگر پروفیسر اطہر محبوب نے ہار نہ مانی ان کی پوری کوشش تھی یہ مجھے اپنے ہاتھ سے ڈگری دے کر جائیں مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔

مجھے ڈگری ملی مگر یہ اس وقت کراچی میں بیٹھ کر لوگوں کی نفرتوں کا حساب کر رہے تھے گوہر اعجاز میرے دوست ہیں یہ اس وقت وفاقی وزیر ہیں ملک کے بڑے بزنس مینوں میں شمار ہوتے ہیں اپٹما کے 14 سال سے چیئرمین بھی ہیں یہ اکثر کہتے ہیں بگ از ناٹ بیوٹی فل ان پاکستان (Big is not Beautiful in Pakistan) اگر آپ یورپ امریکا حتی کہ انڈیا میں کوئی بڑا کام کریں گے تو لوگ اس کی تعریف کریں گے آپ کو سراہیں گے آپ کو ہیرو مانیں گے لیکن پاکستان میں ہر کام کرنے والے شخص کو عبرت کی نشانی بنا دیا جاتا ہے۔

ہم اسے گلیوں اور سڑکوں پر ذلیل کردیتے ہیں لہذا پاکستان میں بڑا کام کرنے والا ہمیشہ بدصورت رہتا ہے یہ ہمیشہ عدالتوں جیلوں اور نیب میں دھکے کھاتا ہے پروفیسر اطہر محبوب کے ساتھ بھی یہی ہوا ان کی پرفارمنس لاجواب تھی انھوں نے چھوٹی سی یونیورسٹی کو ملک کی لیڈنگ یونیورسٹی بنا دیا تھا لہذا انھیں سزا تو ملنی تھی اور یہ انھیں ملی جولائی 2023میں ان کے ساتھیوں کو خطرہ محسوس ہوا اطہر محبوب کو کہیں ایکسٹینشن نہ مل جائے چناں چہ یونیورسٹی کا ایک اسکینڈل گھڑا گیا اسے سوشل میڈیا پر بوسٹ دیا گیا اور پروفیسر اطہر محبوب کے ساتھ ساتھ پوری یونیورسٹی کا امیج تباہ کردیا گیا اور اطہر محبوب دل پر داغ لے کر گھر واپس جانے پر مجبور ہو گئے۔

یہ اسکینڈل جھوٹا اور پروفیسر اطہر محبوب بے گناہ ثابت ہو گئے مگر اب کیا فائدہ اس شخص کا دل اور یونیورسٹی کا امیج دونوں ٹوٹ چکے ہیں میری اعزازی ڈگری سے قبل اطہر محبوب اپنی مدت پوری کر کے گھر جا چکے تھے میری ان سے صرف دو ملاقاتیں تھیں پہلی ملاقات 2019 میں ہوئی جب مجھے یونیورسٹی کے وزٹ کی دعوت دی گئی تھی اور دوسری مرتبہ یہ 2022 میں میرے گھر تشریف لائے تھے میرا ان کے ساتھ بس اتنا تعلق تھا۔

یونیورسٹی اسکینڈل کے دوران میں نے انھیں فون کر کے پوچھا تھا کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟ یہ شخص دل اور ظرف کا کتنا بڑا انسان ہے آپ اس کا اندازہ ان کے جواب سے لگا لیجیے ان کا کہنا تھاآپ بس دعا کریں ہمارے لیے آپ کی دعا کافی ہے یہ اس کے بعد خاموشی سے کراچی چلے گئے اور اب کتابیں پڑھتے ہیں اور واک کرتے ہیں میں دعوے سے کہتا ہوں پروفیسر اطہر محبوب اگر کسی دوسرے ملک میں ہوتے تو انھیں دس یونیورسٹیوں کا وائس چانسلر بنا دیا جاتا مگر ہم نے انھیں عبرت کا نشان بنا دیا۔

میری یونیورسٹی نے بہرحال مجھے 11 نومبر 2023کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نواز دیا میں یہاں یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر اورقائم مقام چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نوید اختر کا ذکر کروں گا پاکستان میں عموما کسی شخص کے چلے جانے کے بعد اس کے تمام منصوبے دفن کر دیے جاتے ہیں مگر پروفیسر نوید اختر کا دل اور ظرف بھی بڑا ہے انھوں نے نہ صرف سابق وائس چانسلر کے فیصلے کا احترام کیا بلکہ مخالفت کے باوجودا سپیشل کانووکیشن کا بندوبست بھی کیا اور مجھے گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کے ہاتھوں ڈگری بھی دلوائی۔

بلیغ الرحمن بہت پڑھے لکھے انسان ہیں یہ پنسلونیا یونیورسٹی کے ڈگری ہولڈر ہیں انھوں نے بڑی خوب صورت تقریر کی ان کا کہنا تھا میری یونیورسٹی پنسلوینیا سب سے زیادہ معاوضہ ایک ایسے بزنس مین کو دیتی تھی جو پروفیسر تھا اور نہ ہی مستقل فیکلٹی ممبر وہ صرف ایک بزنس مین تھا اور مہینے میں ایک کلاس لیتا تھا اور یونیورسٹی نے اسے صرف اس لیے ہائر کیا تھا کہ وہ طالب علموں کو بتا سکے یہ اچھا بڑا اور کام یاب بزنس مین کیسے بن سکتے ہیں؟ یونیورسٹیاں اپنے سابق طالب علموں کو اعزازی ڈگریاں دیں تاکہ مارکیٹ کے لوگ یونیورسٹی کے ساتھ جڑ سکیں اور طالب علموں کو علم کے ساتھ ساتھ تجربہ بھی مل سکے۔

میں یہاں چار ایسے لوگوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے میرے ایک دن کے وزٹ کو یاد گار بنا دیا پہلے شخص ڈاکٹر محمد خالد شیخ ہیں یہ وائس چانسلر کے ایگزیکٹو سیکریٹری ہیں ان کا ڈسپلن انرجی اور مینجمنٹ حیران کن ہے یہ شخص چوبیس گھنٹے ان تھک کام کر سکتا ہے اور اس کے چہرے پر تھکاوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا دوسرا شخص یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس کا ویٹر اللہ نواز ہے۔

اللہ نواز نے ویٹری کے دوران آرکیالوجی میں ایم اے کیا یہ میٹرک کے بعد یونیورسٹی میں ملازم ہوا لیکن برتن دھوتے دھوتے ایم اے ہو گیا اور وہ بھی آرکیالوجی میں میں پورا دن اس کے علم کو انجوائے کرتا رہا میں یونیورسٹی کے ڈرائیور عبدالخالق کابھی ممنون ہوں یہ 30 برسوں سے وائس چانسلرز کی خدمت کر رہا ہے یہ بھی علم کے دریا میں رہنے کی وجہ سے عالم بن چکا ہے۔

میں نے اس کی علمی کمپنی کو بھی بہت انجوائے کیا اور آخر میں میرابلائنڈ اینکر دوست زین خان یہ میڈیاا سٹڈی کے چینل کے اینکر ہیں اللہ تعالی نے انھیں بصارت سے محروم رکھا لیکن یہ اس کمی کے باوجود کمال انسان ہیں ان کا لہجہ ان کا مطالعہ اور زندگی کے بارے میں ان کا رویہ حیران کن ہے میں دس منٹ ان کے ساتھ بیٹھا اور آخر میں ان کا ہاتھ چومنے پر مجبور ہو گیا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس