1857 سے شائع ہونے والے امریکی ماہنامہ ’اٹلانٹک‘ نے اپنے تازہ شمارے میں ’’میڈیا کو درپیش چیلنج‘‘ میں بات شروع کی ہے۔ آج کے دو سوشل میڈیا قارون و شداد یعنی ایلون ماسک اور مارک زکربرگ سے کہ یہ محض توجہ حاصل کرنے کے بھوکے ہیں۔ اور پنجرہ بند کشتیوں میں مصروف ہیں۔ پھر وہ بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کے سیاسی، عسکری، مالی مجادلوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنے وقت کے ایک میڈیا مفکر نیوٹن منو کی 1961کی تقریر سے ایک تاریخی جملہ دہراتے ہیں۔ ٹیلی وژن ایک ’’وسیع بنجر زمین‘‘ میں بدلتا جارہا ہے۔ منو نے اپنے آخری ایّام میں میگزینوں کی تعریف کی تھی جو ابھی تک اپنے مقصد سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امریکی شہری اب بھی سنجیدہ، مرتکز، پیچیدہ مگر اطلاعاتی فکر کے قائل ہیں۔ اس لیے ہم میگزین والے مطمئن ہیں کہ حرف مطبوعہ ایک مقدس جدو جہد ہے۔
ایڈیٹر جیفرے گولڈ برگ حرف مطبوعہ کے قارئین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی تحریر اس تاریخی اور معنیٰ خیز جملے پر ختم کرتے ہیں۔
“In the time of foolishness, of billionaire cage matches and political idiocy, I am all the more gratefull”
’’بیوقوفی ارب پتیوں کے پنجرہ بند مقابلوں ( نورا کشتیوں) اور سیاسی حماقت کے دور میں قارئین کی پذیرائی پر اور زیادہ ممنون و شکر گزار ہوں۔‘‘
پاکستان میں حرف مطبوعہ کے پروانوں کیلئے ڈیڑھ سو سال سے امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں کئی نسلوں کے قارئین کی پیاس بجھانے والے رسالے کی یہ تحریر یقیناً ایک ولولۂ تازہ ہوگی۔ آج کل ہم 76سالہ ملک پاکستان میں بھی یہ نورا کشتیاں دیکھ رہے ہیں۔ امریکہ کو ہر معاملے پر کنٹرول کرنے والا سمجھنے والے ملاحظہ کریں کہ وہاں کے ایک جریدے کا تجربہ کار ایڈیٹر 2023کے سیاسی اور ابلاغی عہد کو کن اصطلاحات سے یاد کر رہا ہے۔ بیوقوفی، پنجرہ بند مقابلے، سیاسی حماقت جیسے الفاظ نہ جانے کتنے رتجگوں، کتنی ذہنی کشمکشوں کے بعد استعمال کیے ہوں گے۔ ہمارے ہاں بھی کتاب پر حرف مطبوعہ پر پیغمبری وقت آیا ہوا ہے۔ لیکن یہ برا وقت صرف پرنٹ میڈیا تک محدود نہیں ہے۔ یہ ہمارے پورے سماج کو اپنے کھردرے ہاتھوں میں جکڑ رہا ہے۔ یہ وقت ایک دوسرے پر طعن و تشنیع اور الزامات کا نہیں ہے۔ بلکہ اس پنجرے سے باہر نکلنے کا ہے۔ کھرب پتی تاجر اور مال مست سیاستدان تو یہی چاہتے ہیں کہ ہم اس چھوٹے سے اسٹیڈیم کی سیڑھیوں پر بیٹھے ان کی نورا کشتیوں کا تماشا کرتے رہیں۔ مہنگائی کو بھول جائیں۔ اپنی عظمت رفتہ پر مٹی ڈالیں۔ امریکہ میں کاغذ کے 500سے زیادہ بڑے کارخانے ہیں۔ جو صرف امریکی نہیں دنیا کی بڑی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ اب ہمارا عظیم دوست چین کاغذ کی تیاری میں سب سے آگے نکل گیا ہے۔ پاکستان میں کاغذ کی بہت کھپت رہی ہے۔ اب بھی ہے مگر کاغذ کے کارخانے اپنی ضرورت کے لیے بھی نہیں لگائے گئے۔ حالانکہ کاغذ بنانے میں استعمال ہونے والا خام مال ہمارے ہاں بکثرت موجود ہےاور ضائع بھی ہو جاتا ہے۔
آج اتوار ہے، اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر مل بیٹھنے۔ حالات حاضرہ پر تبادلۂ خیال۔ اس ہفتے کے دوران ابھرنے والے بہت سے سوالات کے جوابات مل جل کر تلاش کرنے کا دن۔ اٹلانٹک کے ایڈیٹر نے اپنے امریکی وقت کیلئے جو الفاظ برتے ہیں۔ ہم بھی کم و بیش انہی حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جس طرح وہ اپنے قارئین کے کرم پر مدح خواں ہیں ہم حرف مطبوعہ کے دامن گیروں کو بھی اپنے قارئین کی مختلف نسلوں کا ممنون احسان ہونا چاہئے یہ قارئین ہم سے زیادہ باشعور ہیں کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی یلغار اور خوبصورت جالوں کے باوجود یہ الطاف حسن قریشی، عطاء الحق قاسمی، امتیاز عالم، کشور ناہید، حامد میر کی تحریر سے جڑے ہوئے ہیں۔ حرف مطبوعہ سے وابستگان کو بھی یہ فخر ہونا چاہئے کہ اخبار رسالے ہی ہم وطنوں کو سیاسی حماقتوں، ٹاک شوز پر بے نتیجہ نورا کشتیوں سے ماورا ہوکر معاملات کی حقیقت سے آگاہ رکھتے ہیں۔
آئیے کوئٹہ چلتے ہیں۔ سردی تو بہت زیادہ ہے مگر پنجرہ بند مقابلے کی مبادیات وہیں دیکھی جا سکتی ہیں۔2023میں 1985واپس لایا جا رہا ہے۔ یہی چہرے ہیں جن کیلئے غیر جماعتی انتخابات کا پنجرہ بند مقابلہ کروایا گیا تھا۔ اس وقت سب سے زیادہ توجہ بھی بلوچستان میں درکار ہےکہ وہاں کا نوجوان بہت زیادہ ذہنی کشمکش میں ہے۔ دہشت گردی کے واقعات بھی وہیں ہورہے ہیں۔ بلوچستان کے ہم وطنوں کی مشکلات دور کرنے کیلئےایک جامع منصوبے کی پیشکش ناگزیر ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ اس کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ سیاسی پارٹیوں کو باشعور کارکن چاہئیں لیڈر پہلے ہی بہت ہیں، پریشان عوام ہیں۔ ان کو مطمئن کرنا ریاست کا فرض ہے۔ خواص اور اشرافیہ کی خوشنودی تو گزشتہ نصف صدی سے حاصل کی جا رہی ہے۔ ایک ذمہ دار ریاست اپنے مستقبل، اپنی اکثریت اور پاکستان جیسے جواں ملک میں اپنی 60فیصد نوجوان آبادی کی آرزوؤں، امنگوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے نقشے مرتب کرتی ہے۔ اس وقت ہم جس بحران کا سامنا کر رہے ہیں وہ پچھلے 50سال میں 15سے 30سال کی عمر کے پاکستانیوں کے خواب منتشر کرنے کا نتیجہ ہے۔ ریاست سیاسی پارٹیوں اور میڈیا نے ان کے ذہنوں میں جھانکنے کی بجائے ان کے دماغوں میں اپنے فارمولے، ترانے، نظریے ٹھونسنے کی کوشش کی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب ان کی صلاحیتوں کو تعمیر قوم کیلئے بروئے کار نہیں لایا جاتا تو وہ ایسے ملکوں کے سفارت خانوں کے باہر ویزے کی قطار میں لگے کھڑے نظر آتے ہیں جہاں میرٹ کو اہمیت دی جاتی ہے یہ ان کے وطن سے اور حسن سے عشق کرنے کے دن ہوتے ہیں۔ وہ بے چارے پاسپورٹ بنوانے اور ویزے حاصل کرنے میں جوانیاں گزار دیتے ہیں۔ یا کچھ کی چمکتی جوانیاں حوالات اور جیلوں میں گزر جاتی ہیں۔ ہم ساٹھ ستر سال سے اوپر کے ناکارہ لوگ وطن اور حسن سے عشق کرنے پر لگائے جاتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت Artificial Intelligence کا دَور دنیا میں اب آیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ 50سال پہلے سے موجود ہے۔ مصنوعی ذہانت نے مصنوعی جمہوریت، الیکشن کے مصنوعی نتائج، مصنوعی پارلیمنٹ کو جنم دیا ہے۔ نوجوانوں کو درپیش بنیادی مسائل یہ ہیں۔ 1۔بے روزگاری، کہیں روزگار تو ہے اجرت بہت کم ہے۔ 2۔معیاری تعلیم۔ 3۔ غربت کی لکیر سے نیچے کروڑوں۔ 4۔ علاج معالجے کا فقدان۔ 5۔ سیاسی عدم استحکام۔ 6۔ صنفی عدم توازن۔ 7۔ منشیات۔ 8۔ ٹیکنالوجی تک عدم رسائی۔ 9۔ مذہبی انتہا پسندی۔ 10۔ روزہ مرہ مسائل کے حل کیلئےکسی سسٹم کا نہ ہونا۔ ہماری تمام سیاسی پارٹیوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) سے گزارش ہو گی کہ وہ ان مسائل کے حل کیلئے کوئی جامع چارٹر تیار کرے۔ نوجوانوں کو قائل کرے، سرداروں، جاگیرداروں اور انتخابیوں کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ تو ویسے ہی آپ سے منسوب کر دیئے گئے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ