اصحاب دانش سے یہی خدشہ تھا۔ عنوان دیکھتے ہی بیشتر مہربانوں کا خیال مسلم لیگ کی رہنما مریم نواز کی طرف گیا اور کسی قدر حیرانی سے سوچتے ہوئے کہ مریم نواز کو صحافی بننے کی کیا ضرورت ہے۔ درجنوں صحافی ان کے اشارہ ابرو پر قرطاس سیاہ کرنے کی آرزو سینوں میں دبائے پھرتے ہیں۔ غریب صحافی کس برتے پر بام حرم پر آشیاں بندی کا دعوی کریں، صیغہ صحافت کے خداوندانِ خود تراشیدہ چونچ میں قفس کی تیلیاں تھامے فضائے آرزو میں منڈلاتے ہیں۔ اس دہلیز پر تو صحافت کی سرسوتی دیوی ڈنڈوت بجا لاتی ہے۔ جاتی امرا کی نامزد ملکہ کو صحافت کے کوچہ خاک آلود سے کیا غرض، انکے تو حاشیہ نشینوں تک کو صحافت کا دماغ نہیں۔ اسلام آباد میں البتہ ایک خاتون صحافی مریم نواز کے نام سے عدالتی کارروائی رپورٹ کرتی ہیں۔ حقیقی نام تو کچھ اور تھا مگر ایک آدھ رکن کی قطع برید سے مریم نواز کی ترکیب اسم پر نگہ انتخاب ٹھہری ہے۔ میر صاحب نے کہا تھا، ہیں جواں، اختیار رکھتے ہیں۔ اختیار سے نام کی مناسبت بھی عجیب سلسلے رکھتی ہے۔ مجیب الرحمن نام کے دو مہربان ہماری تاریخ میں گزرے۔
شیخ مجیب الرحمن خطہ بنگال کے طول و عرض میں سائیکل پر تحریک پاکستان کا پیغام پہنچاتے تھے۔ 1954 میں انتخاب جیت کر مشرقی بنگال کے صوبائی وزیر مقرر ہوئے۔ پھر فضل الحق غدار ہو گئے، ناظم الدین پر نااہل ہونے کی تہمت لگی، سہروردی بدعنوان قرار پائے، مولوی تمیزالدین در عدل پر خجل ہوئے۔ صف اول کی قیادت تاخت و تاراج کر دی گئی تو شیخ مجیب الرحمن دہلی سے ہوتے ہوئے 10 جنوری 1972 کو سونار بنگلہ کے نجات دہندہ کی حیثیت سے ڈھاکہ کے تیج گائوں ایئر پورٹ پر جا اترے۔ دوسرے مجیب الرحمن تین ستارہ جنرل تھے۔ آٹھ برس تک جنرل ضیا الحق کے سیکرٹری اطلاعات رہے۔ اس منصب پر ذرائع ابلاغ کو دہشت زدہ کیا، اخبارات اور جرائد بند کئے، صحافیوں کو قید و بند، ایذا رسانی نیز کوڑوں کی آزمائش سے دوچار کیا۔ پریس ایڈوائس کو حکم نامے میں ملفوف دھمکی کی صورت دی۔ محمد خان جونیجو نے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر براہ راست نشر نہ کرنے پر جنرل مجیب کو برطرف کیا تو نومنتخب وزیراعظم اور جنرل ضیا الحق میں اختلاف کی پہلی دراڑ نمودار ہوئی۔ پاکستان میں موجودہ صحافت کی دریدہ چادر پر جنرل مجیب الرحمن کی ستیزہ کاری کے نشان ہیں۔
ہماری تاریخ میں شیخ رشید کا نام دو افراد سے منسوب رہا۔ شیخوپورہ کے شیخ محمد رشید کسان رہنما تھے۔ سبھاش چندر بوس کی غدر پارٹی سے برطانوی راج کیخلاف تحریک آزادی میں حصہ لیا۔ خضر حیات کی یونینسٹ حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک چلائی۔ آزاد پاکستان پارٹی کا حصہ بنے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رکن تھے۔ زرعی اصلاحات نیز صحت کی سہولتیں عوام تک پہنچانے کی پاداش میں پیوستہ مفادات کے معتوب ٹھہرے۔ بدترین حالات میں ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ نہیں چھوڑا لیکن بینظیر بھٹو کے طرز سیاست سے سمجھوتہ نہیں کر پائے۔ کسی نگران حکومت کا حصہ نہیں رہے۔ گوشہ نشینی میں 12ستمبر 2002 کو رخصت ہو گئے۔ ایک دوسرے شیخ رشید راولپنڈی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گیٹ نمبر 4 کے علانیہ خدمت گار شیخ رشید کا پیدائشی نام بھی کچھ اور تھا۔ ایک مقبول طالب علم رہنما کے نام پر قبضہ کر کے عشرہ در عشرہ مختلف وزارتوں میں اپنی خودی بلند کرتے رہے۔
ناموں کی مناسبت اور قول و فعل میں فاصلوں کی اس بازخوانی کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہر دلعزیز سیاسی رہنما مریم نواز اور ایک ہردلعزیز صحافی کے طرز عمل میں حیران کن مماثلت برآمد ہوئی ہے۔ محترمہ مریم نواز وقفے وقفے سے طویل مدتی بن باس لے لیتی ہیں۔ پھر اچانک قصر عالی کے جھروکے پر نمودار ہو کر چند بیانات کے گولے داغتی ہیں۔ سطح سیاست پر تلاطم کا سامان کر کے پردہ گرا دیتی ہیں۔ ہمارے محترم صحافی نے بھی بے خودی و ہوشیاری کے امتزاج سے ایسی ہی راہ سلوک دریافت کی ہے۔ حضرت کا قلم مہینوں کے لیے رنجک چاٹ جاتا ہے اور پھر جو دریائے معانی میں طوفان اٹھتا ہے تو حضرت کی صحافت سے آشنا حلقے جان لیتے ہیں کہ معنی کی سرزمیں پہ نزول سروش ہے۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ ہمارے محترم صحافی علم اور خبر کی نزاکتیں سمجھتے ہیں۔ کم از کم ایسی بے پر کی نہیں اڑاتے جس سے قوم کی جگ ہنسائی ہو۔ مثال کے طور پہ سابق قومی کرکٹر عبدالرزاق نے بھارتی اداکارہ ایشوریا رائے کے بارے میں کچھ گل افشانی کی ہے۔ کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ رمیز راجہ نے سر ویوین رچرڈ پر ایسا نسل پرستانہ تبصرہ کیا کہ انکے خیر خواہوں کو سابق وزیراعظم عمران خان کے حضور ان کی سراپا اطاعت بدن بولی بھول گئی۔ عبدالرزاق اور رمیز راجہ تو کھلاڑی ہیں۔ ان سے تہذیب و تمدن کے رموز و نکات جاننے کی توقع نہیں کی جاتی۔ محترم نواز شریف تو تین بار ملک کے وزیراعظم رہے ہیں۔ اپنی سیاسی جماعت کے ازکار رفتہ حلقوں کی دل آسائی کیلئے خواتین نیز رقص اور گائیکی کے بارے میں پے در پے ایسے بیان دیے ہیں جن سے محض یہ خبر ملتی ہے کہ میاں صاحب نے پاکستان میں اختیار اور بے اختیاری کی منزلیں تو طے کر لیں مگر اس دھرتی کی تاریخ، روایت اور ثقافت سے ہنوز نابلد ہیں۔ عصر حاضر میں تنوع کے احترام اور جمہوریت کے مشمولہ تصورات بھی نہیں سمجھتے۔ ہندو ہم وطنوں کے تہوار دیوالی پر تقریب میں شرکت قابل تحسین ہے لیکن وادی سندھ کے ہزاروں برس پرانے ثقافتی دھاروں کو قومی سیاست کے خمیر میں شامل کرنا ایک اور طرح کی ذہنی بلوغت کا مطالبہ ہے۔ میاں نواز شریف سے تو محترمہ مریم نواز کی خاموشی بہتر ہے۔ کم از کم انہیں صحافی ہونے کا دعوی تو نہیں۔ ورنہ ان سے ضرور پوچھا جاتا کہ اگر ہندو اور مسیحی ہم وطن برادری ہیں تو مسلم شہری کس بنا پر قوم کہلاتے ہیں۔ دستور کی شق 25 تو کچھ اور کہتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ