”ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ‘ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم ”…تحریر:نصیر احمد سلیمی

ایک شخص… ایک عہد کی مستند تاریخ
مولانا محمد ظفر احمد انصاری فروری 1905 میں الٰہ آباد شہر کے قریب واقع منڈارا نامی گائوں میں پیدا ہوئے۔ اُن کے آبا و اجداد سلطان محمود غزنوی کے بھانجے سالار مسعود غازی کے ساتھ عرب سے ہجرت کر کے ہندوستان کے شہر بہرائچ میں آباد ہوئے تھے۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد جب مسلمانوں پر حالات تنگ ہوئے تو مولانا انصاری کا خاندان منڈارا منتقل ہو گیا۔ مولانا انصاری کے والد حافظ فضل الرحمن اور دادا مولانا نور محمد کا تعلق درس و تدریس کے شعبے سے تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ کپڑے کی تجارت بھی کرتے تھے۔ یہ اس زمانے کے اہل علم کا عام معمول تھا کہ درس و تدریس کے ساتھ معاش کے لیے کوئی پیشہ بھی اختیار کیا کرتے تھے۔ مولانا ظفر احمد انصاری کی رحلت 20 دسمبر 1991ء کو ہوئی۔
قیام پاکستان کے بعد ان کا مستقل قیام کراچی میں ہی رہا جہاں انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ سعید منزل کے سامنے واقع 12/18 ایم اے جناح روڈ کے کرائے کے ایک فلیٹ میں گزارا۔ اسی فلیٹ میں ملک اور بیرون ملک سے آنے والی بڑی بڑی علمی’ ادبی اور سیاسی شخصیات ان سے ملاقات کے لیے تشریف لاتی تھیں۔ مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی جب بھی پاکستان آتے تو ان کی قیام گاہ پر بھی تشریف لاتے۔ اسی طرح اخوان المسلمون کے رہنما کراچی تشریف لاتے تو وہ انصاری صاحب سے ملنے کے لیے آتے۔ اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء شہید کے داماد سعید رمضان کا کراچی میں برسوں قیام رہا۔ اُن کا وہاں آنا روز کا معمول تھا۔ یہاں آنے والوں میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی’ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین’ دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیزالدین’ میاں عبدالباری، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع’ میاں طفیل محمد، میاں ممتازدولتانہ’ نواب زادہ نصراللہ خان’ ماہرالقادری’ ڈاکٹر الٰہی علوی’ اسماعیل احمد مینائی’ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن عمر حیات ملک (تحریک پاکستان کے اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل کی حیثیت سے ان کاتاریخی کردار ہے’ قیام پاکستان کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی کے پہلے  وائس چانسلر تھے) ‘ مولانا ناظم ندوی (جو مولانا انصاری کے سمدھی بھی تھے)’ پروفیسر حسن ریاض (استاد جامعہ کراچی’مصنف ”پاکستان ناگزیر تھا”)’ ماہر تعلیم’ ملک کے مزاح شاعرسید محمد جعفری’خلیق نذیری’ سردار عبدالقیوم’ کے ایچ خورشید’ سردار امین خان لغاری’ مطلوب الحسن سید’ مولانا حسن مثنیٰ ندوی’ڈاکٹر حمیداللہ’ بابا ذہین شاہ تاجی’ پیر ہاشم جان سرہندی’ مولانا عبدالرشید نعمانی’ مفتی جعفر حسین مجتہد’مولانا متین خطیب’ پروفیسر محمد سلیم’ مولانا طاسین’ چوہدری محمد اشرف باجوہ’ مولانا عبدالغفار’ زبیر بن عمر’ جسٹس محمد افضل چیمہ’ جسٹس نورالعارفین’ جسٹس عبادت یار خان’ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی’ الطاف حسن قریشی’ محمود احمد مدنی’ ڈاکٹر نثار زبیری اور کئی دیگر معززین شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما چوہدری غلام محمد مرحوم جب تک حیات تھے اور وہ کراچی میں موجود ہوتے تو کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا تھا جب وہ شام کو گھر جانے سے پہلے وہاں نہ آتے ہوں۔ 1962 اور 1970 کا الیکشن لڑنے کے لیے انہیں آمادہ کرنے میں چوہدری غلام محمد مرحوم کا بنیادی کردار تھا۔ افسوس کہ وہ 1970 میں ان کی کامیابی کو نہ دیکھ سکے اور الیکشن سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا۔
ساری زندگی کرچی میں رہنے کے بعد اپنے انتقال سے محض چند ہفتے پہلے مولانا انصاری اپنے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کے پیہم اصرار پر اسلام آباد میں ان کے گھر منتقل ہو گئے تھے۔ وہیں ان کی طبیعت خراب ہوئی اور دو دن کی مختصر علالت کے بعد وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ڈاکٹر محمود احمد غازی نے پڑھائی۔ نمازجنازہ میں ان کے خاندان کے افراد کے علاوہ ملک بھر سے آئے ہوئے ان کے معتقدین اورملک کی معروف شخصیات شریک ہوئی تھیں جن میں میاں محمدنواز شریف’  سردار فاروق لغاری (سردار فاروق لغاری کا ان سے تعلق زمانہ طالب علمی سے تھا’ وہ جب بھی کراچی آتے تو انصاری صاحب کے یہاں ضرور آتے اور گھنٹوں وہاں بیٹھتے)’ چوہدری شجاعت حسین’ راجہ ظفر الحق’ شیخ الجامعہ ڈاکٹر انوار حسین صدیقی’ سید منور حسن’  پروفیسر خورشید احمد’ ڈاکٹر انیس احمد’ الطاف حسن قریشی’ مجیب الرحمن شامی’ سید فصیح اقبال اور متعدد ارکان قومی اسمبلی و سینیٹ بھی شامل تھے۔
1926ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار بیک وقت تین مسلمان طلباء نے اپنے اپنے شعبوں میں ٹاپ کیا تھا۔ ان میں مولانا محمد ظفر احمد انصاری نے ایم اے فلسفہ میں ٹاپ کیا’ ان کے قریبی دوست ظفر الحسن لاری نے معاشیات میں اور محمد اقبال (جو بعد میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے) نے پولیٹیکل سائنس میں ٹاپ کیا تھا۔ مولانا ظفر احمد انصاری نے دو سال بعد الٰہ آباد یونیورسٹی سے ہی ایل ایل بی کے امتحان میں بھی ٹاپ کیا۔ تدریس مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ الٰہ آباد یونیورسٹی میں ہی بطور استاد اور ریسرچ فیلو خدمات انجام دیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب علامہ اقبال الٰہ آباد تشریف لائے اور اپنا مشہور خطبہ الٰہ آباد پیش کیا۔ انصاری صاحب کی خوش نصیبی تھی کہ وہ بھی یہ خطبہ سننے والوں میں شامل تھے اور علامہ اقبال سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا۔ انصاری صاحب علامہ اقبال سے حد درجہ متاثر تھے۔ انہوں نے 30 کے عشرے میں ”پیامِ حریت” کے عنوان سے ایک طویل نظم لکھی تھی۔ 1969ء میں ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے زیر انتظام  ہفت روزہ ”زندگی” کا اجراء ہوا تو اس کے مدیر جناب مجیب الرحمن شامی نے انصاری صاحب کی یہ نظم شائع کی اور اس پر نوٹ لکھا ”انصاری صاحب کی نظم علامہ اقبال کے رنگ میں کہی گئی ہے۔”
”پیام حریت” کے پہلے صفحے پر انصاری صاحب نے علامہ اقبال کے فارسی کلام کا یہ شعر نقل کیا ہے:
”مزاجِ ناقہَ را مانند عرفی نیک می دانم
حُدی را تیز تر خوانم چوں محمل را گراں بینم”
انصاری صاحب نے ”پیام حریت” کا انتساب مسلمانانِ ہند کے نام کرتے ہوئے لکھا:
”اب سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے ریگ زارِ عرب کے ایک خرقہ پوش اُمی کا پیام لے کر بادیہ نشینوں کی ایک بے سرو سامان قوم اٹھی جس نے نصف صدی میں زمین کے ایک ثلث پر ربانی حکومت قائم کر دی اور عالمگیر مساوات’ جہاں آرا اُخوت’ گیتی افروز تمدن’ کائنات کشا علم و عمل کا پرچم لہرا کر اپنے کو خیرالامم ثابت کر دکھایا۔ اگر وہ قوم اب بھی زندہ ہے تو یہ ”پیامِ حریت” اسی کے نام معنون ہے۔
دِلم بشگاف و ذوقِ اضطرابم را تماشاکُن”
(ظفر انصاری)
انصاری صاحب کی اس طویل نظم کو ایک مختصر مضمون میں شامل کرنا تو ممکن نہیں’ البتہ چند ابتدائی اور اختتامی اشعار نقل کیے جا رہے ہیں:
دے رہا ہوں قلبِ مسلم کو نویدِ اضطراب
خاکِ افسردہ میں پھر پیدا ہو ذوقِ اِلتِہاب
پھر رگِ بازو میں کھائے زورِ حیدر پیچ و تاب
پھر نظر کے سامنے پھرنے لگے خیبر کا باب
سن کہ پیغام حیاتِ جاوداں دیتا ہوں میں
تودۂ گِل کے لیے روحِ رواں دیتا ہوں میں
٭
عبائوںمیں پیوند’ پتھر شکم پر
قدم کے تلے تاجِ کسریٰ و قیصر
غذا نانِ جو’ وہ بھی کم تر میسر
مگر ہاتھ میں زورِ تسخیر ِ خیبر
کبھی اہل ایماں کی پہچان یہ تھی
کبھی اہلِ اسلام کی شان یہ تھی
٭
مسلمِ نادار پھر جنسِ حمیت لے کے اٹھ
پھر اُسی قرآن سے درسِ اخوت لے کے اٹھ
٭
کیا ہوا مسلم وہ زورِ ناشکیبائی ترا؟
کیا ہوا وہ اضطرابِ موجِ دریائی ترا؟
کیا ہوا جوشِ جنوں اے حق کے سودائی ترا؟
کیا ہوا وہ جذبۂ کونین پیمائی ترا؟
اُٹھ مکاں و لامکاں کی دل میں وسعت لے کے اٹھ
٭
انصاری صاحب کے گھر پر سال میں کم سے کم دو بار تو شعری نشستیں ضرور ہوتی تھیں۔ ایک سردی کے موسم میں اور ایک گرمی کے موسم میں۔
انصاری صاحب الٰہ آباد یونیورسٹی سے فلسفہ میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والوں میں شامل تھے۔ قانون کی تعلیم بھی الٰہ آباد سے حاصل کی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد تفسیر قرآن’ حدیث اور فقہ کی باقاعدہ تعلیم سبقاً سبقاً کراچی میں علامہ خلیل عرب اور مولانا حکیم سعید اشرف سے حاصل کی تھی۔ انصاری صاحب کے ساتھ ماہر القادری مرحوم، اسماعیل احمد مینائی مرحوم اور ڈاکٹر منظور احمد بھی پڑھنے والوں میں شامل تھے۔
اسی طرح انصاری صاحب نے گاندھی جی کے قریبی دوست اندولال یاجنک کی قیام پاکستان سے قبل شائع ہونے والی کتاب  ”Gandhi As I know him”کا اردو ترجمہ ”پیر ِ سابرمتی” کے نام سے کیا جسے خاصی مقبولیت ملی۔ چند سال قبل یہ ترجمہ دوبارہ شائع کیا گیا جسے تاریخ ہند سے دل چسپی رکھنے والے افراد میں کافی سراہا گیا۔
انصاری صاحب اردو، انگریزی، فارسی اور عربی پر عبور رکھتے تھے۔ عربی زبان سے ان کی محبت اس درجہ تھی کہ اپنے تمام بچوں کی شادی کے دعوت نامے ایک طرف عربی اور دوسری طرف اردو میں خود تحریر کیے۔ یاد رہے کہ وہ اتنے خوش خط تھے کہ دعوت نامے کاتب سے لکھوانے کے بجائے خود لکھتے تھے۔
انصاری صاحب نے 1941ء میں سرکاری ملازمت سے جہاں وہ سینٹرل بورڈ آف ریونیو میں بطور افسر تعینات تھے’ مستعفی ہو کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ مولانا ظفر احمد انصاری نے یہ فیصلہ اس شعور کے ساتھ کیا تھا کہ ”اگر برصغیر کا مسلمان خدانخواستہ آزادی کے حصول کی یہ جنگ ہار گیا تو ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندو مت کا اجتماعی بپتسمہ اس طرح دیا جائے گا کہ دنیا ہسپانیہ میں مسلمانوں کو دیے جانے والے عیسائیت کے بپتسمہ کے بعد ہونے والے ظلم وستم کی تاریخ کو فراموش کر دے گی۔” (آج بھارت میں نریندر مودی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے وہ مولانا انصاری کے خدشات کو درست ثابت کر رہا ہے۔)
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے قائداعظم کی صدارت میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری اجلاس میں شرکت کی’ جس میں قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت سے مستعفی ہونے ، آل انڈیا مسلم لیگ کے خاتمے اور انڈیا مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ کے نام سے الگ الگ لیگ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ انصاری صاحب نے قیام پاکستان کے بعد جماعتی سیاست سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کو درپیش دیگر مشکلات سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ جماعتی سیاست کے بارے میں انصاری صاحب کی سوچی سمجھی رائے یہ تھی کہ مسلمانوں کے ملک میں الگ الگ جماعتیں بنانا اور حصول اقتدار کی کوشش کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ (واضح رہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا ریکارڈ دو شخصیات کے پاس تھا جو وہ اپنے ساتھ پاکستان لے کر آئے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری سید شمس الحسن صاحب اور مولانا ظفر احمد انصاری دونوں نے اپنے پاس موجود ریکارڈ رکھنے اور اس سے منفعت حاصل کرنے کے بجائے اس کو جامعہ کراچی کو دے دیا تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے وہ محفوظ رہے۔)
انصاری صاحب نے قیام پاکستان کے فوراً بعد انڈین سول سروس میں موجود تجربہ کار اور قابل افراد کو پاکستان لانے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا اور وہ تمام حضرات پاکستان میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہے مگر کبھی بھی ان سے اپنے خاندان کے لیے کسی معاملے میں کوئی سفارش کی نہ کوئی منفعت حاصل کی۔ ان کے قریب ترین لوگوں میں معروف شاعر فضل احمد کریم فضلی بھی تھے جو ان سے ہمیشہ کہتے تھے کہ ”انصاری صاحب ہمیں بھی کوئی خدمت کرنے کا موقع تو دیں۔” تو وہ جواب میں کہتے کہ ”آپ پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں’ یہ ہماری ہی خدمت تو ہے۔” جب کہ وہ کسی دوسرے ضرورت مند کی مدد کرنے اور ان کے لیے دوسروں سے کہنے میں کوئی تکلف اور عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ مجھے ملک کے معروف اسکالر اور شاعر محترم احمد جاوید صاحب نے بتایا کہ میرے والد کو بھی انصاری صاحب نے ہی پاکستان آنے پر آمادہ کیا۔
وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل نواب زادہ لیاقت علی خان کے معتمدین میں شامل تھے اور اسی وجہ سے انہیں آل انڈیا مسلم لیگ ایکشن کمیٹی کا بھی سیکرٹری بنایا گیا اور آل انڈیا مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کا بھی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی انصاری صاحب اور وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے درمیان یہ رشتہ اسی طرح برقرار رہا  جس کی وجہ سے انہوں نے دستور سازی کے سلسلے میں قابل قدر خدمات انجام دیں۔ پاکستان کی دستور سازی کی تاریخ میں خواہ وہ 1954 کا دستور ہو جس کو نافذ ہونے سے پہلے ہی گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دفن کر دیا تھا یا 1956 کا دستور جو تمام مراحل مکمل کرنے کے بعد نافذ ہوا اور جس کے تحت ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات ہونے تھے اور جس کے بارے میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قدآور لیڈر حسین شہید سہروردی نے اسمبلی کے فلور پر یہ اعلان کیا تھا کہ اس دستور نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے صوبائی خود مختاری کا مسئلہ 98 فیصد حل کر دیا ہے اور باقی  بھی اس دستور کے تحت ہونے والے انتخابات اگر آزادانہ’ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ طور پر عمل میں آ گئے تو ملک کا صوبائی خود مختاری کے حوالے سے 100 فیصد مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔ اس انتخاب کے نتیجے میں جو جماعت بھی اکثریت حاصل کرے گی خواہ اس جماعت کے لیڈر کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہو یا مغربی پاکستان سے’ وہ ملک کا متفقہ وزیراعظم ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے ملک کے پہلے مہم جو کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان نے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا کی ملی بھگت سے ملک میں مارشل لا نافذ کرکے دستور کے خاتمے کا اعلان کر دیا جو ایک طرح سے ملک کو دولخت کرنے کا فیصلہ ثابت ہوا۔ پاکستان کے مسائل و مصائب کا ادراک رکھنے والے سب ہی لوگ اس اقدام سے ہل کر رہ گئے۔ انصاری صاحب بھی ان ہی شخصیات میں سے ایک اہم شخص تھے لیکن اللہ نے انصاری صاحب کو یہ حوصلہ دے رکھا تھا کہ وہ کسی وقت بھی پاکستان کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی تگ و دو سے دست کش نہیں ہوئے۔ جب ایوب خان کے بعض مشیروں نے انہیں عربی رسم الخط کے بجائے ملک میں رومن رسم الخط اختیار کرنے پر قائل کر لیا تو انصاری صاحب ان سے ملے اور ان کو یہ چیز باور کرائی کہ اگر ایسا ہوا تو سب سے زیادہ نقصان آپ کا ہوگا’ جس کے بعد پاکستان میں رومن رسم الخط اختیار کرنے کا باب بند ہوا۔
انصاری صاحب 60 کے عشرے میں پانچ’ چھے برس موتمر عالم اسلامی کے تحت اسلامک سینٹر جنیوا میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے مقیم رہے جہاں انہوں نے مغرب میں آنے والے مسلمانوں اور خاص طور سے حصول علم کے لیے آنے والے نوجوانوں کے لیے انگریزی زبان میں قرآن پاک اور احادیث اور سیرت النبیۖ پر مشتمل کتابوں کی اشاعت کا انتظام کیا جس کے بڑے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ اس کی تفصیل اردو ڈائجسٹ کے مدیر اعلیٰ محترم الطاف حسن قریشی نے انصاری صاحب سے لیے جانے والے اپنے انٹرویو میں شائع کی۔ اسی انٹرویو میں انصاری صاحب نے صہیونیوں کی عالمگیر سازش کا پردہ چاک کیا اور اس سے نمٹنے کے لیے اربابِ اقتدار و اختیارات کو متوجہ کیا ۔ بھٹو دور میں پاکستان میں فری میسن ہال کا بند ہونا انہی خطرات سے محفوظ رہنے کا فیصلہ ہے۔ (واضح رہے کہ ترکی (ترکیہ) میں خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے میں صہیونی طاقتوں اور فری میسن لاجز کا بنیادی کردار رہا۔) مولانا انصاری نے جنیوا کے علاوہ لندن میں بھی متعدد بار مہینوں قیام کیا اور وہاں اسلام کے فروغ کے لیے جو تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان کے قیام میں بھی انصاری صاحب کا بڑا حصہ ہے۔
حاشر فاروقی مرحوم کے زیر ادارت ”امپیکٹ” رسالے کے اجرا کا سہرا تو انصاری صاحب کے سر اس طرح ہے کہ انہوں نے ہی حاشر فاروقی صاحب کو اس پر آمادہ کیا تھا کہ انگریزی زبان میں ایک معیاری پرچہ لندن سے نکلنا چاہیے۔ اس کے لیے انہوں نے پاکستان میں اپنے کچھ نیاز مندوں سے مالی وسائل بھی فراہم کرائے۔
سعودی فرمانروا سعود بن عبدالعزیز نے جب رابطہ عالم اسلامی قائم کیا تو دنیا بھر سے مستند اہل علم و اہل دانش کو اس میں شامل کیا گیا جن میں پاکستان سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا ظفر احمد انصاری بانی ارکان میں شامل تھے جب کہ ہندوستان سے ندوة العلما کے سربراہ مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی اور غالباً مولانا منظور احمد نعمانی تھے۔
مولانا ظفر احمد انصاری دارالعلوم کراچی کی مجلس منتظمہ کے بانی ارکان میں سے تھے۔ انہوں نے ہی دارالعلوم کراچی کے بانی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع کو اس پر آمادہ کیا تھا کہ آزادی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت فروغ تعلیم بھی ہے’ اس لیے آپ اپنے ادارے میں جدید عصری علوم پڑھانے کا بھی بندوبست کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں دارالعلوم کراچی پہلا دینی ادارہ ہے جس نے سب سے پہلے اپنے طلبہ کے لیے اختیاری مضمون کے طور پر انگریزی پڑھانے کے لیے استاد رکھا۔ اور آج دارالعلوم کورنگی میں نہ صرف طلبہ اور طالبات کے لیے دینی علوم کے ساتھ میٹرک سسٹم کے تحت اسکول اور کالج قائم ہیں بلکہ آکسفورڈ سسٹم کے تحت بھی ایک شان دار ادارہ قائم ہے۔ یہاں اس کا ذکر غیر ضروری نہ ہوگاکہ جسٹس ریٹائرڈ مفتی محمد تقی عثمانی کی شادی جس خاندان میں ہوئی ان کا تعلق بھی الٰہ آباد سے تھا اور مفتی تقی عثمانی کی اہلیہ کے والد محترم جناب شرافت صاحب مرحوم الٰہ آباد میں انصاری صاحب کے بہت قریبی لوگوں میں سے تھے۔
60 کے عشرے میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی سربراہی میں ”اسلامک ریسرچ اکیڈمی” کے نام سے ادارہ قائم ہوا۔ اس کے بانی ارکان میں مولانا ظفر انصاری کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی سربراہی میں جمعیت الفلاح کے نام سے قائم ہونے والے اسلامی مرکز کے بانی ارکان میں بھی انصاری صاحب شامل تھے جس کے تحت ایک زمانے میں ہر سال بڑے پیمانے پر پاکستان اور بیرون پاکستان سے سیرت النبیۖ  پر ہونے والی کانفرنس کئی کئی دن بڑے اہتمام سے کرتی تھیں۔
مولانا انصاری مرحوم نے قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے کے بعد ہی پاکستان میں عربی کی ترویج و اشاعت کے لیے کراچی میں عبداللہ ہارون روڈ کے عقب میں”جمعیت العربیہ” کے نام سے ادارہ قائم کیا تھااور اس ادارے کا پہلے صدر اس وقت کے اسٹیٹ بنک کے گورنر زاہد حسین مرحوم کو بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کا دوسرا صدر حاجی مولابخش سومرو کو بنایا گیا۔ مولانا نے اس ادارے کے لیے 900 گزکا قطعہ اراضی بھی حکومت سے رعایتی قیمت پرحاصل کیا تھا جو اس وقت بھی موجود ہے۔ اس ادارے نے ملازمت پیشہ پڑھے لکھے ہزاروں نوجوانوںکو عربی کی تعلیم کے لیے شام کے اوقات میں مواقع فراہم کیے تاکہ وہ ملازمت سے فارغ ہو کر آسانی سے تعلیم حاصل کرسکیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب عرب ممالک میں ملازمت کے مواقع آئے تو اس ادارے سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوںکو آسانی سے ملازمت مل گئی۔
مولانا انصاری صاحب 1986ء میں سعودی عرب اور حکومت پاکستان کے اشتراک سے بین الاقوامی سطح کی اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد کے ساتھ قائم ہونے والی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے بورڈ کے بھی رکن رہے۔ (واضح رہے اب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا بہت بڑا کیمپس الگ بھی قائم ہو چکا ہے۔)
یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ مولانا انصاری قادیانی مسئلے کو حل کرانے میں زندگی بھر مصروف عمل رہے۔ بھٹو مرحوم کو بھی انصاری صاحب نے ہی اس کا آئینی حل پارلیمنٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ اس کے لیے پوری قومی اسمبلی کو عدالت میں تبدیل کیا گیا اور اُس وقت کے اٹارنی جنرل پاکستان یحییٰ بختیار کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ قادیانی جماعت (احمدی جماعت) ربوہ کے سربراہ مرزا ناصر کو قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کا مؤقف پیش کرنے کا موقع فراہم کریں۔ انصاری صاحب بیماری کے باوجود اس کام میں دن رات مصروف رہے اور قومی اسمبلی میں موجود تمام دینی جماعتوں کے سربراہوں اور ملک بھر کے جدید اور قدیم علوم کے ماہر اہل علم کو جمع کرکے یحییٰ بختیار کے لیے سوالات مرتب کیے جو وہ قادیانی مذہب کے بانی مرزا غلام احمد کے پوتے اور موجودہ احمدی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر سے کرتے تھے۔ مرزا ناصر نے ان سوالات کے جوابات میں ہی کہا ”مرزا غلام احمد کو ہم مسیح موعود مانتے ہیں اور جو یہ عقیدہ نہ رکھے ہم اسے مسلمان نہیں مانتے۔” اس کے بعد متفقہ طور پر قومی اسمبلی نے مرزا غلام احمد اور اس کے ماننے والوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح ان کے لیے بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں الگ نشستیں مختص کردیں۔
مولانا انصاری نے جنوبی افریقہ کا بھی سفر کیا تاکہ وہاں کے مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان ہونے والی عدالتی جنگ میں قانونی معاونت فراہم کریں۔پاکستان سے جناب خالد اسحاق اور جدید اور قدیم علوم کے ماہر جسٹس ریٹائرڈ مفتی محمد تقی عثمانی قابل ذکر ہیں۔
انصاری صاحب کے پاس قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے فیصلے کے بعد ایک گروہ ایک محضر نامے پر یہ دستخط کرانے کے لیے آیا کہ پاکستان ٹیلی ویژن اور دیگر اداروں سے قادیانیوں کو فارغ کیا جائے۔ خاص طور سے ان کا مطالبہ تھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن میں موجود معروف شاعر عبیداللہ علیم کو قادیانی ہونے کے باعث نوکری سے نکالا جائے۔ اس پر مولانا انصاری نے یہ کہہ کر دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ پاکستان کے دستور کی خلاف ورزی اور اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ دستور کے تحت غیر مسلم ملک کا صدر اور وزیراعظم نہیں ہوسکتا۔ باقی عہدوں پر وہ اپنی اہلیت اور قابلیت کی بنا پر فائز اور ترقی کرسکتا ہے۔
یہاں ایک واقعہ کا ذکر کرنا غیر ضروری نہیں ہوگا۔ میں اس کا عینی شاہد تو نہیں ہوں مگر انصاری صاحب کے پاس موجود چند افراد سے میں نے معلوم کیا تو انہوں نے اس واقعہ کی تصدیق کی تھی۔ یہ واقعہ قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پیش ہونے کے وقت کا ہے کہ کراچی میں سعید منزل کے سامنے واقع انصاری صاحب کی قیام گاہ پر ایک دن مغرب کی نماز کے بعد ایک سفید ریش بزرگ تشریف لائے اور انصاری صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ حرم کعبہ میں رسالت مآبۖ  تشریف فرما ہیں اور سامعین میں سے کسی نے پاکستان میں ختم نبوت پر ہونے والے حملوں کی طرف متوجہ کیا۔ جس پر رسالت مآبۖ نے آپ کا نام لے کر کہا کہ ”کہاں ہے ظفر احمد” تو آپ کھڑے ہو گئے اور آپۖ نے فرمایا کہ ”جائو اس مسئلے کو حل کرو۔” اور یہ کہتے ہی وہ بزرگ الٹے پائوں واپس تشریف لے گئے۔ وہاں موجود ایک صاحب ان کے پیچھے دوڑے تو وہ نظر نہیں آئے۔ اس کے بعد انصاری صاحب کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے اور وہ وضو کرنے کے بعد مصلے پر سجدہ ریز ہوگئے۔
انصاری صاحب ہمیشہ یہ بات کہا کرتے تھے کہ اگر آپ کی جیب میں اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لیے نوکری کی درخواست’ پلاٹ پرمٹ کی فائل موجود نہ ہو تو آپ پاکستان کے مفاد کے لیے کسی کے پاس بھی جا سکتے ہیں اور اس کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ انصاری صاحب نے زندگی بھر اپنا یہی مسلک رکھا جس کی وجہ سے اللہ نے انہیں ہمیشہ سرخ رو کیا۔ انہوں نے کسی حکمران سے نہ کبھی پلاٹ پرمٹ لیا اور نہ کوئی منصب و عہدہ طلب کیا۔
انصاری صاحب 1970ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والے اُن چند ارکان قومی اسمبلی میں سے ایک تھے جنہوں نے ارکان قومی اسمبلی کے لیے اسلام آباد میں پلاٹ حاصل کرنے کا استحقاق ہونے کے باوجود پلاٹ نہیں لیا تھا۔ انصاری صاحب کے علاوہ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ارکان نے بھی کوئی پلاٹ نہیں لیا تھا۔
مولانا انصاری نے 70ء کی اسمبلی میں آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے ان ارکان کو جو حکومت کے دبائو کے باوجود سرکاری پارٹی میں شامل ہونے پرآمادہ نہیں ہوئے تھے ‘آزاد گروپ کی حیثیت سے متحد کرنے میں تگ و دو کی اور متفقہ طور پر سردار شیر باز مزاری کو اس کا سربراہ منتخب کیا۔ آزاد گروپ نے قومی اسمبلی کی دستور ساز کمیٹی کے لیے اپنا نمائندہ متفقہ طور پر انصاری صاحب کو چنا۔
انصاری صاحب کو 1954 اور 1956 کے دستور کی تیاری میں بورڈ آف تعلیمات کے سیکرٹری کی حیثیت سے جو تجربہ ہواتھا وہ 1973 کے دستور کی تیاری میں تمام گروپوں میں افہام و تفہیم پیدا کرنے میں نہایت کارگر ثابت ہوا۔ جب ایک مرحلے پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سانحہ لیاقت باغ راولپنڈی کے بعد (جس میں متحدہ حزب اختلاف کے ہونے والے جلسے میں حکومتی سرپرستی میں گولیاں برسائی گئی تھیں جس سے بے شمار کارکن شہید ہو گئے تھے اور ان کی بڑی تعداد عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں کی تھی۔) کشیدگی اور تلخی کے باعث دستور سازی کے کام میں تعطل پیدا ہو گیا تھاجسے دور کرنے میں انصاری صاحب کا تجربہ کام آیا اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ اگر دستور مکمل نہ ہوا تو آپ کا اپنے اقتدار کا جواز بھی باقی نہیں رہے گا’ یہ آپ کے اپنے اور قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ دستور سازی کا کام جلدازجلد مکمل ہو اور اس کے لیے حزب اختلاف سے بات چیت کرنے میں پہل آپ کو کرنا ہوگی۔بھٹو مرحوم نے اُن کی اس تجویز کو قبول کیا اور حزب اختلاف سے بات چیت کی جس کے نتیجے میں حزب اختلاف نے بھٹو کی تجویز کو قبول کرکے مثبت جواب دیا اور یوںدستور سازی کا کام جہاں پر رکا تھا وہیں سے دوبارہ شروع ہوگیا۔ انصاری صاحب کی اس خدمت کا اعتراف حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے ہی کیا۔
ملک کے پہلے وزیراعظم شہید ملت خان لیاقت علی خان کے زمانے میں اسمبلی کے قائم کردہ بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ کو 1954 کے دستور کے ساتھ ہی ملک غلام محمد نے دفن کر دیا تھا۔ تاہم انصاری صاحب اور 1956 کے دستور کے خالق وزیراعظم چوہدری محمد علی کے درمیان پہلے سے تعلقات کی وجہ سے چوہدری محمد علی صاحب نے انصاری صاحب کی خدمات سے استفادہ جاری رکھا۔
یہاں بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ کے ارکان کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ کا صدر علامہ سید سلیمان ندوی کو بنایا گیا تھا۔ وہ اگرچہ آل انڈیا مسلم لیگ میں باقاعدہ شامل تھے تاہم ”سیرة النبیۖ” کی تصنیف کی مصروفیات کے باعث وہ 1947ء میں پاکستان نہیں آئے تھے اور دارالمصنفین اعظم گڑھ (بھارت) میں ہی مقیم تھے۔ ان کو صدر بنایا گیا تو انصاری صاحب نے علامہ سید سلیمان ندوی کو پاکستان آنے پر آمادہ کیا۔ بورڈ آف تعلیمات کے دیگر ارکان میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع’ ڈاکٹر حمید اللہ (پیرس والے)’ پروفیسر عبدالخالق، مفتی جعفر حسین مجتہد اور ظفر احمد انصاری شامل تھے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی اور انصاری صاحب کے درمیان حد درجہ اعتمادکا رشتہ تھا اسی لیے جب آل انڈیا مسلم لیگ نے یہ فیصلہ کیا کہ جمعیت العلمائے ہند کوجس کی سربراہی اُس وقت حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے پاس تھی’ پاکستان کی حمایت پر آمادہ کیا جائے۔ مولانا انصاری اس کام کے لیے دیوبند گئے اور علامہ شبیر احمد عثمانی کے یہاں قیام کیا جس کو مخفی رکھا گیا تھا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی دارالعلوم دیو بند میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کی حمایت میں علماء کو قائل کرنے کی کوششیں اور کاوشیں کر رہے تھے۔ علما کی طرف سے قائداعظم محمد علی جناح اور خان لیاقت علی خان کی ذات کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے گئے تھے ان پر علامہ شبیر احمد عثمانی کو علما کے اجلاس میں کہنا پڑا کہ اس کے جواب کے لیے میں انصاری صاحب کو جو میرے ہاں مہمان کے طور پر مقیم ہیں’ کل اپنے ساتھ اجلاس میں لے آئوں گا۔
انصاری صاحب سوچ میں پڑ گئے کیوں کہ ابھی تک انہوں نے اپنی آمد کو اخفا میں رکھا ہوا تھا۔ تاہم انہوں نے علامہ صاحب سے پوچھا کہ وہاں کیا معاملات ہوتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ عشاء کی نماز اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم اجلاس میں جاتے ہیں اور فجر کی اذان سے ذرا پہلے اجلاس ختم ہوتا ہے۔ انصاری صاحب اگلے دن اجلاس میں شریک ہوئے اور وہاں اٹھائے گئے سوالات سنتے رہے۔ اجلاس ختم ہونے سے پانچ منٹ پہلے انہوں نے کہا کہ میں آپ حضرات کا مشکور ہوں کہ اس ناچیز کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی’ میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ جو سوالات تھے ان کے جوابات تو علامہ شبیر احمد عثمانی دے چکے ہیں۔ جو دو سوالات قائداعظم اور لیاقت علی خان کی ذات سے متعلق ہیں ان پر عرض یہ ہے کہ قائداعظم اگر بمبئی میں ہوں تو نماز عید بمبئی کی معروف عیدگاہ میں ادا کرتے ہیں جس کی امامت مولانا عبدالعلیم صدیقی کے بڑے بھائی مولانا نذیر احمد خجندی کرتے ہیں (جو کہ مولانا شاہ احمد نورانی کے تایا تھے۔ واضح رہے کہ رتی بائی نے قائداعظم سے نکاح سے پہلے مولانا نذیر احمد خجندی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا)۔ جہاں تک عام نمازوں کا معاملہ ہے توکبھی میری قائداعظم سے نمازوں کے اوقات میں ملاقات نہیں ہوئی۔ عام طور سے مسلم لیگ کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس صبح 9 بجے شروع ہوکر ظہر کی نماز سے قبل ختم ہو جاتے ہیں۔ اور رات کو جو اجلاس ہوتے ہیں وہ عشاء کی نماز کے بعد ہوتے ہیں۔ البتہ خان لیاقت علی خان کے ساتھ میرا زیادہ وقت گزرتا ہے۔ میں جب بھی ان کے ساتھ سفر میں رہا میں ان کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ نماز باقاعدگی سے ادا کی۔ البتہ رات کو وہ دیر سے سوتے ہیں’ سفر میں صبح اٹھتے ہی پہلا کام فجر کی نماز کی ادائیگی’ اس کے بعد تلاوت قرآن پاک کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی دیگر مصروفیات ہوتی ہیں۔
جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے میں دونوں کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ کبھی ان حضرات نے میرے سامنے شراب نہیں پی۔ اگر آپ کی مسلم لیگ کی حمایت کے لیے یہی شرط ہے تو پھر آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ نجوا (تجسس) کرنے کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔ اگر آپ اس کی ذمہ داری لیتے ہیں تو میں جاتا ہوں اور دونوں حضرات سے معلوم کرکے آپ کو جواب دے سکتا ہوں۔ اس پر علامہ شبیر احمد عثمانی نے کہا کہ میں اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس کے بعد جن علما کو مسلم لیگ کے مؤقف پر شرح صدر حاصل ہوا انہوں نے مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ (اور اس کی وجہ سے انہیں دارالعلوم دیو بند چھوڑ کر ڈھابیل سورت میں جا کر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔)
مولانا ظفر احمد انصاری کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ وہ غیر منقسم ہندوستان میں اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء شہید کے مجاز نمائندہ تھے۔انصاری صاحب کی کاوشوں سے ہی جب قائداعظم قیام پاکستان سے قبل لندن سے واپسی پر مختصر وقت (ٹرانزٹ)  کے لیے قاہرہ ائرپورٹ پر اترے تو مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی نے بذات خود اور حسن البناء شہید کے نمائندے نے ان کا استقبال کیا۔ بعدازاں دوسری بار لندن سے واپسی پر کچھ وقت کے لیے قاہرہ میں رکے تو مفتی اعظم فلسطین اور حسن البناء شہید بذات خود اپنے رفقا کے ساتھ ائرپورٹ پر موجود تھے۔ حسن البنا شہید نے قائداعظم کو قرآن پاک کا تحفہ پیش کیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت کے دو ٹوک فیصلے کا بھی اعلان کیا۔ بعدازاں ہندوستان سے جمعیت علما ہند کا ایک وفد حسن البناء شہید  اور مفتی اعظم فلسطین سے ملاقات کے لیے قاہرہ آیا اور انہوں نے ان دونوں بزرگوں سے حصول پاکستان کی حمایت سے دستبردار ہو کر جمعیت العلمائے ہند کے مؤقف کی تائید حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ حسن البناء شہید نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم قیامِ پاکستان کے حصول میں آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔
قرارداد مقاصد کا مسودہ تیار کرنے میں علامہ شبیر احمد عثمانی جو خود پارلیمنٹ کے رکن تھے’ کی کاوشوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ علامہ شبیر احمد عثمانی’ مولانا ظفر احمد انصاری اور نواب زادہ لیاقت علی خان کے درمیان جو اعتماد کا رشتہ تھا اس نے قرارداد کی منظوری کے مراحل مکمل کرنے میں آسانی پیدا کی۔ اب یہ بھی کوئی راز نہیں ہے کہ قرارداد مقاصد کا انگریزی ڈرافٹ انصاری صاحب نے ہی تیار کیا تھا۔
یاد رہے کہ مولانا مودودی اس وقت ملتان جیل میں قید تھے۔ قرارداد مقاصد پر مولانا کی تائید حاصل کرنے کے لیے مولانا انصاری نے ملتان جیل میں مولانا مودودی سے ملاقات کی اور ان کی تائید حاصل کی۔ اسی طرح 31 علما کے 22 نکات پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ان کی کاوشوں کا بڑادخل ہے۔ پہلے مرحلے پر انہوں نے تمام مکاتب فکر کے علما کو اس اجلاس میں شرکت کے لیے آمادہ کیا جو کراچی میں مزار قائد کے سامنے حاجی مولابخش سومرو کی قیام گاہ پر منعقد ہوا تھا۔ اس کے لیے وہ ڈھاکہ گئے اور مسلم لیگ کے رہنما مولانا راغب احسن کو راضی کیا جس کے بعد ہی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے دیگر علما اجلاس میں شرکت کے لیے مولانا راغب احسن کے ساتھ کراچی آئے۔
مولانا انصاری کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ تمام مکاتب فکر (بشمول فقہ جعفریہ) کے علما کے درمیان اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ علما کے 22 نکات کی تیاری کے دوران  شیعہ علما کا وفد جو مفتی جعفر حسین مجتہد اور حافظ کفایت حسین مجتہد پر مشتمل تھا’ اپنا مسودہ لے کر آیا تھا جس کو باقی مکاتب فکر کے علماء نے بلا کم و کاست منظور کرلیا تھا۔ اگلے دن یہ حضرات ایک دوسرا مسودہ لے کر آئے تو وہ بھی منظور ہو گیا لیکن تیسرے دن جب یہ تیسرا مسودہ لے کر آئے تو دیگر علما کا موقف یہ تھا کہ آپ کا پہلا مسودہ ہی جامع تھا جو آپ کے تمام تحفظات کا احاطہ کرتا ہے۔ دوسرے اور تیسرے مسودے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ جس پر ان بزرگوں نے کہا کہ ہماری جماعت کا یہ اصرار ہے کہ انہیں شامل کیا جائے۔ اس کے بعد تعطل پیدا ہوا اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے یہ تجویز پیش کی کہ انصاری صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی جائے جو ان کی جماعت کے سربراہ سے جا کر گفت و شنید کے ذریعے مسئلے کو حل کرے۔ تاہم بعد میں مولانا انصاری پر مشتمل ایک رکنی کمیٹی پر اتفاق ہوا۔ اگلے دن مفتی جعفر حسین مجتہد اور حافظ کفایت حسین انصاری صاحب کو آغا آیت اللہ حاجی مرزا مہدی پویا یزدی کی قیام گاہ پرلے کر گئے جہاںانصاری صاحب نے نماز اور کھانے کے وقفے کے سوا پورے نو گھنٹے ان کی گفتگو سنی اس کے بعد انصاری صاحب نے کہا ہمارے خیال میں آپ کا پہلا مسودہ بڑا جامع ہے’ اس پر آپ دوبارہ غور فرما لیں۔ اگر آپ اُس سے مطمئن نہیں ہیں تو یہ چار جملے لکھ دیے جائیں کہ ”دستور اور قانون کے تحت پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کو وہ تمام حقوق ‘مراعات اور تحفظات حاصل ہوں گے جو ایران میں سنی مسلمانوں کو حاصل ہیں۔’ یہ سننا تھا کہ آغا پویا صاحب نے بلا تامل پہلے دن کے مسودے کی توثیق کرتے ہوئے اپنے دستخط کیے اور باقی دونوں بزرگوں نے بھی دستخط کر دیے جس کے بعد انصاری صاحب نے دوسرے اور تیسرے دن کے مسودے انہیں پیش کر دیے جنہیں انہو ں نے خود ہی تلف کر دیا۔
مولانا انصاری ہمیشہ کہتے تھے کہ مسائل تکرار سے نہیں تحمل اور صبر کے ساتھ دوسرے کا مؤقف سننے سے حل ہوتے ہیں۔ اور اللہ کی اس حکمت پر ہمیشہ غور کرو کہ اللہ نے آنکھیں اور کان دو’ دو دیے ہیں اور زبان ایک۔ اللہ کی کوئی چیز حکمت و دانائی سے خالی نہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ان سے بڑا صبر و تحمل کے ساتھ دوسرے کی بات سننے والا سامع نہیں دیکھا۔
انصاری صاحب سخت سے سخت اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی مایوسی کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ انہیں معلوم ہوا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور آزاد کشمیر کے صدر سردار عبدالقیوم کے درمیان حالات اتنے کشیدہ ہوگئے ہیں کہ بھٹو صاحب نے سردار عبدالقیوم کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ خوش قسمتی سے انصاری صاحب اس وقت قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے اسلام آباد میں ہی موجود تھے۔ انہیں جیسے ہی اس کا علم ہوا انہوں نے فوراً اسمبلی میں بھٹو صاحب کے چیمبر میں اُن سے ملاقات کی اور کہا کہ ایسا نہ کریں’ اس سے کشمیر کاز کو بہت نقصان ہوگا۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ آپ نے مشورہ دینے میں دیر کر دی’ میں نے تو ان کی گرفتاری کے لیے ہیلی کاپٹر بھی روانہ کر دیا ہے۔ انصاری صاحب نے برجستہ کہا کہ ابھی معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے’ آپ فوراً سردار عبدالقیوم کو پیغام دیں کہ میں ہیلی کاپٹر بھیج رہا ہوں’ آپ ملاقات کے لیے تشریف لائیں۔ اور دوسرا پیغام اُن کو دیں جنہوں نے انہیں گرفتار کرکے لانا  ہے کہ وہ سردار عبدالقیوم کو مہمان کے طور پر لے آئیں۔ اس طرح ایک ناخوشگوار واقعہ ہونے سے بچ گیا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو پاکستان کے دشمن اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرتے۔
انصاری صاحب کی ایک بڑی خدمت یہ تھی کہ انہوںنے بھٹو کو جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں کے خلاف اقدام سے باز رکھا۔ بھٹو صاحب نے انصاری صاحب سے اپنی پہلی ملاقات میں ہی جماعت اسلامی کا نام لے کر کہا تھا کہ ”میں جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں کو اپنی مخالفت کا مزا چکھائوں گا۔” (واضح رہے کہ 1970ء کے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو پنجاب اور سندھ میں جہاں جہاں سے بھی کھڑے ہوئے تھے’ کامیاب رہے سوائے صوبہ سرحد کے جہاں مفتی محمود کے مقابلے میں وہ شکست کھا گئے۔) انصاری صاحب بھٹو کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ ان کا اصل جدف قادیانی اور بائیں بازو کے لوگ ہونے  چاہئیں۔ یہ اس لیے کہ ان لوگوںکو اقتدار میں لانے کے لیے جن مقاصد کی خاطر کامیاب کرایا تھا ‘ ان مقاصد کے پورے ہونے کے بعد ان کا اگلا ہدف خود بھٹو کی ذات ہوگی۔ دینی جماعتوں کی تو اسمبلی میں محض چند نشستیں تھیں۔اس کے برعکس قادیانیوں اور بائیں بازو کے لوگوں کا اثر و رسوخ بے پناہ تھا۔
مولانا چار بہن بھائی تھے۔ بڑے بھائی مظہر حسین انصاری اور ان کی دونوں بہنوں کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ دونوں بہنوں کا انتقال ہندوستان میں ہی ہو گیا تھا۔ البتہ بڑے بھائی مظہر حسین جو الٰہ آباد ہائی کورٹ میں بطور ٹرانسلیٹر ملازم تھے’ قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ وہ انصاری صاحب سے پانچ یا چھے برس بڑے تھے۔ بڑے بھائی اور مولانا انصاری کی اہلیہ سگی بہنیں تھیں۔ انصاری صاحب کے بچے اپنے تایا کو ”ابا” اور تائی کو ”اماں” جب کہ انصاری صاحب کو ”چچا” اور والدہ کو ”آپا” کہتے۔
مولانا کے بڑے بھائی پاکستان آکر زیادہ دن حیات نہیں رہے اور ان کا 56 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ انصاری صاحب کی اولاد میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بڑے بیٹے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اور چھوٹے بیٹے ظفر اشفاق انصاری کا انتقال ہو چکا ہے جب کہ ڈاکٹر ظفر آفاق انصاری امریکا میں مقیم ہیں۔ انصاری صاحب کی تینوں بیٹیوں اور ڈاکٹر آفاق انصاری اور ظفر اشفاق انصاری کا نکاح مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع نے پڑھایا۔ انصاری صاحب اور مفتی شفیع صاحب کے خاندان کے درمیان بڑا گہرا تعلق ہے جو ان کے انتقال کے بعد آج بھی دونوں خاندانوں میں برقرار ہے۔ انصاری صاحب کی اہلیہ اور ان کے چھوٹے بیٹے ظفر اشفاق انصاری کی نماز جنازہ مفتی محمد رفیع عثمانی (فرزند مفتی محمد شفیع) نے پڑھائی۔
انصاری صاحب کے پاس کتنے ہی بچے گھریلو کام کاج کے لیے آئے۔ انہیں انصاری صاحب نے خود اور اپنے بچوں کے ذریعے ابتدائی تعلیم دلوائی اور اپنے گھر رہتے ہوئے انہیں مزید تعلیم کے لیے اسکولوں میں داخل کروایا۔ نام تو بہت سے ہیں مگر جگہ کی قلت کے باعث ایک شخص کا ذکر کروں گا جسے میں نے خود دیکھا ہے۔ بشیر احمد ہاشمی ملتان کے قریب عبدالحکیم شہر سے اپنی سوتیلی والدہ کے رویے سے تنگ ہو کر کراچی بھاگ آئے تھے اور بندر روڈ پر معروف تاج ریسٹورینٹ میں ویٹر کے طور پر کام کرنے لگے تھے۔ ریسٹورینٹ کے مالکان میں سے ایک حاجی محمد سلمان مرحوم جو دارالعلوم کراچی کی مجلس منتظمہ کے رکن کی حیثیت سے انصاری صاحب کے بہت قریب تھے ‘ وہ اس بچے کو انصاری صاحب کے پاس لے کر آئے اور کہا کہ آپ اسے اپنے پاس رکھ لیں’ یہ گھریلو حالات سے تنگ ہو کر گھر سے بھاگ کر آیا ہے۔ انصاری صاحب نے اسے میٹرک تک خود پڑھایا’ بورڈ کا امتحان دلوایا اس کے بعد کالج میں داخل کروایا۔ پھر آئی بی اے سے اسے ایم بی اے کروایااور پھر اسے معروف مالیاتی ادارہ پکک میں سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی کے ذریعے ملازمت دلوائی پھر ان کے والد کو خط لکھا کہ اب تمہارا بیٹا اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا ہے اور تم اب اس کی شادی کا انتظام کرو۔ انصاری صاحب خود اس کی شادی میں شرکت کے لیے عبدالحکیم گئے تھے۔  بشیر ہاشمی پکک میں ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
راقم نے انصاری صاحب کی بیٹیوں اور پوتوں’ نواسوں کے ساتھ ان کی گھریلو زندگی سے متعلق گفتگو کی تو ان کی بڑی صاحبزادی ملکہ صاحبہ اور دوسری بیٹی سلمٰی صاحبہ نے بتایا کہ وہ نرم خو اور بچوں کا بے پناہ خیال رکھنے والے تھے۔ بیٹوں کے ساتھ تمام بیٹیوں کو بھی خود پڑھایا اور اسکولوں اور کالجوں میں بھیجا۔ وہ آخر وقت تک اس مؤقف پر قائم رہے کہ بچوں کو دو’ دو سال کی عمر میں اسکول بھیجنا درست نہیں ہے بلکہ یہ زمانہ سب سے زیادہ گھر پر بچوں کی پرورش اور نگہداشت کے لیے ضروری ہے اور اس میں ماں اور باپ دونوں کو توجہ دینا لازمی ہے۔ ہمیں بھی انہوں نے بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ اسکول کی ابتدائی کلاسوں کی تعلیم گھر پر دی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم جب اسکولوںاور کالجوں میں گئے تو ہماری تعلیمی کارکردگی ان سے بہتر تھی جو بچے چھوٹی عمروں سے اسکولوں میں پڑھ رہے تھے۔
انصاری صاحب لوگوں کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنے میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ کتنے ہی لوگوں نے ان کے یہاں قیام کیا اور بعض قیمتی چیزیں جس میں سب سے قیمتی کتابیں تھیں’ انصاری صاحب کے علم میں لائے بغیر لے جاتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک صاحب تھے جو ان کے پاس کسی جاننے والے کے توسط سے آئے تھے اور اپنی بپتا سناتے ہوئے کہا تھا کہ میں بہت تنگ دست ہوں’ مجھے یا تو کہیں ملازمت دلوا دیں یا اپنے پاس چھوٹے موٹے کام کے لیے رکھ لیں۔ انصاری صاحب نے کئی جگہ کوشش کی مگر اس میں انہیں کامیابی نہ ہوئی تو انہوں نے اس سے کہا کہ جب تک آپ کے لیے کوئی ملازمت کا انتظام نہیں ہوتا’ آپ میری لائبریری میں کتابیں ترتیب سے رکھنے اور فہرست مرتب کرنے کا کام کریں۔ ان صاحب نے یہ کیا کہ ان کے گھر سے نہ صرف کتابیں چوری کرکے بیچتے رہے بلکہ جب وہ ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھتے تو گھر کی کئی قیمتی چیزیں بھی لے اڑتے۔ اس میں مولانا انصاری کے سمدھی مولانا ناظم ندوی کی وہ قیمتی گھڑی بھی غائب ہو گئی جو سعودی فرمانروا نے انہیں مدینہ یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے تحفے میں دی تھی۔ ان کی اس کارروائی کا انکشاف اس طرح ہوا کہ انصاری صاحب کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری سعودی عرب سے چھٹیوں پر آئے ہوئے تھے’ ایک دن وہ صدر میں واقع کیفے ٹیریا کے قریب سے گزرے جس کے باہر ایک صاحب زمین پر پرانی کتابیں بیچ رہے تھے۔ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری نے ایک کتاب اٹھائی جس پر انصاری صاحب کے دستخط تھے’ دوسری کتاب اٹھائی تو اس پر خود ان کے دستخط تھے۔ اس طرح کی 25 کتابیں وہاں موجود تھیں جو انہوں نے خرید لیں۔ اس پر کتب فروش نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس طرح کی مزید کتابیں چاہئیں؟ ظفر اسحاق نے رضامندی ظاہر کی تو کتب فروش نے کہا کہ ایک صاحب روزانہ پانچ’ سات کتابیں لے کر آتے ہیں باقی تو فروخت ہوگئی ہیں جو بچی ہیں وہ آپ نے خرید لی ہیں۔ وہ صاحب اب آئیں گے تو میں ان سے مزید کتابیں لے لوں گا۔
اگلے دن وہ آیا تو کتاب فروش نے اس سے کہا کہ مجھے ان کتابوں کا ایک اچھا خریدار مل گیا ہے۔ تم جتنی چاہو کتابیں لے آئو۔
جس پر اس نے کتاب فروش سے کتابیں خریدنے والے کا حلیہ معلوم کیا اور معلوم ہونے پر وہ سمجھ گیا کہ یہ انصاری صاحب کے بیٹے ظفر اسحاق انصاری ہیں۔ وہ روپوش ہوگیا۔
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کے دوست شاہ حسن اطہر’ میں اور ظفر اشفاق انصاری اسے کہیں سے ڈھونڈ کر لے آئے۔ باہر بٹھا کر ظفر اشفاق نے انصاری صاحب کو اطلاع دی کہ ہم اسے لے آئے ہیں اور اس نے تمام چوری کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ تو انصاری صاحب نے مجھے اور شاہ حسن اطہر کو تو کچھ نہ کہا البتہ اپنے بیٹے ظفر اشفاق انصاری پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا اس کو شرمندہ کرنے کے لیے کیوں پکڑ لائے ہو’ ایسا کرو کہ اسے ایک ماہ کی تنخواہ دے کر معذرت کرکے رخصت کر دو۔ حالانکہ وہ تین دن قبل ہی اپنی تنخواہ لے چکا تھا۔
میں نے ان کے سب سے بڑے پوتے یاسر اسحاق انصاری سے پوچھا کہ آپ مجھے بتائیں کہ وہ بچوں کے ساتھ کیسے تھے تو انہوں نے مجھ سے دو دن کا وقت مانگا اور اس کے بعد بتایا کہ میں نے اپنے دونوں چچا ڈاکٹر ظفر آفاق انصاری اور ظفر اشفاق انصاری کے بچوں اور اپنی تینوں پھوپھیوں ملکہ’ سلمیٰ اور نجمہ کے بچوں کے ساتھ گفتگو کی اور سب نے یہی کہا کہ وہ بچوں کو جس طرح وقت دیتے تھے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اپنے تمام نیاز مندوں کی طرح اس ناچیز پر بھی ان کے بڑے احسانات ہیں۔ میرا انصاری صاحب سے غائبانہ تعارف تو برسوں سے تھا اور ان سے ملاقات کا شرف بھی کئی بار حاصل ہو چکا تھا مگر 1966ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن کی حیثیت سے ظفر اسحاق انصاری سے دوستی ہوئی تو وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور انصاری صاحب سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ”یہ میرا بہت اچھا دوست ہے۔” اس دن سے لے کر انصاری صاحب کی زندگی کے آخری سانس تک ان کی عنایات اس ناچیز کو حاصل رہی۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ مجھے اپنے والدین کے بعد جتنی محبت انصاری صاحب نے دی وہ کہیں اور سے نہیں ملی۔ میرے دوست طارق مصطفی باجوہ صاحب نے بتایا کہ میں جب 1970 کے عشرے میں امریکا جانے سے قبل مکہ مکرمہ میں زیر تعلیم تھا تو انصاری صاحب رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں وہاں تشریف لائے تھے۔ ہم روز ان سے ملنے جاتے اور مستفید ہوتے۔ درمیان میں ایسا ہوا کہ دو’ تین دن ہم ان سے ملنے نہ جاسکے تو وہ ہماری خیریت دریافت کرنے کے لیے جفالی بلڈنگ کی ساتویں منزل پر چڑھ کر آئے اور پوچھا کہ سب خیریت توہے۔ میں ان کی اس محبت اور شفقت پر حیران رہ گیا۔  واضح رہے کہ انصاری صاحب کی ایک ٹانگ میں لنگ تھا اس لیے چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے تھے۔ بچپن سے لے کر جوانی تک ان کے گھٹنے کے بائیس آپریشن ہوئے تھے لیکن کامیاب نہ ہوسکے تھے۔ سیڑھیاں چڑھنا ان کے لیے آسان نہ تھا۔
ماہرالقادری صاحب نے کہا تھا کہ اللہ نے انصاری صاحب کو قناعت کی دولت سے سرفراز ہی نہیں کیا بلکہ ان کے بچوں اور بچیوں کو بھی علم کی دولت سے بھی نوازا اور اعلیٰ سیرت و کردار کا حامل بھی بنایا۔