ہار جیت تو ایک سکے کے دو رخ ہیں، مسئلہ ہی کیا ہے؟ ہم نے ہارنےکیلئے، بھلا سارا انڈیا دیکھ لیا ، وہ بھی ہر طرح کے شہر، لباس، خوش خوراکی اور سیلفیاں۔ ایک ڈیڑھ مہینے میں نہ کوئی سیاست دان پاکستانی نہ ادیب دیکھ سکا اور نہ اتنی خاطر مدارت پا سکا۔ یہ صرف لعل و گوہر کرکٹ ٹیم کو لگنے تھے۔ پھر حیدرآبادی بریانی ہی نہیں، مدراسی سے لے کر کلکتے تک کے مناظر اور سیر سپاٹےپھرآخر لوٹ کےبدھو گھر کو آئے۔ ہماری ٹیم ہماری طرح دل کی کمزور ہے۔ ایک دو دفعہ جیت کر دل ہار بیٹھتی ہے اور ہار کے قوم کے گوڈے گٹوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ اب قوم کو فرح گوگی کی طرح معلوم پڑا کہ وہ حسینہ کتنے میں پڑی اور اس ٹیم کے ممبران نے کتنی کتنی رقم پائی۔ کرکٹ چیئرمین نے شیخی میں آکر دس لاکھ بابر کو بخش دیئے۔ انہوں نے تاریخ میں بابر کو ہندوستان فتح کرتے وقت کتنے کشٹ کاٹنے پڑے، یہ پڑھا ہی نہیں کہ ہمارے ملک کو ضیاء کے زمانے سے تاریخ پڑھائی ہی نہیں جاتی۔ اگر پوری قوم، سارا میڈیا اور حکومت اس ایک کرکٹ ٹیم کو ہلا شیری دلواتے رہیں گے تو پھر وہ بگڑے بچے بن کر کیچ پکڑنا تو پہلے ہی بھول جائیں گے، اب تو فیلڈنگ میں بھی ہنر دکھایا ہے کہ گیند ان کے سامنے جب تک نہ آجائے، وہ اس کو ہاتھ نہیں لگاتے، باؤنڈری پار کر جائے، پھر بھی تکلف سے اس بال کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ ان میں کوئی ظہیر عباس یا جاوید میانداد نہیں کہ دو سو رن بنا ئے اور ہاتھوں میں بیٹ پکڑے پکڑے چھالے پڑ جائیں۔ کئی دوسری گیمزہیں، جہاں پاکستان گولڈ میڈل جیتتا ہے، انہیں کاغذی تھپکی دی جاتی ہے اور ان کو بلا کر صدر اور وزیراعظم ظہرانہ دیتے ہیں۔ اب کہہ رہے ہیں ’’ہم سے غلطیاں ہوئیں‘‘۔
یہ تو سیاست کے لاڈلے کے ساتھ، اس ملک میں ہوتا آیا ہے کبھی بولی عمران خان تو کبھی لندن پلٹ تیرا دھیان کدھر ہے، مجھے دیکھ میں آگیا بن باس کاٹ کر۔ یہ کہتے ہوئے، تھانے، عدالت سے لاپروا، بے دھڑک چوتھی بار کا نعرہ لگادیا ۔ فلسطین کیسے کربلا بنا ہوا ہے، ان کو نگران جانیں،ان نگرانوں میں جمال شاہ بھی ہے جو کراچی میں شہنائی، سنتور اور سارنگی سکھانے کا اعادہ کرکے، وہ جو کراچی کا پی این سی اے کا لٹا پٹا دفتر ہے، اس کو آباد کرنے کا وعدہ کر آئے ہیں۔ جمال ! تم اپنی چھوٹی سی نگران نوکری بچاؤ، ایسے بیانات مت دو۔ دیکھو وہ چوہدری ظہور آیا تھا۔ سیکرٹری بن کر، جب ملازموں کی تنخواہیں بڑھانے اور علم و ادب اور موسیقی کو زندہ کرنے کی باتیں کرنے لگا۔ تو انفارمیشن گروپ جو میرے زمانے میں میری پروموشن کے وقت مقدمے بازی پہ اتر آیا تھا، وہی گروپ اس کو نان انفارمیشن کہہ کر نکالنے پر بضد ہو گیا۔ گویا یہ سمجھو کہ قوم ہر جگہ پر قبیلوں میں بٹی ہوئی ہے۔ وڈیرہ شاہی اور دولت مند تو ٹیکس دیتے نہیں تو پھر بے چارے چورن بیچنے والوں پر زور لگا دیتے ہیں۔ ایک آدھ ادبی تقریب ڈھنگ سے ہوجائے تو اپنے پلے ہوؤں کو پیچھے پڑوا دیتے ہیں کہ بتاؤ یہ رقم کہاں سے آئی۔
سیاست اس وقت اتنی ناپختہ اور بے عقل ہے کہ جوڑ توڑ جو بادشاہوں کے زمانوں میں ہوتا تھا، وہی زور شور سے کر رہے ہیں۔ جو کام الیکشن کیلئے سب سے زیادہ ضروری ہے، وہ یہ کہ سب لوگ اس بحرانی کیفیت کو دور کرنے کیلئے، کیا منشور سامنے لا رہے ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ اپنے ادھورے منصوبوں کو مکمل کریں گے، یہ گریز ہے، منشور نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کا راز کھل جائے۔ چیف جسٹس کے پاس وقت کم اور کام سخت۔ اس ملک پر 70سال سے نام نہاد اشرافیہ قابض ہے۔ جو پیسوں کے بل بوتے پر سامنے آتی ہے۔ کبھی کسی غریب، پان والے یا سبزی فروش یا پروفیسر کو الیکشن میں کامیاب ہوتے دیکھا ہے۔ پچھلے دنوں کسی نے لکھا تھا کہ صحافیوں کو بھی وزیر بننے کا شوق، انڈیا، پاکستان دونوں ملکوں میں ہے، جیسے کچھ سیاست دان تین مہینےکیلئے نگران وزیراعظم بن کر پارلیمنٹ میں بورڈ پر اپنا نام لکھوانے اور مستقبل کو آرام دہ فوائد سے آشنا کرنے کیلئے، مصر ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر او آئی سی کی جانب سے اسرائیل کو جنگ بند کروانے کے اعلان نامے کی کس کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ نیتن یاہو، ہسپتالوں پر اوپر سے اور باہر سے ٹینکوں کے ذریعہ حملہ آور ہے اور ہم مطمئن ہیں کہ ہمارے وزیراعظم، اتنی تھوڑی سی مدت میں امریکہ، یورپ، سعودیہ اور دیگر ممالک کے علاوہ ہر چینل کو ملاقات کا شرف بخش رہے ہیں مگر دہشت گرد، بلاناغہ، دو چار اور کبھی آٹھ دس کو شہید کر جاتے ہیں۔ ہم غریب جوتے گانٹھنے والے افغانیوں کو کان سے پکڑ کر واپس بھیج رہے ہیں۔ فنکاروں اور استادوں کو اس ملک میں واپس کر رہے ہیں، جہاں پڑھنا لکھنا خواتین کیلئے منع ہے، پوری دنیا کے اصرار کے باوجود جو نہ تعلیمی ادارے کھول رہے ہیں اور بچیوں کو باغ میں جانے تک نہیں دیتے۔ دہشت گردوں کو تو ہم نے کبھی بے نظیر کے زمانے میں اور کبھی عمران کے زمانے میں بہت پالا۔ اس وقت جتنا ہم افغانیوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، جواب میں ہمیں یاد دلایا جاتا ہے کہ 44لاکھ افغانیوں کو تو ہم خود شناختی کارڈ دے کر، پاکستانی بنا چکے ہیں۔ کراچی میں جو بہاری، بنگالی اور روہنگی مسلمان ہیں، ان کا کیا قصور اور پھر خواجہ سراکا کیا قصور، ان کو شناختی کارڈ نہیں دیئے جا رہے۔
پاکستان اس وقت نہ صرف مالی بحران کی زد میں ہے، بلکہ سماجی بحران میں نصابی بحران بھی شامل ہے۔ آپ نے 9نومبر کو علامہ اقبال کا یوم پیدائش منانے کو (اچانک) چھٹی بھی کردی جبکہ 47فیصد عوام کو نہیں معلوم کہ علامہ اقبال کون اور کیا تھے۔ ان کو تو گنے کی قیمت اور کبھی آٹے کی قیمت کا پتہ ہے۔ قائداعظم کے نام پر یونیورسٹی کے نوجوانوں کو پاکستان کے دانشوروں کے نام تک نہیں آتے۔ جب ضد کرکے پوچھا تو انہوں نے کہا، حامد میر، ہارون رشید، جاوید چوہدری اور ایک وہ جنہوں نے خدا کی بستی ڈرامہ لکھا تھا۔
اب یہ دانشور، پوری قوم کی تحلیل نفسی کریں۔ ہم منتظر ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ