ریاست، کتاب کی سسکیاں بھی سنے : تحریر محمود شام


پاکستان کا سب سے بڑا کتاب میلہ جوں جوں نزدیک آ رہا ہے۔ کتاب کی سسکیاں تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔

ہم جیسے جن کی پوری زندگی کتابوں کے سہارے گزری ہے۔ وہ لڑکھڑارہے ہیں۔ الماریوں، صندوقوں میں لگی کتابیں تو پھر بھی صحت مند ہیں۔ لیکن آنے والی کتابوں کی پیدائش معمول کے مطابق نہیں رہی۔ کتابیں مذہبی ہوں، علمی، ادبی، تاریخی یا نصابی کتابیں۔ سب ہی اس وقت آئرن، کیلشیم، پوٹاسیم کی کمی محسوس کررہی ہیں، کتابوں کے ڈاکٹر خود بیمار ہوگئے ہیں۔

رشک آتا ہے۔ کتاب میلوں کا اہتمام کرنے والوں پر، ادب تہوار منعقد کرنے والوں پر، وہ ہمت کررہے ہیں، کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں مگر کتاب کمزور ہورہی ہے۔ معدوم ہونے کو ہے۔ نصابی کتابوں کے بارے میں عام طور پر تاثر یہ ہے کہ کتاب کی صرف یہی قسم ناشرین کی کمائی کا ذریعہ رہ گئی ہے۔ مگر اس کی اشاعت، فروخت اور تقسیم میں بھی بہت مشکلات ہیں۔ ناشرین کہ گزشتہ واجبات ابھی تک نہیں ملے ۔ آئندہ تعلیمی سال شروع ہوگا تو کیا وہ نئی کتابیں شائع کرسکیں گے ؟

نومبر دسمبر میں 8 فروری 2024 کے نزدیک آنے کے سبب زور تو سیاسی جلسوں، جلوسوں، کنونشنوں کا ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ہر سال کی طرح مختلف شہروں میں کتاب میلے، ادبی تہوار منائے جارہے ہیں۔ پہلے کاغذ کو بے مہک سمجھا جاتا تھا۔ کاغذی پھول کہہ کر ہجو کی جاتی تھی،کاغذی شیراور بہت کچھ۔ غالب کی زبان میں’’ کاغذی ہے پیرہن پر ہر پیکر تصویر کا‘‘۔ لیکن اس وقت کاغذ سب سے زیادہ اہم بھی ہے، سب سے زیادہ مہنگا بھی، کتابیں اسی لیے مہنگی ہورہی ہیں۔ اب کتاب 1000کی بجائے 200 چھپ رہی ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم کی شبانہ روز تگ و دو پر آفریں کہ ہر لمحے کتاب اور لائبریری کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں۔ لیکن مہنگا کاغذ ،مہنگا ماحول اور اب کتاب میلوں کے مہنگے اسٹال۔ بڑے بڑے ناشر پسپا ہورہے ہیں۔ پہلے کتاب میلے کتاب کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے تھے۔ اب مہنگائی کی وجہ سے بہت پبلشر کراچی کے بین الاقوامی کتاب میلے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کررہے ہیں۔ نمائش گاہیں ایکسپو سینٹر وزارت تجارت سے منسلک ہیں۔ اگر حکومت اور ریاست کو اپنے ثقافتی میراث، اپنے علمی اثاثوں کی کوئی بھی قدر ہو تو کتاب میلوں کیلئے یہ نمائش گاہیں بلا معاوضہ ملنی چاہئیں۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے اسلاف نے علم اور تحقیق کی کس طرح سرپرستی کی۔ غیر ملکی آقاؤں نے بھی تعلیم اور تربیت کیلئے درسگاہیں کھولیں۔ چھاپہ خانوں کے قیام میں اعانت کی، آزادی کے بعد پہلے چند برسوں میں علم، تعلیم، تدریس، ادب کی آبرو کا بہت خیال رکھا گیا۔ لائبریریوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کتاب کے فروغ کیلئے ہی وجود میں لائی گئی۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کو کتاب کے ساتھ اس بے رحمانہ سلوک پر آواز بلند کرنی چاہئے تھی۔ سینیٹ آف پاکستان میں کئی صاحب کتاب ارکان سینیٹ ہیں۔ انہیں کتاب کی سسکیاں سننی چاہئیں۔ کتاب کسی قوم کی شائستگی کی دلیل ہوتی ہے۔ اسکول، کالج،یونیورسٹیاں یہ سب کتاب کے ہم جولی ہیں۔ یہ درسگاہیں ہی ہیں جو ہجوم کو ایک قوم ، جو ایک قوم کو مہذب بناتی ہیں، جو اسے دوسری قوموں کے برابر فخر سے چلنا سکھاتی ہیں۔

پاکستان کے عوام کتاب سے ہمیشہ والہانہ محبت کرتے ہیں۔ کتاب میلوں میں خاص طور پر کراچی میں آپ نے، ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح۔ غریب گھرانے،متوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے خاندان۔ سال بھر کیلئے کتابیں خرید کر لے جارہے ہوتے ہیں۔ اب کے شنید یہ ہے کہ کاغذ کی مہنگائی سے تو ناشر پہلے ہی بہت پریشان تھے۔ اب ایکسپو میں اسٹال کی قیمت میں اضافے سے سب سے زیادہ اُردو ناشر متاثر ہورہا ہے۔ خدشہ ہے کہ بہت سے نامور ناشروں کے اسٹال نظر نہیں آئیں گے۔ قومی زبان اُردو پھر محرومی کا شکار ہوگی۔ گیسوئے اُردو کو پھر شانہ میسر نہیں آئے گا۔ پروانے تو دل سوزی کیلئے ہوں گے لیکن شمع نہیں ہوگی۔

یہ درست ہے کہ کووڈ کی بعد پوری دنیا کی معیشتیں ڈانواڈول ہیں۔ لیکن مہذب قومیں، ذمہ دار ریاستیں، تمدن دوست حکومتیں عوام کو اعتماد میں لے کر بہت باوقار طریقے سے ان چیلنجوں کا سامنا کررہی ہیں۔ ہمارے ہاں کاغذ کی مہنگائی، کتاب کی ناقدری کا سلسلہ تو کووڈ سے کئی دہائیوں قبل سے ہے۔ صرف شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران کتاب کے فروغ کیلئے ادارے قائم کیے گئے۔ بعد میں کتاب کی قدر نہیں ہوئی ۔ کاغذ کے جو معدودے چند کارخانے ہیں۔ ان کا کاغذ بین الاقوامی معیار پر نہیں اترتا ۔ پھر بھی ان کی اجارہ داری ہے۔ وہ مل جل کر قیمتوں کا تعین کرتے ہیں۔ نصابی کتب میں ان کا ہی کاغذ استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ تصور یہ ہے کہ وہاں کتاب کی عمر صرف ایک سال ہوتی ہےیا زیادہ سے زیادہ 2سال۔ اس لیے مقامی کاغذ اس حیات مختصر کیلئے کافی ہے۔ اخبارات کا کاغذ ہو یا معیاری کتابوں کا وہ سب درآمد ہوتا ہے۔ روپیہ ڈالر کے سامنے 80 کی دہائی سے عجز کا شکار ہے۔ اس لیے کاغذ مہنگا ہی ہوتا چلا گیا ہے۔

تہذیب تمدن علم سے قطعی لا تعلقی کا اندازہ کرلیجئے کہ کسی سیاسی پارٹی نے،اسٹیبلشمنٹ نے کاغذ کی کھپت میں خود کفالت کا نہیں سوچا ۔ جب پرنٹ میڈیا شباب پر تھا، کتابیں کئی کئی ہزار چھپتی تھیں، جب حکمران بھی کتابوں کے ذریعے عوام کی خواب گاہوں میں داخل ہوتے تھے۔ اس وقت بھی نہیں سوچا گیا کہ اتنی بڑی آبادی کے ملک میں کاغذ کے کارخانے تو ہر بڑے شہر میں ہونے چاہئیں۔ خوراک برائے شکم کیلئے تو کئی کئی ہزار کے بیک وقت کھانے کی گنجائش والے ریستوران کھل گئے۔ تخت بچھتے جارہے ہیں۔ لیکن خوراک برائے فکر کیلئے اہتمام پی پی پی نے کیا، نہ نون نے، نہ پی ٹی آئی نے۔ پاکستان میں کاغذ کیلئے خام مال بدرجہ اتم موجود ہے۔ اب بھی اس کیلئے کوئی آواز بلند نہیں ہورہی ۔کیا ہم اس لمحے کا انتظار کررہے ہیں جب حرف اور قرطاس کا رشتہ ختم ہوجائے گا۔ اب بھی بہت سے ناشر خاص طور پر درسی کتابوں کے دوسرے ملکوں سے طباعت کے اہتمام میں سہولت محسوس کررہے ہیں کیونکہ یہاں بجلی، گیس، پانی کی فراہمی کے مسائل بھی ہیں۔

ایک ناشر اپنے درد کا اظہار یوں کررہے ہیں کہ اب ادب تو جاں بلب ہے، ادبی میلے تفریح کا ذریعہ بن رہے ہیںخرد افروزی کا نہیں ۔ادب بھی شوبزنس بن رہا ہے۔ کتاب 200سے زیادہ نہیں چھپتی، وہ بھی اعزازی تقسیم ہوتی ہے۔

ہماری ریاست معیشت کیلئے بھی متفکر ہے، زراعت کیلئے بھی، اک نظر تہذیب، شائستگی، تمدن کی بنیاد حرف مطبوعہ یعنی کتاب کی طرف بھی ۔ کتاب کی سسکیوں میں ہمارے آبا کی میراث کی فغاں بھی شامل ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ