تحریک انصاف کا مشکل سفر … تحریر : مظہر عباس


تاریخی طور پر یہ بات طے ہے کہ ہماری سیاست میں مقبولیت کو کبھی بھی قبولیت حاصل نہیں رہی اس وقت بھی کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہے کہ اس وقت کی سب سے مقبول جماعت اور اس کے رہنما اس کا مقابلہ کس انداز میں کرتے ہیں۔ کچھ سیاست کو خیر باد کہہ رہے ہیں، کچھ نئی اور پرانی کنگز پارٹیوں میں جارہے ہیں مگر ایسے بھی ہیں جو اب تک اپنے موقف اور پارٹی رہنما کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں یا زیر زمین چلے گئے ہیں۔ ایسے میں الیکشن۔2024 اور اس کے بعد آنے والی تبدیلی بہرحال قبولیت والوں کیلئے ہی ہوگی مگر جس بے ڈھنگے انداز میں جھرلو جمہوریت کو لایا جارہا ہے اس نے ایک بار پھر ہمارے سیاسی نظام میں غیر سیاسی لوگوں کی غیر ضروری مداخلت پر سنجیدہ سوالات کھڑے کردئیے ہیں۔

لہذا یہ بات تو خاصی حد تک واضح ہے کہ آئندہ کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا، عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے آگے حالات مشکل سے مشکل تر نظر آتے ہیں۔ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور منہ پر چادر ڈال کر عدالتوں میں پیش کرنا بھی ہمارے سیاسی مزاج کا حصہ رہا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے چند سیاسی مخالف مخالفت کے باوجود اس طرز سیاست پر اعتراض اور احتجاج کرتے تھے اب اس عمل کی دبے دبے الفاظ میں حمایت اور اس کو مکافات عمل کا نام دے رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف سیاسی طور پر اس کا مقابلہ کیسے کرتی ہے اور خود عمران خان اس سے کیا سبق حاصل کرتے ہیں۔ مقبول سیاسی جماعتوں پر ایسا وقت آتا ہے بعض اوقات رات طویل ہوجاتی ہے، مثالیں ہمارے سامنے ہیں قربانی کی بھی اور جدوجہد کی بھی۔ بدقسمتی سے طویل رات کے بعد جو صبح دیکھی تو دھندلی ہی نظر آئی۔

پاکستان میں جو مقبولیت شیخ مجیب الرحمان، ذولفقار علی بھٹو ،بے نظیر بھٹو اور الطاف حسین کے حصہ میں آئی وہ کم لوگوں کو نصیب ہوئی۔ نواز شریف تو 1997 میں دوتہائی اکثریت لے کر آئے تھے مگر جب قبولیت کی منزل سے ہٹ گئے تو عمر قید کی سزا سنادی گئی مگر میاں صاحب نے جدوجہد کے بجائے ڈیل کا راستہ اپنایا ورنہ شاید جنرل مشر ف کا اقتدار نوسال نہ چلتا۔ وہ عمران خان کے دور میں بھی ڈیل کرکے ہی لندن گئے اور قبولیت کی یقین دہانیوں پر واپس آئے ہیں۔

بھٹو نے ڈیل نہیں کی اور پھانسی چڑھ گیا، بے نظیر ڈیل توڑ کر پاکستان واپس آئیں اور شہید کردی گئیں۔ اس کے بعد کی پی پی پی نے مقبولیت کا راستہ ترک کیا تو ان کی مقبولیت سندھ تک محدود ہوگئی اور پی پی پی پنجاب کے وہ کارکن اور رہنما تحریک انصاف میں چلے گئے جنہوں نے ماضی میں جنرل ضیا کے دور کی سختیاں دیکھیں ۔

عمران خان کی سیاسی پشت پناہی دراصل مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کی مقبولیت کو قبولیت میں تبدیل کرنے کیلئے کی گئی تھی مگر جب وہ خود مقبولیت کی منزلیں طے کرنے لگے تو وہ قابل قبول نہیں رہے۔ اپریل2022کے بعد عمران اور پی ٹی آئی جوابی حملوں کو سمجھ ہی نہیں سکے اور غلطیوں پہ غلطیاں کرتے چلے گئے۔ ایک طرف اپنے مخالفوں کے خلاف سیاسی محاذ کھولے رکھا تو دوسری طرف ریاست پر یلغار اور اس کیدرمیان اپنی ہی وکٹ او ر گراؤنڈ کو دوسروں کے حوالے کردیا ورنہ جتنا سیاسی اسپیس عدم اعتماد کی تحریک کے منظور ہونے کے باوجود عمران کو حاصل تھا وہ نہ ماضی میں بھٹو کے پاس تھا نہ بے نظیر اور نہ ہی نواز شریف کے پاس۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں مضبوط اپوزیشن ، پنجاب ، کے پی اور گلگت ،بلتستان میں حکومتیں۔کشتیاں جلائیں مگر یہ دیکھے اور سمجھے بنا کہ لڑائی لڑنے والے سپاہی ہیں کہ بھگوڑے اور آخر میں9مئی کو اپنی سیاست پرہی خودکش حملہ کرڈالا۔ اس کے بعد جوابی حملوں کے مقابلے کیلئے کوئی بھی سیاسی حکمت عملی سامنے نہ تھی۔ چوہدری پرویز الہی ہوں یا شاہ محمود قریشی ، شیخ رشید احمد ہوں یا فواد چوہدریکپتان نے ان کے مشوروں کو نظر انداز کردیا۔

ایسا ہی خود کش حملہ الطاف حسین نے 22اگست2016کو پاکستان مخالف نعرہ لگا کراپنی ہی جماعت پر کیا تھا ،اب قبولیت والی ہی ایم کیو ایم رہ گئی ہے مقبولیت کا بخار اتر چکا ہے۔ دیکھتے ہیں اس الیکشن میں ان کے حصہ میں کیا آتا ہے۔

پی ٹی آئی اس وقت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ جیسے جیسے الیکشن قریب آئے گا، اسکی مشکلات میں مزید اضافہ ہی نظر آئے گا ایسے میں بیلٹ پیپر پر بلے کانشان ہو مگر بیٹنگ کرنے والا ہی نہ ہوتو نتیجہ کس کے حق میں جائے گا۔ عمران خان کو اس وقت زباں بندی اور تحریک انصاف کو غیر علانیہ پابندی کا سامنا ہے، اب تک پی ٹی آئی نے کہیں بھی ریلی اور جلسے کی اجازت مانگی تو اسے انکار کا سامنا کرناپڑا ہے۔ لگتاہے ریاست انکو ایک ایسی بند گلی میں لے جارہی ہیجہاں ان کے پاس شاید الیکشن کے بائیکاٹ کا آپشن ہی رہ جائے یا پھر وہ کنگز پارٹی کا حصہ بننا قبول کرلے۔عمران خان نے اب تک نہ ڈیل قبول کی ہے اور نہ ہی باہر جانے کا آپشن۔

پی ٹی آئی اور عمران سے لاکھ اختلاف سہی یہ بات طے ہے کہ وہ سیاست میں ایک ایسی اکثریت کی نمائندگی کررہا ہے جو ایسے نوجوانوں اور ووٹرز پر مشتمل ہے جنہوں نے 2013سے پہلے شاید ووٹ بھی نہیں ڈالا تھا۔ کیا ہم ان کو سیاست سے دوری پر مجبور کررہے ہیں اورایک ایسے جھرلو نظام کو مضبوط کررہے ہیں جہاں مقبولیت کا پیمانہ صرف اور صرف قبولیت ہو۔ اس سے پہلے ہم بھٹو کوپھانسی دے کریہی کچھ کر چکے ہیں۔ آج جو سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ قبولیت کی لائن میں کھڑے ہوجائیں ان کو شاید وقتی فائدہ ہوجائے مگر وہ ایک کینگرو جمہوریت کی بنیاد پر ملک کو سیاسی دلدل سے نہیں نکال پائیں گے۔

کمزور بنیادوں پر کھڑی عمارت پائیدار نہیں ہوتی اس سے پہلے کہ وہ عمارت ریت کی دیوار ثابت ہو اسے مضبوط کریں اسی میں ملک کی بقا ہے ۔ہم ویسے ہی دہشت گردوں کے نشانے پرہیں حالیہ واقعات اور آنے والی خبریں کسی طوفان کے ہائی الرٹ سے کم نہیں۔ بہتر ہے سیاسی اتفاق رائے سے سب کیلئے لیول پلینگ فیلڈ ہو ورنہ کہیں ہمار ی سیاست کا حشر بھی کرکٹ ٹیم کی طرح کا نہ ہو۔

بشکریہ روزنامہ جنگ