اسلام آباد(صباح نیوز)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت کے پارلیمنٹ ہاوس میں ہونے والے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی سینیٹر عرفان صدیقی نے یکساں قومی نصاب پر بحث کرتے ہوئے زور دے کر کہا کہ آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی کے ساتھ ایک ربط قائم کریں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آنے والی نسل کو ماضی میں اس ملک کو پیش آنے والی مصیبتوں اور کشمکش کا مکمل علم ہو۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ آگے بڑھنے کا یہی واحد راستہ اور واحد طریقہ ہے جو طلبا میں قومی یکجہتی کو فروغ دے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ماضی اور حال کی تمام حکومتیں اس سلسلے میں اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہیں۔ اور ہم بحیثیت قوم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور تاریخ کے تلخ حقائق کو چھپا کر آنے والی نسلوں کو بھی اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اجلاس میں سینیٹر رخسانہ زبیری، سینیٹر ڈاکٹر مہر تاج روغانی، سینیٹر فلک ناز، سینیٹر فوزیہ ارشد، سینیٹر رانا مقبول احمد، سینیٹر مولوی فیض محمد، سینیٹر جام مہتاب حسین دہر، سینیٹر مشتاق احمد، سینیٹر کامران مرتضی، وفاقی وزارت کے سینئر افسران اور ایچ ای سی کے حکام نے شرکت کی۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے تعلیم محترمہ وجیہہ قمر(ایم این اے)بھی اجلاس میں موجود تھیں۔کمیٹی نے قومی نصاب کونسل (این سی سی)کی طرف سے یکساں قومی نصاب میں غلطیوں کو دور کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جسے قومی تعلیمی نظام میں تفاوت کو کم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ این سی سی نے کمیٹی اراکین کے مشاہدات کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے اور اس کام کے لیے اعلی درجے کے پبلشنگ ہاوسز کو پبلک/پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ساتھ ملایا گیا ہے۔کمیٹی نے این سی سی اور وزارت وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ یکساں قومی نصاب قومی یکجہتی کی راہ ہموار کرے گا اور پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان روابط کو فروغ دے گا۔ سینیٹر رانا مقبول احمد نے ٹیکسٹ بک بورڈز کے کام کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا ۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت اس طرح کی مشکلات کے حل کو یقینی بنانے کے لیے ایک موزوں فورم ہے۔کمیٹی اجلاس میں اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021 کے نفاذ کے معاملے کا جائزہ بھی لیا گیا ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اساتذہ کی ہڑتال ختم ہو چکی ہے اور اس کے مطابق انہوں نے دوبارہ ڈیوٹی بھی شروع کر دی ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری فیڈرل ایجوکیشن محی الدین احمد وانی نے کمیٹی کو تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کیا اور کہا کہ کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے تمام تر کوششیں کی جا رہی ہیں، جو کہ اداروں کو MCI کے تحت رکھے جانے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسودے میں ترامیم کی گئی ہیں اور ایک سمری وزارت داخلہ کو ارسال کر دی گئی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ترامیم اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کی گئی ہیں جن میں لکھا ہے کہ تمام بھرتی اور انتظامی معاملات وفاقی حکومت کے پاس رہیں گے۔ MCI صرف اداروں کی نگرانی اور دیکھ بھال کا ذمہ دار ہوگا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عرفان صدیقی نے وزارت کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ منطقی انجام تک پہنچنے تک ایجنڈے پر رہے گا اور وزارت کو ہدایت کی کہ وہ جلد از جلد ترامیم کی تفصیل کمیٹی کے ساتھ شیئر کرے۔ اراکین نے قانون سازی کے لیے آرڈیننس کے استعمال کی سختی سے حوصلہ شکنی کی اور اس عمل کو روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔سینیٹر سردار محمد شفیق ترین نے فاٹا بلوچستان وظائف کا معاملہ اٹھایا اور کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت 2092 طلبا ان وظائف کے تحت زیر تعلیم ہیں۔
انہوں نے ان وظائف کی منسوخی کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور ان کا خیال تھا کہ کم ترقی یافتہ علاقوں سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر فاٹا اور بلوچستان کے غریب طلبا کو معاوضہ دینے کے لیے اس پروگرام کو دوبارہ شروع کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ طلبا گزشتہ دو ماہ سے ایچ ای سی کے سامنے بیٹھے ہیں اور اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے تمام انجینئرنگ شعبوں میں انجینئرنگ ٹیکنولوجسٹ کے سروس سٹرکچر پر بحث کرتے ہوئے، کمیٹی کو بتایا گیا کہ 17 نومبر 2021 کو ہونے والی 10ویں ایکریڈیٹیشن اینڈ ایکوئیلنس کمیٹی کے اجلاس کے دوران بڑی کوششوں کے بعد، ایچ ای سی نے سفارش کی ہے کہ انجینئرنگ میں بیچلر کی ڈگری (کم از کم 16 سال تعلیم) اور مساوی ٹیکنالوجی میں بیچلرز ڈگری (کم از کم 16 سال کی تعلیم)بھرتیوں، تنخواہوں کے پیمانے اور گریڈز کے لیے برابر ہیں۔کمیٹی نے ایچ ای سی کی کوششوں کو سراہا اور کمیٹی ممبران کا خیال تھا کہ یہ اقدام مزید پیش رفت کی جانب راہ ہموار کرے گا۔
سینیٹر رخسانہ زبیری نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کیمپس میں لاقانونیت کے حوالے سے خصوصی طور پر یونیورسٹی کیمپسز میں غیر منظم سرگرمیوں کا معاملہ اٹھایا۔ انہوں نے کمیٹی پر زور دیا کہ وہ اس معاملے پر ذیلی کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔