مشرقی پاکستان کی علیحدگی دو قومی نظریے کی نہیں انتظامی اور سیاسی ناکامی تھی،مقررین


اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان انسٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز(پکس)اور قائد اعظم یونیورسٹی کے اشتراک سے ہونے والے سیمینار میں مقررین نے کہا ہے کہ سقوط ڈھاکہ دو قومی نظریے کی ناکامی نہیں تھی بلکہ یہ ایک انتظامی اور سیاسی ناکام تھی دو قومی نظریے کے اصل موجد انتہا پسند ہندو تھے جو چاہتے تھے کہ ہندوستان میں صرف ہندو رہیں۔ قائد اعظم پہلے متحد ہندوستان کے قائل تھے لیکن علامہ اقبال کی کوششوں سے وہ علیحدہ مسلم قومیت کے تشخص کے قائل ہو گئے۔

سیمینار سے بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز کے صدر عبدالباسط ،چیئرمین پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز میجر جنرل (ر)محمد سعد خٹک، معروف سکالر اور مصنف پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر ایس ایم حالی، پاک فوج کے سابق بنگالی افسر کرنل(ر) کمالدین اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سعدیہ محمود نے خطاب کیا۔

سابق پاکستانی سفیر عبدالباسط نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو قومی نظریے کے اصل موجد آر ایس ایس کے فاشسٹ ہندو تھے۔ یہ تنظیم 1916 میں قائم ہوئی اور اس کا نظریہ تھا کہ ہندوستان میں صرف ہندو رہ سکتے ہیں ۔ مسلمانوں یا عیسائیوں یا دوسرے مذاہب کو ہندوستان میں رہنے کا حق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو بنیادی طور پر ہندوں کے ساتھ رہنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ مسلمان ان کے ساتھ کئی صدیاں پر امن طریقے سے رہ چکے تھے۔ مسلمان ایک پر امن قوم ہے اور دنیا کی کسی بھی قوم کے ساتھ پر امن طریقے سے رہ سکتی ہے لیکن ہندو فاشسٹ رہنماوں نے مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ ایک الگ ریاست کا مطالبہ کریں تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ آج بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار نے ثابت کر دیا ہے کہ دو قومی نظریہ درست تھا۔ بھارت میں مسلمان تیسرے درجے کے شہری کے طور پر رہ رہے ہیں اور مودی سرکار نے مسلمانوں کا جینا مزید دوبھر کرنے کے لیے شہریت ترمیمی ایکٹ جیسے قوانین بھی متعارف کرا دیئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے باوجود دو قومی نظریہ درست اور زندہ ہے ۔ اگر دو قومی نظریہ درست نہ ہوتا تو مشرقی پاکستان بھارت کا حصہ بن جاتا لیکن بنگلہ دیش نہ صرف ایک آزاد مسلمان ملک بنا بلکہ اوآئی سی کا رکن بنا اور مسلم بلاک میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

پروفیسر ایوب صابر نے کہا کہ 1906 تک علامہ اقبال بھی ہندوستان کی قومیت کے قائل تھے تاہم اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے اور امہ کے تصور کو اپنا لیا اور اسی کی ترویج کرتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ اقبال کی سوچ کا قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ پر گہرا اثر ہوا اور وہ بھی ہندوستانی قومیت کے نظریے کو چھوڑ کر مسلم تشخص اور امہ کے تصور کے قائل ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش بنیادی طور پر بنگلہ زبان کی تحریک کی وجہ سے معرض وجود میں آیا لیکن وقت آئے گا کہ یہ دوبارہ پاکستان کے قریب آجائے گا۔انہوں نے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والا تعلق ہر تعلق سے زیادہ مضبوط اور توانا ہوتا ہے۔

میجر جنرل(ر) سعد خٹک نے کہا کہ ہندوستان اور دو قومی نظریے کے مخالفین پاکستانی نوجوانوں نے ذہنوں کو پراگندا کرنے کے لیے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں تاہم مشرقی پاکستان الگ ہو کر بھارت میں شامل نہیں ہوا بلکہ ایک آزاد ملک کے طور پر اپنا تشخص برقرار رکھا جو دو قومی نظریے کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھارت میں مسلمانوں سکھوں عیسائیوں اور دلتوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ تحریک پاکستان کے قائدین دو اندیش تھے جنہوں نے برقت دوقومی نظریے کو اپنایا اور مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مملکت حاصل کی۔

انہوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت پاکستان آرمی کے بنگالی افسر کرنل کمالدین جنہوں نے بنگلہ دیش کی بجائے پاکستان رہنے کو ترجیح دی نے اپنی تقریر میں کہا کہ مشرقی بازو کی علیحدگی کسی طور بھی دو قومی نظریے کی ناکامی نہیں تھی بلکہ یہ ایک انتظامی ناکامی تھی۔ دونوں حصوں کے درمیان 22سو کلو میٹر کا فاصلہ تھا اور انتظام چلانا آسان نہیں تھا۔

ایس ایم حالی نے کہا کہ پاکستانی نوجوانوں کو نفسیاتی جنگ کیمقابلے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگاہ۔ ڈاکٹر سعدیہ نے کہا کہ جب فلسطینی مسلمانوں کو اکثریت سے اقلیت میں بدلتے دیکھ کر قائد اعظم نے الگ قومیت کے تشخص کو اپنایا اور الگ ملک کا مطالبہ کیا۔