خان صاحب کا آدھا سچ … تحریر : انصار عباسی


عمران خان آدھا سچ بول رہے ہیں۔ اپنے تازہ انٹرویو میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی غلطیوں کا ایک تاریخی جائزہ پیش کیا لیکن پروجیکٹ عمران کا ذکر کرنا بھول گئے۔ یہ بھی بھول گئے کہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو کس طرح اپنے حق میں سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا؟کیسے میڈیا کو دبایا اوراسٹیبلشمنٹ کے ذریعے دبوایا؟ وہ 2014 کے دھرنے کے احوال و حقائق بھی بتانا بھول گئے اور اس بات کا تو ذکر تک نہ کیا کہ انہیں اقتدار میں لانے کے لئے کس طرح ان کے سیاسی مخالفوں کی حکومت ختم کروائی گئی، ان کے خلاف عدلیہ سے فیصلے کروا کے انہیں سیاست سے ہی نااہل نہ کیا گیا بلکہ انہیں جیلوں میں بھی ڈال دیا گیا۔خان صاحب یہ بھی بھول گئے کہ ان کو اقتدار میں لانے کیلئے2018 کے الیکشن کو کس طرح انجینئر کیا گیا، کیسے میڈیا پر دباؤ کے ذریعے عمران خان کی بھرپور کوریج اور ان کے مخالفین کے سیاسی اجتماعات کو دبادبا کر دکھایا جاتارہا۔ کس طرح الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد سیاستدانوں اور ممبرانِ اسمبلی کو ان کی جھولی میں ڈالا گیا تاکہ وہ حکومت بنا سکیں۔ خان صاحب کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ کیسے اسٹیبلشمنٹ نے میڈیا کو باقاعدہ حکم دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی پولیٹیکل انجینئرنگ سے بننے والی تحریک انصاف کی حکومت کی مثبت رپورٹنگ کی جائے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ ان کے دور میں اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے میڈیا کو ایک ایسے دباؤ میں رکھا گیا جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ خان صاحب کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے اپنے دور میں کتنے صحافیوں کو اٹھایا گیا، کتنوں کی دھنائی کی گئی، کتنوں پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ خان صاحب کو تو یہ بھی یاد نہیں ہو گا کہ انہوں نے بحیثیت وزیراعظم ایران کے سرکاری دورے کے دوران، ان کی حکومت کے متعلق چند بین الاقوامی اداروں کی کرپشن کی رپورٹ پر مبنی میری خبر شائع ہونے پر اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ذریعے جنگ گروپ کی مینجمنٹ کو ہدایت دی تھی کہ انصار عباسی کو رات نو بجے سے پہلے جنگ گروپ سے نکال دیا جائے ورنہ جیو نیوز کو بند کر دیا جائے گا۔ خان صاحب کیا یہ بھی بھول گئے کہ انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد مثلاً سینٹ الیکشن میں تحریک انصاف کی کامیابی، قانون سازی اور حکومتی اراکین کی اسمبلی میں موجودگی کیلئے بھی اسٹیبلشمنٹ کو استعمال کیاتھا۔ خان صاحب کی یاددہانی کیلئے عرض ہے کہ ان کے دور میں ان کے سیاسی فائدوں کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی مخالفوں کو دبانے اور ناپسندیدہ میڈیا کو لگام دینے کیلئے گمنام نہیں بلکہ باقاعدہ تعارف کے ساتھ فون کئے جاتے تھے اور حکم دیا جاتا تھا یہ کریں اور یہ نہ کریں۔ خان صاحب اگر اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے خلاف ہیں اور اس کے خاتمے کی خواہش رکھتے ہیں تو پھر انہیں پورا سچ بولنا چاہئے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پر ان کی تنقید کا اب بھی مقصد سویلین بالادستی کا حصول نہیں بلکہ یہ کوشش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ مل جائے اور ان کے مخالفوں کو کچلنے میں ان کا ساتھ دے۔ یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔ اپنے تازہ انٹرویو میں خان صاحب نے سری لنکا اور مصر کی مثالیں دیں اور بتایا کہ خراب معاشی حالات کی وجہ سے کیسے آئی ایم ایف ان ممالک کی فوج کی تعداد کم کروا رہا ہے۔ خان صاحب پاک فوج کی اہمیت کی بات بھی کرتے رہتے ہیں لیکن انہیں ایک اور سچ بولنا چاہئے کہ اگر خدانخوستہ پاکستان سری لنکا بنتا ہے اور ہم دیوالیہ ہو جاتے ہیں تو اس میں ان کی حکومت کے آخری چند ماہ کے فیصلوں اور ان کی موجودہ سیاست کا کتنا کردار ہو گا؟ جاتے جاتے آئی ایم ایف کے ساتھ اپنی حکومت کی ڈیل کا ستیاناس کیا تاکہ آنے والی حکومت سے معیشت سنبھل ہی نہ سکے اور جب موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے دوبارہ پروگرام بحال کرنے کی بات چیت شروع کی تو پہلے 25 مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا یعنی اس وقت جب پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ دوحہ میں اہم مذاکرات ہورہے تھے اور بعد میں جب آئی ایم ایف سے پاکستان کے مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئے تو شوکت ترین سے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے وزرائے خزانہ کو فون کروایا کہ وفاقی حکومت کو خط لکھ کر میڈیا کو لیک کر دو تاکہ آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہو سکے۔ خان صاحب اس ملک کو میثاق معیشت کی ضرورت ہے نہ کہ ہوس ِ اقتدار کی اسیر ایسی سیاست کی جو اس ملک کو سری لنکا بننے کی طرف لے جائے اور پھر وہی ہو جس خدشے کا آپ اظہار کر رہے ہیں۔ اگر پاکستان کو سری لنکا بننے سے بچانا ہے تو اپنے اقتدار کی بجائے میثاق معیشت کے حصول کو اولیت دیں یہی پاکستان اور عوام کے حق میں بہتر ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ