ڈسکہ سے اقوامِ متحدہ تک : تحریر الطاف حسن قریشی


گزشتہ سال پاکستان کے لئےمجموعی طور پر سوہانِ روح ثابت ہوا۔ اُس میں سیاسی، معاشی، تہذیبی اور اَخلاقی زوال خطرناک حدوں کو چھونے لگا تھا جس نے ریاست کے استحکام پر بھی شدید منفی اثرات مرتب کئے۔ آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ عسکری قیادت نے مکمل طور پر غیرجانب دار رَہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اِس فیصلے میں وہ اَعلیٰ افسر بھی شامل ہیں جو آئندہ پندرہ بیس برس تک فیصلہ سازی میں شریک رہیں گے۔ اِس اعلان پر بعض حلقے مسلسل شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے دُہائی دے رہے ہیں کہ پہلے کی طرح پولیٹکل انجینئرنگ جاری ہے مگر مجموعی طور پر اِس اعلان کا خیرمقدم ہوا ہے اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ عسکری قیادت ماضی کی غلطیوں کا کفارہ بھی ادا کرے گی۔

2022ء میں البتہ اچھی کتابیں شائع ہوئی ہیں جنہیں موتیوں میں تولا جا سکتا ہے۔ مجھے خوش قسمتی سے جناب اسلم مغل کی داستانِ حیات پڑھنے کا موقع ملا جو اُنھوں نے انگریزی زبان میں Daska to United Nations کے عنوان سے شائع کی ہے۔ یہ کہانی اُن لاکھوں نوجوانوں کے لئے روشنی کا مینار ہے جو زندگی میں جدوجہد سے بلند مقام تک پہنچنے کے آرزومند ہیں۔ نامور اَدیب جناب منشا قاضی اِس کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کا عظیم کام سرانجام دے رہے ہیں۔ تب اِس حیرت انگیز داستان سے استفادہ کرنا اور آسان ہو جائے گا۔ جناب اسلم مغل نے انگریزی میں بھی سحرانگیز اندازِ بیان اختیار کیا ہے جس کا اپنا لطف ہے۔

’ڈسکہ سے اقوامِ متحدہ تک‘ ایک ایسے نوجوان کی آپ بیتی ہے جو ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا جس میں بجلی تھی نہ پانی۔ سکول تو تھا، مگر لائبریری اور لیباریٹری کی سہولت میسرنہیں تھی۔ معاش کی تلاش میں اُس بچے کے دادا حاجی وسّن گاؤں سے ڈسکہ منتقل ہو گئے اور لکڑی کا کاروبار شروع کیا۔ اسلم مغل کے والد جناب اللہ دتہ اور اُن کی والدہ فاطمہ بیگم اگرچہ تعلیم یافتہ نہیں تھے مگر اُنہوں نے اپنے بچے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اُس نے سرکاری، پرائمری اور ہائی اسکول میں تعلیمی مدارج طے کئے۔ زمانۂ طالبِ علمی میں مولانا محمد علی مظفری سے دینی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ مولانا مظفری کا مرتبہ یہ تھا کہ اُن کی عیادت کے لئے دو بار سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ڈسکہ آئے اور اَسلم مغل کو اُنہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ایک گونہ وابستگی پیدا ہو گئی۔

طالبِ علم کی لگن، اساتذہ کی محنت اور وَالدین کی دعاؤں سے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ہو گیا جو اُن دنوں بہت بڑے اعزاز کی بات تھی۔ ایف ایس سی میں اچھے نمبر حاصل کرنے پر انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ وہاں سے اعلیٰ پوزیشن میں گریجویشن کی اور وَاپڈا میں ملازمت مل گئی لیکن رزقِ حلال کے لئے بےچینی بڑھتی گئی اور ساتھ ہی ترقی یافتہ ملکوں میں کامیاب منصوبے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اُنہوں نے شہری منصوبہ بندی میں ماسٹرز کی تعلیم کے لئےحکومت سے وظیفہ حاصل کیا۔ اُس وقت شہری منصوبہ بندی کے بارے میں کوئی خاص شعور نہیں پایا جاتاتھا۔ اُنہوں نے امریکہ سے ماسٹرز کیا اور اُن کی غیرمعمولی صلاحیتوں کی بدولت اُنہیں بہت اعلیٰ ملازمت اور گرین کارڈ کی پیشکش ہوئی مگر اُنہوں نے وطن واپس آنے کو ترجیح دی۔ یہ اُن کی پاکستان کے ساتھ محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔ حب الوطنی کا یہی عظیم جذبہ اُن کی پوری زندگی میں جاری و ساری رہا۔

وہ مختلف خدمات سرانجام دیتے ہوئے ایل ڈی اے میں چیف میٹروپولیٹن پلانر تعینات ہوئے۔ اِس حیثیت سے اُنہوں نے نہر کے ساتھ ساتھ پھولوں کی کیاریاں اور دَرختوں کے جھنڈ لگائے اور پورا علاقہ گل و گلزار بن گیا۔ نہر کے ساتھ ساتھ ڈرائیونگ ایک فرحت بخش سفر قرار پایا۔ نہر کے ساتھ میلوں تک پھیلا ہوا شاداب منظرنامہ کسی اور ملک میں دستیاب نہیں۔ اُنہوں نے شہری منصوبہ بندی میں ایسا کمال پیدا کیا کہ وہ معجزانہ طور پر اقوامِ متحدہ کی ملازمت کےلئے منتخب کر لئے گئے۔ اُنہوں نے سترہ سال سعودی عرب میں شہری منصوبہ بندی کے مشیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ جناب اسلم مغل کا بڑا کارنامہ مکّہ مکرمہ کی منصوبہ بندی تھا جہاں بڑی تعداد میں بین الاقوامی ماہرین کے کام کی نگرانی اور مشاورت کی۔ مجھے مارچ 1997ء میں ریاض جانے اور اُن کے ہاں قیام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اُس دوران وَہاں کے اعلیٰ حلقوں میں جناب اسلم مغل کے لئے احترام کے مناظر دیکھنے کے مواقع ملے۔ پاکستانی کمیونٹی میں وہ بڑے مقبول تھے۔ اُنہوں نے اپنی خوش خلقی اور دُوسروں کے کام آنے کی اچھی عادت کے ذریعے ایک دنیا کو اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا۔

اسلم مغل رِیٹائر ہو کر لاہور آئے تو فلاحی کاموں میں مشغول ہو گئے۔ اُنہی دنوں پنجاب حکومت نے ’آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم‘ کا اعلان کر رکھا تھا۔ وزیرِاعلیٰ شہبازشریف اُن کی صلاحیتوں کے بہت مداح تھے۔ اُنہوں نے جناب اسلم مغل کو اِس پروجیکٹ کی سربراہی قبول کرنے کے لئے کہا۔ جناب اسلم مغل نے یہ ملازمت قبول کرنے سے انکار کر دیا، البتہ اِس شرط پر آشیانہ اسکیم کا ایک فیز مکمل کرنے کا ذمہ لے لیا کہ اُن کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ شہبازشریف اِس پروجیکٹ میں غیرمعمولی دلچسپی لیتے اور سائٹ پر سب سے پہلے پہنچتے رہے۔ مقررہ وَقت سے پہلے ہی اسلم مغل صاحب اپنی اسائنمنٹ مکمل کر چکے تھے۔ اگر آشیانہ اسکیم کی طرز پر رہائشی اسکیمیں تیار کی جاتیں، توشہریوں کی رہائش کا مسئلہ بڑی حد تک مکمل ہو چکا ہوتا۔

اسلم مغل آج کل علی گڑھ اولڈ بوائز تنظیم سے وابستہ ہیں اور معجزات تخلیق کر رہے ہیں۔ پاکستان میں علی گڑھ یونیورسٹی کا منصوبہ اُن کی نگرانی میں تکمیل کے قریب ہے۔ یہ منصوبہ سالہاسال سے کھٹائی میں پڑا تھا۔ گلبرگ لاہور میں ایک وسیع و عریض تعلیمی ادارہ کام کر رہا ہے۔ تہذیب الاخلاق میں بھی جناب اسلم مغل کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔ یہ اُن کی ذات پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ وہ ڈسکہ سے اُٹھ کر دنیا کے اعلیٰ ترین ایوانوں تک پہنچے۔ ’ڈسکہ سے اقوامِ متحدہ تک‘ کتاب کا ہر ورق عظیم الشان تجربات، قیمتی مشاہدات اور حقیقی کامیابی کے اصولوں سے معمور ہے۔ تمام اہلِ علم اس تحفۂ نایاب کو اپنی لائبریری کی زینت بنائیں اور نسلِ نو کو کامیابی کی منزلیں طے کرنے کے ہنر سے روشناس کرائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ