اسلام آباد(صباح نیوز):وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے نوجوان امن کے لئے تیار ہیں اور وہ ایک پرامن خوشحال پڑوس دیکھنا چاہتے ہیں، ہمیں تقسیم کی نہیں بلکہ اتحاد کی سیاست پر یقین ہے، ہمیں پاکستان کی جمہوریت پر اعتماد ہے اور اس پر کاربند رہیں گے، ہمارے لیے جمہوریت اور اداروں کی مضبوطی بہت اہم ہے، وزیر اعظم اور ان کی اقتصادی ٹیم تمام اتحادیوں کے تعاون سے ملک کو مشکل معاشی دور سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے چینل نیوز ایشیا(سی این اے) کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہماری اپوزیشن فوج کے سیاست سے پیچھے ہٹنے کی مہم نہیں چلا رہی بلکہ اس بات پر احتجاج کر رہی ہے کہ فوج نے غیر آئینی مداخلت نہیں کی اور عدم اعتماد کا ووٹ لانے سے نہیں روکا۔ میرے خیال میں یہ مضحکہ خیز ہے، یہ ان تمام لوگوں کے لئے باعث تشویش ہے جنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں اور اگر عمران خان سیاست دان بننا چاہتے ہیں تو جمہوریت پسند کا کردار ادا کریں۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب ہم اقتدار میں آئے تو ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہیں ہوا تھا بلکہ یہ عمران خان کی ڈیل تھی، جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنا عدم اعتماد کا ووٹ ہارنے والے ہیں تو اس سے پیچھے ہٹ گئے اور ایسے اقدامات کیے جس نے ہماری تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچا دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پہلے چھ ماہ کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی اقتصادی ٹیم نے ملک کو درپیش صورتحال کے پیش نظر مشکل معاشی فیصلے کئے کیونکہ ہم نے سنجیدہ معاشی اصلاحات کا عزم کیا ہے، ہم پاکستانی عوام کے لیے نتیجہ خیز کام کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب کی تباہی کے نتیجے میں ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا، اس سے33 ملین لوگ متاثر ہوئے اور30 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا جو کہ ہماری جی ڈی پی کا 10 فیصد ہے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اس وقت ہم ایک مشکل معاشی صورتحال سے دوچار ہیں البتہ مجھے یقین ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی اقتصادی ٹیم تمام اتحادیوں کے تعاون سے ملک کو شدید مشکل معاشی دور سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں درپیش چیلنجز کا ادراک ہے، ہم بحیثیت حکومت ایک ریاست اور سیاسی جماعتوں کے طور پر بھی سنجیدہ ہیں کہ جہاں کہیں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں ان کا نوٹس لیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں انسانی حقوق خاص طور پر مسلم اقلیت کی مذہبی آزادیوں کے حوالے سے صورتحال اور غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بین الاقوامی سطح پر تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت میں ہندو بالادستی کے نظریہ کو پروان چڑھایا گیا ہے جبکہ وہاں مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں اور حتی کہ نچلی ذات کے ہندوئوں کے خلاف بھی نفرت پر مبنی رویوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میرے خیال میں ہندوستان اور پاکستان کی نوجوان نسل امن کے لیے تیار ہے اور وہ ایک پرامن خوشحال پڑوس دیکھنا چاہتے ہیں، مجھے نوجوان نسل پر بھروسہ ہے اور ہم اکیسویں صدی کے جمہوریت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تقسیم کی سیاست کو اتحاد کی سیاست سے شکست دیں گے، نفرت کی سیاست کو امید کی سیاست سے شکست دیں گے، جھوٹ کی سیاست کو سچ کی سیاست سے شکست دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مستقبل نئی نسل کے ہاتھ میں ہے، ہم کل کے لیے امید کرتے ہیں جو آج سے بہتر ہو گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں تقسیم کی نہیں بلکہ اتحاد کی سیاست پر یقین ہے، ہم نفرت اور تفریق کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے، مجھے پاکستان کی جمہوریت پر اعتماد ہے اور اس پر کاربند رہیں گے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارے لیے جمہوریت اور اداروں کی مضبوطی بہت اہم ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں ماضی میں اس طرح کی تاریخ رہی ہے کہ جمہوریت پسندوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے منظر سے ہٹایا جاتا رہا۔
انہوں نے کہا کہ مسائل کا حل پارلیمنٹ میں ہے، آج بھی میرا عمران خان سے یہی مطالبہ ہے کہ اگر وہ اپوزیشن کرنا چاہتے ہیں تو پارلیمنٹ میں واپس آئیں، سڑکوں پر انتشار اور بے یقینی پیدا کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کے فورم سے سیاسی مخالفت کریں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں یقینی طور پر سمجھتا ہوں کہ عدم اعتماد کا ووٹ پاکستان کی جمہوریت کے لیے ایک اہم سنگ میل تھا کہ ہم نے غیر جمہوری آپشنز کی بجائے جمہوری طریقے کا انتخاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کا تعلق ہے، تو میں صرف ایک وجہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ حقیقت ہے کہ ہماری تاریخ میں تیسری بار پارلیمنٹ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر رہی ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ پاکستان میں جمہوری عمل کی پختگی کے لیے ناقابل یقین حد تک اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ محض انا کی خاطر اسمبلیوں کو ختم کرنا کسی طور بھی ملک کی خدمت نہیں ہو گی، اس سے معاشی استحکام اور جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔۔