کیا پاکستان کی پرائیویٹ اور پبلک یونیورسٹیوں کے جملہ معاملات سے ہماری صوبائی اور مرکزی حکومتیں لاتعلق ہو چکی ہیں؟ کیا نجی اور سرکاری جامعات کومن مانی کرنے اور بے لگام ہو کر طلبا و طالبات سے من پسند اور بھاری فیسیں بٹورنے کی کھلی چُھٹی دی جا چکی ہے؟
کوئی پوچھنے والی ایسی اتھارٹی نظر نہیں آ رہی جو سرکاری اور نجی جامعات کی انتظامیہ سے استفسار کر سکے کہ داخلہ ٹیسٹوں میں بیٹھنے کے نام پر بھی طلبا و طالبات سے کمر شکن پیسے وصول کیے جا رہے ہیں۔
مجھے اس قیامت کا شاید معلوم ہی نہ ہو پاتا اگر مجھے گھر آئے کچھ بچوں کے مسائل سُننے کا براہِ راست موقع نہ ملتا۔ابھی پچھلے ہفتے ملک بھر کے ینگ ڈاکٹروں پر پولیس نے جو مظالم ڈھائے ہیں، اس کی باز گشت ابھی تھمی نہیں ہے۔ اسلام آباد میںPMCکی عمارت کے سامنے احتجاجی طلبا اور پولیس کے درمیان جو افسوسناک تصادم ہُوا ہے، اس کا احوال سب نے دیکھا اور سُنا ہے ۔
میرے بڑے بیٹے کے چار دوست ہمارے غریب خانہ آئے ہُوئے تھے۔بیٹے سمیت پانچوں دوستوں نے حال ہی میں بی ایس انجینئرنگ کی ہے ۔ اب سب، اپنے اپنے پسندیدہ شعبوں میں،ایم ایس کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔بیٹھک میں بیٹھے وہ باتیں کر رہے تھے کہ اجازت لے کر مَیں بھی اُن کے پاس جا بیٹھا۔ سب اکٹھے ہی ایم ایس کی نئی کلاسوں میں داخلے کے خواہشمند تھے لیکن پہلے سب کو اسلام آباد کی تین یونیورسٹیوں میں علیحدہ علیحدہ داخلہ ٹیسٹوں کے written مراحل سے گزرنا تھا۔ اور اس مرحلے سے بھی پہلے انھیں نجی اور سرکاری جامعات میں ٹیسٹ کے لیے داخلہ فیس بھرنی تھی۔
مَیں نے سب سے ٹیسٹ فیس بارے استفسار کیا تو خاصی حیرت بھی ہُوئی اور پریشانی بھی۔ ایک یونیورسٹی داخلہ ٹیسٹ کے لیے پانچ ہزار روپے، دوسری تین ہزار روپے اور چوتھی ڈھائی ہزار روپے کا مطالبہ کررہی تھی ۔ مجھے حیرانی اس بات کی تھی کہ صرف داخلہ ٹیسٹ کے لیے ہزاروں روپے کی فیس چہ معنی دارد؟ ٹیسٹ کا سوالنامہ صرف ایک چھوٹے سے کاغذ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور بس۔ ٹیسٹ میں بیٹھنے والے بچے اپنے خرچ پر یونیورسٹی پہنچتے ہیں۔ کمرۂ امتحان میں صاف پانی تک فراہم نہیں کیا جاتا۔ پھر یہ ہزاروں روپوں میں ٹیسٹ فیس کس مَد میں؟۔
میرا تجسس بڑھا تو دوسرے روز میں خود ایک جامعہ کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ پہنچ گیا۔ میرا بیٹا مجھے منع ہی کرتا رہا لیکن مَیں پہنچ گیا۔ متعلقہ شعبے کے ذمے دار کلرک بادشاہ سے ہزاروں روپے میںوصول کی جانے والی اس داخلہ ٹیسٹ فیس کی جزئیات بارے کچھ سوالات پوچھے۔ کوئی مناسب اور شافی جواب دینے کے بجائے وہ حضرت تو میرے بال نوچنے کو آگئے۔ میرا بیٹا تمیز کے ساتھ خاموش دیکھتا رہا۔ وہ بولا تو بس یہ بولا: ’’بابا، اسی لیے مَیں نے آپ سے کہا تھا کہ ان لوگوں سے وجہ جاننے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، چلیے گھر چلتے ہیں۔‘‘گھر تو مَیں آگیا لیکن تب سے مسلسل خود اذیتی کے عذاب میں مبتلا ہُوں۔
زیادہ اذیتناک بات یہ ہے کہ جو کم وسائل والدین اپنی ساری اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہاں جائیں؟ کہاں فریاد کریں؟ وہ یہ بھاری داخلہ ٹیسٹ فیسیں کہاں سے پوری کریں؟ اور اگر داخلہ ہو بھی جاتا ہے تو ہر سمسٹر پر لاکھوں روپے کی فیس کہاں سے لائیں؟ یاد رہے کہ ’’وطنِ عزیز‘‘ کی ہر پرائیویٹ اور پبلک یونیورسٹی میں ہر سمسٹر کی فیس لاکھ ، سوا لاکھ روپے سے کم نہیں ہے ۔ فیس کے علاوہ بچے اور بچی کے کپڑوں ، ٹرانسپورٹ، ہوسٹل، جیب خرچ پر ہزاروں روپے کے اخراجات اضافی طور پر اُٹھتے ہیں۔
گویا جامعہ نجی ہو یا سرکاری ، فی سمسٹر ایک بچے پر کم ازکم دو لاکھ روپے خرچہ آتا ہے۔ ایک سال میں چار لاکھ روپے سے زائد۔ اور اگر کسی والدین کے تین بچے بیک وقت یونیورسٹی گوئنگ ہوں اور والد کی تنخواہ ہی پچاس ساٹھ ہزار روپے ہو، وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کیسے دلوا سکے گا؟
یوں لگتا ہے جیسے پاکستان کی یونیورسٹیوں سے یہ تبدیلی حکومت لا تعلق ہو چکی ہے ۔ یہ بیگانگی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جامعات کی انتظامیہ بے مہار اور بے مہر ہو چکی ہیں ۔ ان پر کوئی چیک رہا ہے نہ نگرانی کا کوئی معیار ۔ حکومت کی طلبا و طالبات کے مسائل اور مصائب سے لا تعلقی اس’’ بلندی‘‘ پر پہنچ چکی ہے کہHECنے ذہین ترین طلبا و طالبات کے وظائف روک دیے ہیں۔
ایچ ای سی سے پوچھا جائے تو وہ کھرا سا جواب دیتی ہے: ہم کیا کریں؟ تبدیلی سرکار نے ہمارے فنڈز روک رکھے ہیں یا فنڈز میں کٹوتی کر دی ہے۔ ایچ ای سی کے بَین سُنے جائیں تو وحشت میں اپنا گریباں چاک کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ نوبت ایں جا رسید کہ غیر ممالک میں سرکاری وظائف پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے گئے ہمارے طلبا کے تبدیلی سرکار نے مبینہ طور پر وظائف بھی بند کر دیے ہیں۔وہ بیچارے وہاں بیٹھ کر سینہ کوبی کررہے ہیں۔
حکومت کے کانوں پر مگر جُوں تک نہیں رینگ رہی ۔ یوں احساس ہورہا ہے جیسے اِس حکومت اور اس کے ذمے دار کار پردازوں کو تعلیم نام کی ہر شئے سے بیزاری ہے۔ تعلیم حاصل کرنا اور تعلیمی اداروں میں داخلہ لینا کبھی ایسا دشوار اور پیچیدہ نہیں تھا جتنا اب کر دیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے اٹھارویں ترمیم کے تحت تعلیم کو ویسے بھی اپنے ہاں سے ’’دیس نکالا‘‘ دے رکھا ہے۔
پھر تعلیم زدگان اپنے دکھ رکھیں تو کس کے سامنے رکھیں؟ وزیر اعظم صاحب انگریزی زبان کے خلاف بیان بازی کرکے اپنی پاپولسٹ سیاست کا شوق پورا کررہے ہیں اور پنجاب میں اُن کے وزیر تعلیم کی زبان پر اُردو کم اور انگریزی زیادہ رواں نظر آتی ہے۔ ویسے سارے ملک میں ایک ہی نصابِ تعلیم کو متعارف کروانے کا حکومتی بیانیہ بھی خوب ہی لطیفہ ہے۔
لطائف ہر جگہ نظر آ رہے ہیں۔ہمارے میڈیا پر اُن تعلیمی مسائل پر بات کرنا ویسے بھی عنقا ہو چکا ہے جن سنگین اور بنیادی سوالات کی اساس پر والدین کی درد سری روز بروز بڑھ رہی ہے۔ سیاست کاری کا شوق ہر مسئلے پر غالب ہے۔تعلیم اور تعلیم یافتگان سے ریاست مکمل طور پر بیگانہ ہو چکی ہے ۔ ویسے ریاست کا اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے حُب الوطنی کا مطالبہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ریاست اور ریاستی ادارے اگر دانستہ اپنے تعلیم یافتگان کی روزی روٹی کا بنیادی اور ضروری بندوبست ہی نہ کر سکیں تو حُب الوطنی کے گیت کس زبان سے کیسے ادا ہوں گے؟معروف کہاوت ہیَ بھرا پیٹ فارسیاں بولتا ہے ۔
خالی پیٹ اور بے روزگاری زدہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان حُب الوطنی کی آواز لگائے گا تو کہاں سے ؟ ایک ادارے (PIDE)نے سروے شایع کیا ہے کہ پاکستان میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی شرح 21فیصد ہے ۔ کیا یہ شرح ہمارے حکمرانوں کے لیے قابلِ فخر ہو سکتی ہے؟
معروف ادارے ’’گیلپ‘‘ نے ایک سال قبل سروے کروایا تھا جس میں یہ نتیجہ نکلا کہ پاکستان میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری ہولڈرز خواتین میں سے 60فیصد بے روزگار ہیں ۔ پاکستان بنا تو اُس وقت ملک میں صرف دو جامعات تھیںجن میں صرف600طلبا زیر تعلیم تھے ۔ آج ان نجی اور سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد 200ہو چکی ہے اور ملک میں بے روزگاری کا سیلاب گردن تک آ پہنچا ہے ۔ پروا مگر کسے ہے؟