36 یونین کونسلز پر مشتمل تحصیل گوجر خان کی آبادی 9 لاکھ کے قریب ہوگئی


گوجر خان(صباح نیوز)36 یونین کونسلز پر مشتمل تحصیل گوجر خان کی آبادی 2017 کے مطابق 6 لاکھ 78 ہزار پانچ سو تین افراد  جبکہ اب 9 لاکھ کے قریب ہے،   ضلع تلہ گنگ 23 یو سی , آبادی 4 لاکھ ، جبکہ ضلع مری میں ڈیڑھ درجن سے بھی کم یونین کونسل اور آبادی  2 لاکھ 33 ہزار)  گوجرخان کے مشرق میں آزاد  کشمیر کا ضلع میرپور اور منگلا ڈیم واقع ہیں، جنوب مشرق میں ضلع جہلم ، شمال میں تحصیل کہوٹہ، شمال مغرب میں تحصیل کلرسیداں اور راولپنڈی ، جنوب مغرب اور مغرب میں ضلع چکوال واقع ہے،  یہ سطح سمندر سے 1512 فٹ بلند ہے، گوجرخان شہر اس تحصیل کا صدرمقام اور ریلوے سٹیشن ہے، جو اسلام آباد سے 57 کلومیٹر اور لاہور سے 250 کلومیٹر مین جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ یہ خطہ پوٹھوہار کا دل سمجھا جاتا ہے۔ پنجابی زبان کا اہم ترین پوٹھوہاری لہجہ گوجرخان کے باسیوں کا ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اس سرزمین نے سکندر اعظم، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، شہنشاہ بابر،  شیر شاہ سوری، نادرشاہ، احمد شاہ ابدالی، سمیت بڑے فاتحین کو دیکھا ہے، جو یہاں سے گزر کر ہندوستان پر حملہ آور ہوئے۔

گوجر خان کا ذکر  غزنوی، عہد بابری میں بھی ملتا ہے، شیرشاہ سوری کے دور میں اہم سرائے تھا، آئین اکبری میں دھان گلی پرگنہ کا حصہ تھا۔ سکھ جنرل گوجرسنگھ نے 1787 میں اسے تحصیل ہیڈکوارٹر بنایا، بعض دیگر روایات کے مطابق چوہان نے اپنے بیٹوں گوجر خان، بھائی خان اور عمرخان کے نام پر تین قصبے آباد کیے۔گوجرخان کو جی ٹی روڈ کی سب سے بڑی تحصیل شمار کیا جاتا ہے، یہ 1466 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے، جبکہ نئے بننے والے ضلع مری کا رقبہ 434 مربع کلومیٹر ہے، تحصیل گوجر خان معدنیات سے مالامال ہے،  آہدی مستالہ، مسہ کسوال، اور ٹوبرا سے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر عرصہ دراز سے نکالے جا رہے ہیں تاہم اس کے ثمرات سے اہل علاقہ محروم ہیں اور یہ تیل راولپنڈی کی اٹک ریفائنری سے صاف ہو کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق کراڈ آئل کی پاکستان میں سب سے زیادہ پروڈکشن  آہدی آئل فیلڈ سے ہو رہی ہے۔ اس وقت آہدی کے چاروں اطراف میں 38 ویلز پروڈکشن کر رہے ہیں۔تحصیل گوجر خان میں تقریبا 381 گاں ہیں، جبکہ مقابلتا ضلع وزیر آباد میں 143, اور ضلع تلہ گنگ میں 140 دیہات ہیں۔گوجرخان میں بڑی تعداد میں سکھ اور ہندو آباد تھے  گلیانہ سکھ سمادھی، نڑالی اور ہریال ہندو ٹمپل، بیدی محل اس کی مثالیں ہیں،گوجر خان کی مونگ پھلی ذائقہ اور کثرت کے اعتبار سے پورے ملک میں مشہور ہے، سکھو کا تلواں، اور دولتالہ کے شکرپارے بھی اہم سوغات ہیں۔علاقے کی آبادی زراعت و کاروبار سے منسلک، آرمی و دیگر اداروں میں جاب رجحان زیادہ ہے، جبکہ علاقہ کی بہت بڑی تعداد بیرون ملک سیٹل ہے، جو کثیر زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔

علاوہ ازیں صنعت و حرفت بھی اہم جزو ہے، الہی کاٹن ملز ، کوہ نور کاٹن ملز گلیانہ، پاکستان ٹوبیکو، صادق فیڈز، یونائیٹڈ فلور ملز ، کمال لیبارٹریز ، پوٹھوہار ونڈہ مل،مدینہ آئل مل ، لیسکو فیڈ مل ، المدینہ آئل مل،  ماربل فیکٹریاں اہم صنعتیں ہیں۔فضل شاہ کلیامی معظم شاہ جھلیاری والے،  پیر عبداللہ شاہ بھنگالی شریف، محمد شاہ  اور سید میں شاہ نذر اور شاہ دیوان تصوف کی معروف شخصیات گزری ہیں۔اس دھرتی سے بڑے زرخیز ذہنوں نے جنم لیا جو ملک کے سب سے بڑے عہدوں پر براجمان ہوئے،  سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی ، سابق چیف جسٹس محمد افضل ظلہ، پروفیسر رفیق اختر، کرکٹر محمد عامر، جنرل سوار وغیرہ اس دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں،گوجر خان کو شہیدوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے اور یہ پاکستان کی واحد تحصیل ہے جس کے دو فرزندوں نے بہادری کا سب سے بڑا ایوارڈ ، نشان حیدر حاصل کیا ہے، سنگھوری کے کیپٹین محمد سرور شہید اور سوار محمد حسین شہید۔

گوجر خان کشمیر بارڈر پر سنگنی قلعہ اور گوجرخان جہلم بارڈر پر پرتھوی راج چوہان کو ڈھائی سو دیگر راجاوں سمیت شکست دینے والے شہاب الدین غوری کا مزار دھمیک کے مقام پر واقع ہے۔کثیر آبادی، بڑے رقبے، کثیر زرمبادلہ اور ریونیو، انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ، دفاع سمیت ہر میدان میں اعلی ترین خدمات دینے کے باوجود، ہر اعتبار سے ضلع کا سٹیٹس رکھنے کا حق رکھنے کے باوجود پوری تحصیل گوجرخان میں نہ تو کوئی یونیورسٹی ہے، نہ تمام سہولیات والا ہسپتال، نہ کوئی ریفائنری ، نہ ائیرپورٹ، نہ کوئی موٹروے، نہ میٹرو، ریلوے اسٹیشن میں اہم ٹرینیں نان سٹاپ گزر جاتی ہیں،  لوگوں کا مطالبہ ہے کہ گوجرخان کو ضلع بنا کر اس ناانصافی اور احساس محرومی کو ختم کیا جائے۔ اور ہم تیسرے درجے کے شہریوں کو بھی برابر کے حقوق فراہم کیے  جائیں۔۔