اسلام آباد(صباح نیوز) قومی اسمبلی کے اجلاس کی کاروائی کے دوران وزیردفاع خواجہ محمدآصف نے سیلاب سے متاثرہ کسانوں کی کاشت کے لئے بروقت امداد نہ کرنے کی صورت میں ملک میںغذائی قلت کا خدشہ ظاہردیا انھوں نے متاثرہ علاقوں میں سیاسی بنیادوں پرامداد تقسیم کا معاملہ کابینہ میں اٹھانے کا اعلان کردیا جب کہ یہ معاملہ اٹھانے والی جماعت جی ڈی اے کو حکومت میں آنے کی دعوت بھی دے دی ، اتحادیوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نئی عسکری قیادت سے متعلق فیصلوں کے بعد ملک میں سکون آنا شروع ہوگیا ہے عوام نے مہنگائی بیروزگاری بدامنی ناانصافی کا بوجھ سینوں پر اٹھا رکھا ہے اب ازالہ کے لئے حکومت کی مکمل توجہ ہونی چاہیے ۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر زاہداکرم درانی کی صدارت میں ہوا۔جی ڈی اے کے رہنما غوث بخش مہر نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ سندھ میں سیاسی مخالفین کے حلقوں میں سیلاب متاثرین کو نظر انداز کیا جارہا ہے میں منتخب نمائندہ ہوں شکارپور اور دیگر علاقوں میں تقسیم کو سیاسی بنیادپر تقسیم کیا جارہا ہے ہمارے ووٹرز بھے گھر ہیں سردی میں کھلے میدانوں میں پڑے ہیں بار بار یہ بات کرچکا ہوں ۔کاشتکار کسان دربدر ہیں ان کے پاس فصل کی بوائی کے لئے کچھ نہیں ہے خوراک کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے وقت ضائع کیا جارہا ہے سندھ حکومت مخالف ووٹرز کو کس بات کی سزا دے رہی ہے ۔محمد ہاشم خان نے نکتہ اعتراض پر مطالبہ کیا کہ سیلاب متاثرین کے ایک سال کے لئے بجلی کے بلز معاف کئے جائیں۔
وزیردفاع خواجہ آصف نے نکتہ اعتراضات کو درست قراردیتے ہوئے کہا کسانوں کی فوری مدد نہ کی تو آنے والے دنوں میں غزائی قلت کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے یہ ( غوث بخش مہر)ادھر حکومتی بینچوں پر آجائیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو سیلاب متاثرین کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیے۔ سیاست کو نہ دیکھا جائے۔یہ معاملہ کابنیہ میں بھی اٹھاؤں گا اور پیپلزپارٹی کے ساتھیوں سے بھی بات کروں گا شکار پور کے متاثرین کی شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے۔انھوں نے سخت سردی آنے والی ہے جو متاثرین کے لئے نئی آزمائش ہوگی صوبائی حکومتیں اس معاملے کو ترجیحات میں شامل کریں ۔اس موقع پر غوث بخش مہر نے وفاقی وزیر کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا سندھ میں متاثرین دربدر ہیں۔آپ خود سندھ کا دورہ کریں ۔
وزیردفاع نے کہا کہ کسان پیکچ دیا گیا ہے اس پر بلاامتیازعمل ہونا چاہیے۔معاوضے دیئے جارہے ہیں ۔متاثرین کی آبادکاری مشترکہ زمہ داری ہے ۔سیاستدانوں کا یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ کسی صوبے میں ان کی حکومت ہو تو مخالفیں کے ووٹرز کو ہر لحاظ سے نظرانداز کیا جاتا ہے۔اس منفی سیاسی روایت کو ختم ہونا چاہیے۔ہمارے حلقے بھی پی ٹی آئی کے دور میں یہ سزابھگت چکے ہیں بلکہ ہمیں تو ووٹرز سے دور کرتے ہوئے جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔اس منفی سیاست کو اب ختم ہونا چاہیے اور سیاسی مخالفین کو برداشت کیا جائے سندھ کے سیلاب متاثرین سے متعلق جو معاملی اٹھا ہے اس بارے پیپلزپارٹی کے ساتھیوں سے بھی بات کروں گا۔ کسی حلقے کو امداد سے محروم نہ رکھا جائے ان چھوٹی حرکتوں کو اب سیاستدانوں کو ترک کردینا چاہییے تاہم متاثرہ علاقوں میں امداد معاوضے تقسیم ہورہے ہیں ۔مساوی بنیاد پر امدادی سرگرمیاں ہونی چاہیے۔
ایم کیو ایم کی رکن کشور زہرہ نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ خواجہ آصف طویل بولتے ہیں ، اچھا بولتے ہیں ،بول کر ایوان سے نکل جاتے ہیں ۔کراچی کو کچلا جارہا ہے اسے نشانہ بنایا جارہا ہے اس کی آبادی کی تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے ۔کراچی کی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسا معاملات آگے نہیں بڑھتے۔ ایوان میں مفاہمت سے کاموں کا حل نکالنا ہوگا۔کب تک اتحادیوں کو نظر اندازکرتے رہیں گے ۔ برطرف ملازمین کی بحالی سے متعلق قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں بھی ڈیکوروم کا خیال نہ رکھا گیا ارکان کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا چارپانچ لوگوں کا مسئلہ کیا اور کمیٹی اٹھ گئی جب کہ سندھ سمیت ملک بھر سے لوگ آئے تھے کسی شنوائی نہیں ہوئی۔ وفاقی وزیرموسمیاتی تبدیلی شری رحمان نے سیلاب متاثرین سے متعلق نکتہ اعتراضا ت کو جواب دیتے ہوئے کہ وہ خود شکارپور کا دورہ کریں گی بلاامتیاز امدادکی تقسیم ہونی چاہیے یو این او نے 30ارب ڈالر کے نقصان کو تخمینہ لگایا ہے۔ ایک طرف33ملین متاثرین ہیں دوسری طرف پی ٹی آئی کو لانگ مارچ کی پڑی ہے۔اس لانگ مارچ کا کیا مقصد ہے کیوں کنیٹنر اسلام آباد کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ سیاسی تقسیم کے لئے لانگ مارچ کیا جارہا ہے ۔پی ٹی آئی نے صدر کو بھی متنازعہ بنادیا کیوں صدرکو اپنے پاس بلوایا گیا سابقہ صدر زرداری کے دور میں تو ایسے معاملات کو نوٹس لیا جاتا تھا ۔