ایک المیہ۔۔۔تحریر: اعزاز سید


سندھ کے ضلع سکھرکے علاقے نواں گوٹھ کے ایک سید گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والد شِیخ الحدیث اورمقامی مسجد میں پیش امام تھا جن کے نو بچے تھے، اُسکا نمبر آٹھواں تھا، اس سے چھوٹی صرف ایک بہن تھی۔علاقے کی پسماندگی کے ساتھ غربت کا راج ہی اس دنیا میں اس کا استقبال کرنے والوں میں شامل نہ تھے بلکہ ایک اورمعاشرتی تنگ نظری بھی اسے مسلسل نشانہ بناتی۔

وہ ماں باپ اورپانچوں بہنوں کی آنکھوں کا تارا تھا مگراس کے چاروں بھائی نہ صرف اسے سخت ناپسند کرتے بلکہ موقع ملتا تو جلی کٹی سنانے کے ساتھ ساتھ ایک دو لگا بھی دیا کرتے تھے۔

اس نے قرآن کے دس پارے بھی حفظ کیے۔ باپ نے پیارسے اسکول میں داخل کیا تووہاں بھی اس کی زندگی آسان نہ تھی۔ آٹھویں میں تھا کہ والد کو فالج ہوگیا یوں اس کا اسکول بھی چھوٹ گیا۔

غربت میں والد کی بیماری کوپیسوں سے شکست دینے کے لیے اس نے کپڑے کا چھوٹا موٹا کاروبارکیا مگرموت کے ہاتھوں والد کو پھربھی نہ بچا سکا۔ والد کی آنکھ کیا بند ہوئی بھائیوںنے ظلم کی حد کر دی۔ماں پیارکرتی تھی مگربھائیوں کے ہاتھوں مجبورتھی۔ ایک روزایک بھائی نے اس پرحملہ کیا تواس کی زندگی کا سب کچھ بدل گیا۔

’’جب بھائی نے مجھے مارنے کے لیے لکڑی کی ایک نوکیلی چھڑی کا وارکیا تومیں بچنے کے لیے زمین پر لیٹ گئی،میری ماں نے اپنے ہاتھ سے بھائی کاوارروکا تواس کا ہاتھ لہولہان ہوگیا، خون میرے چہرے پر گرا تو میں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ اب میں اس گھر میں نہیں رہوں گی حالانکہ اس وقت میری عمر صرف 14 سال تھی‘‘۔

سکھرسے تعلق رکھنے والا خواجہ سرا صنم فقیراپنی کہانی سناتے ہوئے روپڑا۔ہم سب سکھرکے ایک مقامی ہوٹل کے کانفرنس روم میں بیٹھے تھے۔ صنم کو میری درخواست پرایک مقامی صحافی وہاں لایا تھا۔ میں نے کمرے میں نظردوڑائی تومحفل میں موجود کم و بیش دودرجن کے قریب شرکامیں سے اکثر بمشکل اپنے جذبات پرقابوپارہے تھے اوربعض کی آنکھیں پرنم تھیں۔جذبات کا بہائوذرا سنبھلاتومیں نے سوال کیا کہ کیا کبھی آپ کو جنسی طورپرہراساں کیا گیا؟کیا پولیس نے مدد کی؟جی ایسا ہماری برادری کے ساتھ اکثرہوتا ہے۔

آپ لوگ تو پولیس سے انصاف لینے جاتے ہولیکن اگر پولیس بھی انصاف مانگنے والوں پرظلم کرے توہم کس سے انصاف مانگیں؟ یہ محفل زیادہ دیرنہ چل سکی اورہم سب اس کی پوری کہانی سننے سے محروم رہے تاہم تجسس برقرار تھا اس لیے میں نے اس سے رابطہ کرکے باقی کہانی سنی جس میں اوربھی حیرانیاں موجود تھیں۔

اس نے بتایا کہ وہ گھراس لیے بھی چھوڑدیا کہ اسے پتہ تھا کہ اس کی بہنوں کے رشتے اس کی صنفی کی وجہ سے خطرے کا شکارہوسکتے ہیں۔ گھرسے جانے کے بعد اس نے خواجہ سرا برادری سے مدد لی مگر کپڑے کا کاروبارجاری رکھا۔ سکھرکے ایک کاروباری شخص نے اس پراعتبارکرکے کچھ رقم ادھاردی تو صنم نے اپنے کاروبارکوچارچاندلگا لیے اس کے ساتھ وہ اپنے خواجہ سرا ساتھیوں کے ہمراہ لوگوں کی خوشیوں میں ناچ گانا بھی کرتا اورکچھ پیسے ادھرسے بھی بنا لیتا۔

پیسے آئے تواب وہ صرف اپنی ہی نہیں اپنے گھروالوں،خواجہ سرائوں اور بے آسرا افرادکی مدد بھی کرنے لگا۔ ایک روزاس کی ماں بھی چل بسی ،اپنی ماں کا آخری دیدارکرنے اپنے ہی گھراجنبیوں کی طرح گیا بہنوں سے ملا بھائیوں سے بھی سلام دعا ہوئی مگر مہمانوں کی طرح۔ ایک بہن بیوہ ہوئی تو بھائیوں نے بیوہ بہن کو بھی نظرانداز کردیا۔اسے خبرملی تو اس نے اپنی بیوہ بہن اور اس کے بچوں کی ذمہ داری اٹھالی۔ وقت گزرتاگیا مگراس نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔اب شہرمیں اس کی ایک شناخت بن چکی تھی۔صنم نے انفرادی حیثیت میں تمام محرومیوں اورمعاشرتی تنگ نظریوں کو شکست تو دی ہی تھی مگر اب وہ سماجی میدان میں بھی آگے بڑھ گیا۔

اس نے خواجہ سرائوں کی کرکٹ ٹیم بنائی جس نے لڑکوں کے ساتھ میچ کھیلنا شروع کیے۔سکھرمیں لڑکوں کی ٹیم کو شکست دے کراس نے لوگوں کو اور بھی حیران کردیا اور ثابت کردیا کہ خواجہ سرا صرف ایک تیسری جنس ہے جسمانی کمزوری ہے نہ حقارت کا استعارہ۔

نومبر 2011 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے خواجہ سرائوں کو ووٹ کا حق ملا تو اس نے کہا کہ اگرہم ووٹ دے سکتے ہیں تو ووٹ لے بھی سکتے ہیں۔ اس نے سکھرسے صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 1 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا توجیسے علاقے کی سیاست میں تلاطم آگیا۔ مخالف امیدواروں کی طرف سے صنم پردبائوڈالا گیاکہ وہ دستبردارہوجائے۔

صنم فقیر بولا’’ یہ میری اور میری برادری کی عزت کا معاملہ ہے میں کبھی دستبردارنہیں ہوں گا‘‘۔الیکشن میں تمام تر مالی اور معاشرتی مسائل کے باوجود صنم فقیر 48 امیدواروں میں 9 سو سے زائد ووٹ لے کر چوتھے نمبرپرآگیا۔ یہ شکست نہیں بلکہ ایک طرح کی فتح تھی۔آج کل صنم سکھرمیں ایک غیرسرکاری سماجی تنظیم چلا رہا ہے۔

خواجہ سرائوں کے بارے میں کراچی کے ممتازصحافی اختربلوچ کی تحقیقی کتاب’’تیسری جنس‘‘ میری نظر سے گزرچکی تھی مگرمیں پہلی بارکسی خواجہ سرا سے اس کی کہانی سن کردم بخود تھا۔

صنم کی کہانی سن کرمجھے ان والدین اوران نام نہاد بھائیوں پرحیرت ہوئی جواپنے خاندان میں خواجہ سرا کی پیدائش یا موجودگی کو بے عزتی یا توہین سمجھتے ہیں اورایسے بچوں کو اپنی نام نہاد عزت اور غیرت کے نام پر سولی پہ چڑھا دیتے ہیں۔

اس سب کے باوجود یہ لوگ خودکشی کرنے پر جینے کو ترجیح دیتے ہیں،یہی اصل بہادر لوگ ہیں جو بہنوں کے بھائی اور ماں باپ کے اصلی بچے ہیں۔

صنم فقیر کی کہانی ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں ہراس فرد کے تعصب اورتنگ نظری کی داستان ہے جو خواجہ سرائوں کو اپنے جیسا انسان سمجھنے سے قاصرہے۔ جولوگ انہیں دیکھ کر تمسخر اڑاتے،ہنستے،ان پرآوازے کستے یا انہیں کمتر سمجھتے ہیں۔ایسے افراد واقعی کسی ذہنی بیماری کا شکارہیں۔ آپ بھی اگرایسی کسی بیماری کا شکارہیں تواپنے قریب موجود خواجہ سرائوں سے ملیے اورانہیں عزت دے کراپنی اس بیماری کا فوری علاج کیجیے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ