کچھ عظیم شخصیات کے بارے میں پنڈت نہرو کے خیالات : تحریر ذوالفقار احمد چیمہ


جواہر لعل نہرو، مہاتما گاندھی کے بعد انڈین نیشنل کانگریس اور ہندں کے سب سے بڑے لیڈر تھے۔ آزادی کے بعد وہ بھارت کے پہلے وزیرِاعظم بنے،وہ فلفسیانہ ذہن کے آدمی تھے۔

نوجوانی میں کارل مارکس کے نظریے سے متاثر ہوئے اور اپنی سیاسی زندگی میں بھی سوشل ازم کی طرف راغب تھے مگر انھوں نے بھارت میں سوشلسٹ نظام نافذ کرنے کے سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی۔

انھوں نے کئی کتابیں(انگریزی میں) لکھیں جن کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ بلاشبہ نہرو بھارت کے موجودہ حکمرانوں سے کہیں زیادہ فراخدل تھے اور ان کے دور میں مسلمانوں کی زندگی اس حد تک عذاب نہیں بنی تھی جس طرح اب ہے۔

جواہر لال نہرو نے انسانی تاریخ کی چند عظیم شخصیات کے بارے میں بھی ایک کتاب لکھی ہے جس میں دو نبیوں (حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت محمدۖ) کے علاوہ کئی بادشاہوں، فاتحین، مصلحین اور مختلف قوموں کے قائدین کے بارے میں اپنے خیالات تحریر کیے ہیں جو یقینا قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوں گے۔

ایک غیر مسلم ہندو رہنما ہمارے نبیۖ اور دو جلیل القدر صحابہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے بارے میں کیا لکھتے ہیں، قارئین کے ساتھ شئیر کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے غیرمسلم دانشوروں کی طرف سے نبی کریم کی شانِ اقدس بیان کرنے اور آپ کی عظمت کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی روایت پرانی ہے۔بھارت کی مشہور علمی اور ادبی شخصیت کنور مہندر سنگھ بیدی کا مشہور شعر ہے۔

عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں

صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں

نبی کریم کے بارے میں پنڈت نہرو نے لکھا ہے مکہ کے لوگ حضرت محمد کو بہت چاہتے تھے اور ان پر اعتماد رکھتے تھے، دراصل لوگ انھیں الامین کہا کرتے تھے مگر جب انھوں نے بتوں کی پرستش کی مخالفت شروع کی تو بہت سے لوگ ان کے مخالف ہوگئے اور انھیں مکہ سے کوچ (ہجرت) کرنا پڑا۔

ہجرت کے آٹھ سال کے بعد ہی حضرت محمد مکہ کے مالک و مختار کی حیثیت سے واپس آئے۔ وہ مدینہ سے دنیا کے بادشاہوں اور حکمرانوں کو یہ پیغام بھیج چکے تھے کہ وہ ایک اللہ اور اس کے رسول کو مانیں۔

ان پیغامات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت محمد کو اپنے اوپر اور اپنے پیغام کے اوپر کتنا زبردست اعتماد تھا۔ یہی اعتماد اور یہی خود اعتمادی انھوں نے اپنی قوم کو بخشی اور اس سے تحریک پا کر ریگستان کے ان لوگوں نے جن کی اس سے پہلے کوئی حیثیت نہیں تھی، اس وقت کی آدھی دنیا پر اپنا پرچم لہرادیا۔

ایمان اور اعتماد، خود تو بڑی چیز تھے ہی مگر اس کے ساتھ اسلام نے اخوت یعنی سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں کا پیغام دیا،یوں ایک حد تک جمہوریت کا ایک اصول لوگوں کے سامنے آیا۔ اخوت کے اس پیغام نے صرف عربوں پر ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں وہ گئے ان ملکوں پر بھی بہت اثر ڈالا۔ حضرت محمد نے عرب کے متحارب قبیلوں کو منظم کرکے ایک نئی قوم کی تشکیل دی اور ان میں ایک نصب العین کے لیے زبردست جوش اور حوصلہ پیدا کردیا۔

جواہر لعل بھی مہاتما گاندھی کی طرح پہلے دونوں خلفائے راشدین سے بے حد متاثر تھے۔ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بلند شخصیتوں کے مالک تھے جنھوں نے عربی اور اسلامی عظمت کی داغ بیل ڈالی۔ وہ حکمران بھی تھے اور مذہبی رہنما بھی۔ اپنے اونچے عہدوں اور عظیم الشان سلطنت کی طاقت کے باوجود انھوں نے اپنی زندگی انتہائی سادگی سے گذاری اور عیش و آرام اور ظاہری شان و شوکت کی زندگی اختیار کرنے سے گریز کیا۔

دونوں حکمرانوں نے حکومتی عہدیداروں کی فضول خرچی پر انھیں لعنت ملامت کی اور سزائیں دیں۔ ان کا ایمان تھا کہ سادہ اور پرمشقت زندگی میں ہی ان کی قوت کا راز مضمر ہے۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرکے ساڑھے بارہ سال کی حکمرانی کے مختصر دور میں عربوں نے رومن سامراج اور ایران کے ساسانی شہنشاہ دونوں کو شکست دے دی۔ سارا شام، عراق، ایران اور بیت المقدس عرب مسلمانوں کے زیرِ نگیں آگئے ۔

سکندر یونانی کو بہت سے مورخ سکندرِ اعظم بھی کہتے ہیں، اس کی فتوحات کا مبالغہ آمیزی کے ساتھ ذکر کرتے ہیں، پنڈت نہرو اس کے بارے میں لکھتے ہیں سکندر واقعی کوئی غیر معمولی اور جلیل القدر انسان تھا یا نہیں، یہ بات بحث طلب ہے۔ کم از کم میں اسے اتنا بڑا بہادر نہیں مانتا کہ اسے اپنے لیے قابلِ تقلید سمجھوں۔

اس میں شک نہیں کہ سکندر بہت بڑا سپہ سالار تھا۔ مگر اس کے ساتھ وہ مغرور اور بد دماغ انسان بھی تھا اور اکثر غضبناک اور بے رحم ہوجاتا تھا۔ غصے اور اشتعال میں آ کر یا کسی وقتی جوش کے باعث اس نے اپنے کئی دوستوں کو قتل کر ڈالا اور بڑے بڑے شہروں کو ان کے باشندوں سمیت خاک میں ملا دیا۔

سکندر کو فاتحِ عالم کہا جاتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ شمال مغرب کے ایک چھوٹے سے علاقے کے علاوہ بھی سارا ہندوستان فتح کرنے کو پڑا تھا اور سکندر چین کے قریب بھی نہیں پہنچ پایا تھا موجودہ بھارتی حکمران مغلوں کے بارے میں عناد رکھتے ہیں اور مخاصمانہ جذبات کا اظہار کرتے رہتے ہیں، مگر پنڈت نہرو کے ان کے بارے میں خیالات مختلف تھے۔

پہلے مغل فاتح بابر کے بارے میں لکھتے ہیں بابر جیسا سلیقہ مند، مہذب اور ہردلعزیز شخص اس زمانے میں ملنا مشکل تھا،اس میں نسلی امتیاز کی بو باس بالکل نہیں تھی، مذہبی کٹر پن بھی نہیں تھا۔ وہ ادب نواز تھا۔ وہ بہت حوصلہ مند اور باہمت تھا، بابر شراب کا بہت شوقین تھا مگر ایک لڑائی سے پہلے اس نے شراب ترک کردینے کا تہیہ کرلیا۔

وہ فتح مند ہوا، اس نے ترکِ شراب کا عہد زندگی بھر نبھایا۔ بابر کی ہندوستان اور یہاں کے باشندوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں تھی، اس نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ ہندوستان کے رہنے والے حسین نہیں، انھیں مجلسی آداب کا علم نہیں، ان میں نہ تو جوہرِ قابل ہے نہ ذہنی سمجھ بوجھ۔ ان کے ہاں اچھے گھوڑے ہیں نہ اچھا گوشت اور نہ اچھے پھل، نہ حمام، نہ مدرسے۔ ہندوؤں کے فیورٹ حکمران اکبر کے بارے میں جواہر لعل لکھتے ہیں اکبر ایک دانشمند مطلق العنان بادشاہ تھا۔

اسے ہندوستانی قومیت کے نظریے کا بانی مانا جاسکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ ملک میں مذہب کی دیواریں لوگوں کے درمیان حائل تھیں، اکبر نے ہندوستانی قومیت کے تصور کو جگہ دی۔ اس نے سلطنت کے اونچے سے اونچے عہدے پر ہندو راجپوتوں کو فائز کیا۔ راجپوتوں کا اور ہندو رعایا کا خلوص حاصل کرنے میں وہ اکثر اتنا آگے بڑھ جاتا تھا کہ مسلم عوام کے ساتھ بے انصافی تک ہوجاتی تھی۔ اکبر کا مقصد چاہے سیاسی ہو لیکن اس نے سچ مچ ایک نئے مذہب دینِ الہی کا اعلان کردیا جس کا وہ خود بانی تھا۔

وہ چاہتا تھا کہ مذہبی معاملات میں بھی اس کی برتری تسلیم کی جائے۔ یہ نیا مذہب چل نہیں سکا، مگر اس نے مسلمانوں کو ناراض کر دیا۔ اس نے رعایا کے تحفظ کے لیے بہت کچھ کیا اور کسانوں پر ٹیکس کا بوجھ ہلکا کردیا مگر تعلیم کے ذریعے عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے کی طرف اس کا ذہن نہ جاسکا۔ جدید ترکی کے بانی مصطفے کمال کی جرات اور بہادری کو بھی جواہر لعل نہرو نے زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

لکھتے ہیں مصطفے کمال نے شاندار فتوحات حاصل کیں۔ حالات نے بھی انھیں مدد پہنچائی، جیسے اتحادی ممالک کی باہمی پھوٹ، سوویت روس کی مدد اور انگریزوں کے ہاتھوں ترکوں کی ہتک۔ مگر ان سب عوامل سے زیادہ ترکوں کی شاندار فتح کا اصل سبب ان کے ارادے کی پختگی، آزادی کی لگن اور ترک سپاہیوں کی لاجواب فوجی لیاقت تھا۔

مصطفے کمال کی لائی گئی اصلاحات کے بارے میں نہرو نے لکھا ہے کہ فتح اور بہت زیادہ مقبولیت حاصل کرلینے کے باوجود مصطفے کو بہت احتیاط اورہوشمندی سے قدم آگے بڑھانا چاہیے تھا کیونکہ کسی قوم کو دیرینہ روایات اور مذہبی بنیادوں پر قائم اس کے رسم ورواج سے زبردستی ہٹا دینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔

سلطان عبدالحمید کی خلافت ختم ہونے کے بعد ہندوستان کے مسلم رہنماؤں سرآغا خان اور جسٹس سید امیر علی نے لندن سے ایک مشترکہ خط مصطفے کمال کو لکھا جس میں خلیفہ کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کی شکایت کی اور درخواست کی کہ خلیفہ کا وقار قائم رکھا جائے۔ اس خط میں اشتعال دلانے والی کوئی بات نہ تھی مگر مصطفے نے اسے ترکوں میں نااتفاقی پیدا کرنے کی ایک انگریزی سازش قراردیا۔

پھر لکھتے ہیں تمام مخالفین کا صفایا کرکے مصطفے کمال مطلق العنان حکمران بن گیا۔ عصمت (انونو) پاشا اس کا دایاں بازو تھا۔ انھوں نے پہلا وار ترکوں کی ٹوپی پر کیا جو مسلمانوں کی علامت بن چکی تھی۔ مصطفے خود انگریزی ہیٹ پہن کر باہر نکلا اور اس نے ترکی ٹوپی پہننا جرم قرار دے دیا۔اس نے مسلم مکتب توڑ دیے۔ مذہبی تعلیم پر پابندی لگا دی، جس نے ایسا کرنے سے انکار کیا اسے گرفتار کرلیا گیا۔ اس نے عورتوں کے(یورپین انداز کے) رقص کی خوب حوصلہ افزائی کی، جس کا وہ خود بہت دلدادہ تھا اس کے دور میں ہیٹ اور رقص تہذیب وترقی کے نعرے بن گئے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس