لب کھلیں گے ظلم کی تکرار پر۔۔ نظم کہنہ کی بنی اقدار پر۔ لوٹنے کو دوست بن کر آ گئے۔۔ پھر بھروسہ کر لیا اغیار پر۔۔ جو بھی بولے لاپتہ کر دو اسے۔۔۔ خوف کیوں کھاتے ہو تم اظہار پر۔۔ حکمراں پڑھتے نہیں ہیں کوں بھلا۔۔ جو لکھا ہوتا ہے وہ دیوار پر۔۔ دوستی کا روپ بھی بہروپ ہے۔۔ فاختہ ماری گئی دیوار پر۔۔
لوگ جن کے ساتھ سب مجرم ہوئے۔۔ سارے وہ وارے گئے ہیں دار پر۔۔
لوٹتے ہیں جو وسائل ملک کے۔۔ وہ چڑھے ہوتے ہیں ہر سرکار پر۔۔ لفظ کی حرمت کو رسوا کر دیا۔ تف ہے تیری گرمئی گفتار پر۔۔۔ قصرِ شاہی میں ہے قیمت کیا لگی۔۔ بیچ آ ئے خود کو ہو دستار پر۔۔ اک نگاہِ ناز پر تم مر مٹے۔۔