وزیر اعلیٰ پنجاب کے موثر اقدامات … تحریر : ڈاکٹر صغرا صدف


رام پیاری محل گجرات میں قیام کے دوران یوں تو ساری سرگرمیاں محل یعنی ہاسٹل،کالج اور ا سٹیڈیم کی تکون تک محدود تھیں مگر اس وقت یہ تین عمارتیں تین جہان تھے۔ زندگی کے خوبصورت ترین دور کا پل پل پڑھائی، کھیلوں، یونین انتخابات اور علمی ادبی تقریبات میں پرویا ہوا تھا۔ فراغت،سستی اور کاہلی قریب پھٹکنے کی متحمل نہ تھی۔ جنیاتی قوتوں کا عطا کردہ جوش وجذبہ سرکش ہواؤں سے ٹکرا کر ہر جیت اپنے نام کرنے کی ترغیب دیتا۔علمی ادبی میدانوں میں صحت مند مقابلوں سے تحقیق و جستجو کی طرف سفر آغاز ہوا تو ذہن نئے خوابوں اور دل امنگوں سے بھرا ہوا تھا۔ چار سال ان گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر پیدل چلتے گزر گئے جو کئی بادشاہوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں اور سوہنیوں کے گھڑوں کی کھنک کے امین تھے، جن کے اطراف کی دیواروں پرنقش تاریخ کے کئی خاموش چہرے اور آنکھیں اب بھی جھانکتی محسوس ہوتی ہیں۔ ان بیتے برسوں نے کئی تمغے اور اعزازت جھولی میں ڈال کر نئی منزل کی طرف روانہ کیا تاہم کچھ عرصے بعد جب گاڑی تک رسائی ہوئی تو اکثر چوک پر سفید رنگ کی بڑی سی کوٹھی،جس کے دروازے ہمہ وقت کھلے رہتے تھے، کے بڑے سے گیراج میں بڑی بڑی گاڑیوں کے آس پاس اپنی بے انتہا قیمتی اور خوبصورت ایف ایکس بغیر کسی حیل و حجت پارک کرکے تسلی سے شاپنگ کے تھیلے لئے دوبارہ گاڑی لے کر گھر کی طرف روانہ ہوجاتی۔جن درو دیوار سے ایک عجیب اپنائیت کا رشتہ رہا کبھی ان کے اندر بستے مکینوں سے آمنا سامنا نہ ہوا۔زندگی کی گاڑی کئی سٹیشنوں پر ٹھہرتی مسلسل بھاگتی کئی برس چرا لے گئی۔ ملازمت میں گرم سرد موسموں کے ذائقے کشید کرتے زندگی رواں رہی۔ نوکر کیہ تے نخرہ کی۔سرکاری ملازم کو ہر سرکار کے ساتھ ہمنوائی برقرار رکھنا پڑتی ہے۔ یہ اس کا فرضِ منصبی بھی ہے اور قانونی تقاضا بھی۔ سرکاری ملازم سرکار کا حصہ ہوتا ہے اس لئے اسے سرکار کے اقدامات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنی بہترین صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرنا چاہئے۔ اگر سرکاری ملازم ادیب اور خصوصاً  کالم نگار ہو تو اس پر کچھ حدیں بھی لاگو ہوتی ہیں۔ وہ کسی بھی گورنمنٹ پالیسی کے خلاف لکھنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ گزشتہ بارہ تیرہ سال سے روزنامہ جنگ سے بطور کالم نگار وابستہ ہوں۔ اب تک ہزاروں کالم لکھ چکی ہوں۔ کالموں کی پانچ ضخیم کتابیں چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان کالموں کے ذریعے ایک دنیا تک رسائی کا موقع ملا۔ تصوف اور ثقافتی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہوئے زیادہ روانی، سہولت اور روحانی خوشی محسوس کرتی ہوں۔ کبھی کبھار حالات و واقعات سیاسی موضوعات اور جمہوری مسائل پر بھی قلم اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ گزشتہ دس بارہ برسوں سے برسر اقتدار جماعتوں کی پالیسیوں اور اقدامات پر بھی لکھا۔ میری اصل محبت میرا وطن ہے اور جو کوئی بھی اس کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرتا ہے اس کے لئے دعائیہ لفظ میرے قلم سے ازخود پھوٹنے لگتے ہیں۔

زندگی میں انسان بہت سے لوگوں سے ملتا ہے اور ان سے اس کے مختلف درجات پر تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ انسان کسی کے نظریے سے متاثر ہوتا ہے، کسی کی حکمتِ عملی سے اور کسی کی گفتگو سے تاہم سب سے اہم تو عمل ہے۔ بات شروع ہوئی تھی رام پیاری گجرات کے خوبصورت رام پیاری محل سے جو کبھی ہاسٹل ہوا کرتا تھا۔ مطلب یہ کہ میرا بھی اسی سرزمین سے تعلق ہے، انہی ہواؤں اور مٹی کا ذائقہ میرے مزاج میں شامل ہے لیکن بی اے میں چوہدری پرویز الہی کے ہاتھوں امتیازی حیثیت کا انعام وصول کرنے کے بعد ان کے قائم کردہ ادارے پِلاک کی ڈی جی کی حیثیت سے ان کو گزشتہ ہفتے سی ایم ہاؤس میں بریفنگ کے دوران ملاقات ہوئی تو شدید حیرانی ہوئی۔ کبھی کسی کو اس طرح معاملہ فہمی اور واشگاف حکمتِ عملی کا اظہار کرتے نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے اِک عزم سے دور رس نتائج کا حامل ادارہ قائم کیا تھا لیکن حالات ایسے بنتے رہے کہ تنخواہوں اور بِلز کی ادائیگی تو ہوتی رہی لیکن جس مقصد کے لئے ادارہ بنایا گیا تھا اس میں سالانہ ایک ملین سے بھی کم رقم مہیا کی گئی۔ اگرچہ کم وسائل میں بھی ادارے نے ثقافت کی ترقی میں اپنی کاوشیں جاری رکھیں لیکن اب حوصلے تھکنے لگے تھے اور مایوسی بڑھتی جا رہی تھی کہ سی ایم ہاؤس سے فون آ گیا اور پھر وہ میٹنگ ہوئی جس میں اعلان ہوا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، حوصلے قائم رکھئے، میں اور میری حکومت اس ادارے کے ساتھ ہیں۔ امید ہے کہ یہ یقین دہانی جلد عمل میں بدلے گی اور پِلاک اپنے اصل مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ