ڈیر ہ اسماعیل خان( صباح نیوز)پی ڈی ایم کے سربراہ و جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ میاں شہباز شریف چائنا کے دورہ پر پہنچ چکے ہیں، جس کا مقصدملک میں سرمایہ کاری کے ذریعے ملکی فلاح کے بڑے منصوبے ملک میں لانا ہے،پاکستان کے مفادات کی بنیاد پر افغانستان کی امارت اسلامیہ کو تسلیم کرنا چاہیے،پی ٹی آئی کی وجہ سے ہماری سیاست چوراہوں پر ماتم کر رہی ہے، ان کا لانگ مارچ نہیں بے حیائی مارچ ہے، قوم کو عمران خان کی وجہ سے گمراہ نہیں ہونے دیں گے، فتنہ خان کے خاتمے تک ان کا مقابلہ کرینگے، حالیہ سیلاب سے بری طرح متاثر ہونے والی چشمہ رائٹ بینک کینال کی فوری مرمت کیلئے وزیر اعظم دفتر سے مسلسل رابطے میں ہیں، اس کی بحالی کیلئے فنڈز مختص کر دیئے گئے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ گندم کی بوائی تک نہر میں پانی چالو کردیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں شور کوٹ کے مقام پر اپنی رہائش گاہ پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔
اس موقع پر خیبر پختونخوا اسمبلی میں جے یو آئی کے پارلیمانی لیڈر مولانا لطف الرحمن، چوہدری اشفاق ایڈوکیٹ، حاجی عبداللہ، اکرم ناصرو دیگر موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے، اس کی بقاء کی ہم جنگ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کو معاشی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، اس کیلئے ہم کسی قسم کے سمجھوتے کیلئے تیار نہیں۔ عمران خان ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کر رہا ہے، پوری قوم پر یہ بات واضح ہے کہ 2017میں بین الاقوامی قوتوں کی مداخلت کے باعث ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا گیا،2018میں بد ترین دھاندلی کے نتیجے میں ملک پر عمران خان کی صورت میں جعلی حکمران مسلط کیا گیاجس نے ملک کی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا، آئی ایم ایف سے ایسے معاہدے کئے گئے کہ ملک کو گروی رکھ دیا گیا۔ بین الاقوامی سرمایہ کاری کو منجمند کردیا گیا، جب تک یہ حکمران رہے ترقی کا سفر رک گیا۔ ایسے وقت کہ جب پاکستان چائنہ کی سطح پر سرمایہ کاری کیلئے وزارتی اجلاس ہورہا ہے، عین اسی وقت لانگ مارچ اور دھرنوں کا اعلان کیا گیا ہے، ہم نے بھی اپنے وقت میں 14ملین مارچ کئے اور 15لاکھ افراد کو اسلام آباد پہنچایا لیکن ہمارا احتجاج پر امن تھا، آج پی ٹی آئی کے وزراء مسلح ہوکر اسلام آباد پر چڑھائی کی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ شو ناکام ہوچکا ہے،
اسلام آباد میں آنے کے لیے تاریخ پہ تاریخ دے رہے ہیں، میرا خیال یہ ہے کہ یہ راستے سے واپس ہو جائیں گے، یہ اسلام آباد آنے کے متحمل نہیں۔انہوں نے دعوی کیا کہ اسلحہ پہنچا رہے ہیں، تاکہ کچھ لاشیں گریں اور ان لاشوں پر وہ سیاست کرے، یہ ہے سیاست؟ یہ ہے جمہوریت؟ان کا کہنا تھا کہ بنیادی چیز یہ ہے کہ جمہوری نظام میں سیاسی استحکام ناگزیر عمل ہے، سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام آئے گا، اس کے بعد آئین اور قانون کی بالادستی ہوگی۔ہم ملک میں آئین و قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، لانگ مارچ کے حوالے سے خیبر پختونخوا اور پنجاب کی بیوروکریسی سے رابطے میں ہیں۔ صبح عمران خان فوج کے حوالے ایک بات کرکے قوم کو گمراہ کرتا ہے تو رات کے اندھیرے میں ان کے پائوں پکڑتا ہے، سی پیک روٹ کو یارک سے ژوب تک توسیع کی منظوری کرالی گئی ہے، اسی طرح ٹانک میں پینے کے صاف پانی سمیت دیگر مسائل کے حل کیلئے بھی رابطے میں ہیں۔مختلف سوالات کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ افغانستان میں حکومت قائم ہونے کے بعد میری رائے یہ ہے کہ پاکستان کے مفادات کی بنیاد پر ہمیں افغانستان کی امارت اسلامیہ کو تسلیم کر لینا چاہیے تاکہ باہمی تعلقات کی بنیاد پر ہم پاکستان کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کے دوستانہ اور مضبوط تعلقات کے خواہاں ہیں، افغان طالبان اور ان کی 20 سالہ قربانیوں کے نتیجے میں امارت اسلامیہ کا قیام ہوا ہے، اور بڑی قوتوں نے اعتراف کر لیا ہے کہ افغانستان پر جبری حکومت نہیں کی جاسکتی۔ان کا کہنا تھا کہ اگراس میں کوئی رکاوٹ ہے، کچھ چیزیں جو باہمی عدم اعتماد کا سبب بن رہی ہیں، یا افغانستان کی امارت اسلامیہ کی طرف سے پاکستان کے لیے یا ہماری طرف سے امارت اسلامیہ کے لیے، اس کا حل میرے ذہن میں یہ ہے کہ معلومات کے تبادلے کا نظام ہونا چاہیے، تو ہم باہمی عدم اعتماد کو روک سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے حوالے سے بھی اپنے تحفظات واضح کر دینا چاہتے ہیں، الیکشن کمیشن میں بھی جج صاحبان اور آئین و قانون کے ماہرین بیٹھے ہیں، وہ آئین و قانون کے حوالے سے ایک فیصلہ کرتے ہیں، وہی کیس جب عدالت میں جاتا ہے، تو وہاں دوسرا فیصلہ آ جاتا ہے، ایک زمانے میں وہی عدالت اسی قانون کے تحت ایک طرح کا فیصلہ دیتی ہے، ایک زمانہ گزر جاتا ہے پھردوسرا فیصلہ آ جاتا ہے، عدالت کی جانب سے کنفیوژن پید اکی جارہی ہے، اس سے عوام کا اعتماد عدلیہ پر ختم ہو جائے گا، اور پھر عدلیہ اس اعتماد کو بحال کرنے میں انتہائی مشکل محسوس کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں آئین و قانون کی بالادستی اور حقائق تک پہنچنے کے حوالے سے بھی رعایتیں کریں، اور ہم جانتے ہیں کہ اس وقت اداروں کے اندر کچھ لوگ کیوں وفادار بن گئے ہیں، لاڈلے پن کی سیاست ختم ہونی چاہیے، چاہے فوج میں ہو، عدلیہ میں ہو، چاہے الیکشن کمیشن میں ہو، آئین اور قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔پی ڈی ایم کے سربراہ نے بتایا کہ ایک عدالت کہتی ہے کہ وزیراعظم کون ہوتا ہے کہ حرم نبوی کی توہین کرنے والوں کو معاف کرتا ہے، اور دوسری عدالت اسی قانون و آئین کے تحت کہتی ہے کہ یہ تو سعودی عرب کا معاملہ ہے، وہ جانے ان کا کام جانے، ہمارا اس سے کیا تعلق، ان تضادات کے ہوتے ہوئے قوم کیسے اعتماد کرے گی؟
صدف نعیم کے حادثے کی بابت ان کا کہنا تھا کہ آج ان کے جلوس میں صدف نعیم کا جو حادثہ ہوا ہے، اس پر مطالبہ کرتا ہوں کہ عدالتی کمیشن بٹھایا جائے، یہ حادثاتی طور پر کسی کی دھکم پیل سے گری ہے، یا کسی ہراسمنٹ کی بنیاد پر گری ہے، اور پھر ایک صوبائی وزیر فوری طور پر ان کے خاوند کو تھانے میں لے جاتا ہے، اور وہاں اس سے انگوٹھے لگوا کر دستخط لیتا ہے، تو پھر معاملہ اور بھی مشکوک ہو جاتا ہے، لہذا عدالتی تحقیقاتی کمیشن ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے بارے میں یہی کہنا چاہتا ہوں، پاکستان کا بیٹا ہے، ہم ان کے خاندان کے صدمے میں شریک ہیں لیکن یہ بتایا جائے کہ وہ کس بنیادوں پر کس کی پشت پناہی کے ساتھ پاکستان سے باہر گیا، تھریٹ لیٹر کس نے جاری کیا، اس کی صرف ایک کاپی ہے جو وزیراعلی کے پاس ہے، اس لیے خیبرپختونخوا کے وزیراعلی کو شامل تفتیش کیا جائے، اس پر بھی عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پہلی مرتبہ ریاستی ادارے کیوں میدان میں آئے، ریاستی ادارے کیوں پھٹ پڑے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کو خطرہ ہوا ہے، ان کے اقدامات سے سیاسی و معاشی عدم استحکام آیا، آئین و قانون اور اداروں پر اعتماد ختم ہورہا ہے، اس لیے ڈی جی آئی ایس آئی ڈی جی آئی ایس پی آر میدان میں آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری افراد سے نہیں ادارے سے شکایات رہی ہیں، اگر وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم سے غلطیاں ہوئیں ہیں اور ہم تلافی کرنا چاہتے ہیں اور خون دے کر تلافی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کا راستہ نہیں روکنا چاہیے، ہم کوئی ایسے جملے نہ استعمال کریں کہ تلافی کی طرف جانے کا سفر متاثر ہو۔پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ہم بھی آپ(عمران خان) سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس بات کی وضاحت کیوں نہیں کرتے کہ رات کی تاریکی میں پاوں کیوں پکڑ رہے تھے؟ان کا کہنا تھا کہ یہ چاہتا ہے کہ میری مرضی کا آرمی چیف آئے، اور اگر میری مرضی کا نہیں آتا تو مارشل لا لگ جائے، ایسے حالات پیدا کرنا کہ وہ برتن میں کوئی حصہ نہیں دے رہا تو برتن کو توڑ دینے کی بات کرتا ہے۔
الطاف حسین سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کی تمام تقاریر، گفتگو ہمارے میڈیا پر بلاک ہے لیکن کبھی اس کے خلاف ریاستی ادارے میدان میں نہیں آئے، آج اس کے خلاف کیوں ضرورت پڑ گئی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں جو نئی صورتحال بنتی جارہی ہے، اس سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے، ہم ہر پاکستانی کو پرامن اور باعزت زندگی کا حق دینا چاہتے ہیں ۔۔