ظاہری اور باطنی کدورتوں، بیماریوں اور رکاوٹوں میں گھرے جیون کا آسمان کئی مہینے دھند آلود رہا۔ پھر اُس کا کرم ہوا۔ روحانی لہروں نے وجود پر ایسی نورانی پھونک ماری کہ سب نفسانی شر، اندھیرے اور وہم کے دھندلکے غائب ہوگئے من کا شیشہ صاف ہوا، قلب و روح کو کائنات کے نظام سے جُڑت کا وسیلہ عطا ہوا تو خبر ہوئی کئی آرزوئیں جستجوئیں اور تمنائیں خوشیوں میں ڈھل چکی تھیں۔ دل کے صندوق میں کئی دعوت نامے اور سندیس رکھے تھے جو اس بات کی ضمانت تھے کہ روحانی میناروں کی طرف سے اِذنِ باریابی عطا ہونے کے مراحل کا در وا کر دیا گیا ہے۔ سفر کی اجازت اور اِذنِ سفر کے ذرائع میسر ہوئے تو طبیعت کی کاہلی اور چھوٹی موٹی کمزوری رکاوٹ کیسے بنتی۔ آغاز شہرِ اولیااور پاکستان کے قدیم ترین شہر ملتان سے ہوا۔ مصروفیات اور گومگو کے تمام خدشات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے اس فضا میں داخل ہوئی تو عجیب لہروں نے جکڑ لیا۔ صدیوں کے فاصلے مٹتے محسوس ہوئے، ظاہری وجود عمروں کے پابند جبکہ روحیں تو ہم عمر ہیں۔ سو جب بھی کسی روحانی مقام پر باطن کی آنکھ کو نظارہ اور دل کو گفتگو کا موقع میسر آتا ہے۔ روح کِھل جاتی ہے۔ وجود کے مزار چاہت کی رسی سے بندھے مرادوں کے تعویز چمکنےلگتے ہیں۔ بہاؤ الدین زکریاؒ اور شاہ رُکنِ عالمؒ کے مزاروں پر ایک چلتے پھرتے عہد سے مِلنے کا شرف حاصل ہوا۔ تخیل کے مینار پر بیٹھا کبوتر ایک پرواز میں صدیوں کا سفر کر آیا اور پروں میں کئی رقعے اور نشانیاں بھی سنبھال لایا۔کل اور آج کے سنگم پر خود کو محسوس کرنا ایک عجیب کیفیت کا باعث بنتا ہے جو خوشی اور غم سے جدا تر ہے۔اگر آنکھوں کے دِیوں میں باطن کا نور جلتا ہو تو نیاز کے مکھانوں، مُراد کے کشکولوں، عقیدت کے پھولوں اور کبوتروں کی پھڑپھڑاہٹ کے علاوہ ہر اینٹ تلے کوئی راز دھرا نظر آجاتا ہے۔ ان درِ فیوض پر ہر سطح کے دردمندوں کی رسائی اور تشفی کا کوئی رنگ موجود ہے۔ کوئی دِل کے سکون کا طلبگار کوئی کائنات سے ہم کلامی کا متمنی ہے، کوئی ظاہر سے باطن کی طرف سفر کا آغاز چاہتا ہے، کوئی دنیاوی اعزازات کی طلب سے بندھا ہے، کوئی پچھتاووں کے بوجھ سے نجات کا خواہاں ہے، کسی کو مال و دولت چاہیے تو کسی کو گھروں کے اندر پنپتی سازشوں اور بے چینیوں سے خلاصی، طلب نفس سے جڑی ہو یا روح سے اس کی تشفی کے بغیر وجود ڈانواں ڈول رہتا ہے۔ یہ مقامات اس لئے بھی آباد رہتے ہیں کہ ان سے کھلی ہوا میں سانس لینے کی اجازت بھی جڑی ہوئی ہے خاص کر اُن گھرانوں کے لئے جہاں کسی قسم کی تفریح کے لئے گھر سے باہر نکلنا ممنوع ہوتا ہے یا اسے ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ ڈھلتی سہ پہر کو لوگوں کی کثیر تعداد دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اس لئے بھی یہ ہر طبقے کے لوگوں کے لئے کشش کا باعث ہیں کہ یہ کسی فرقے کی حد بندی کے قائل ہیں نہ انسان کی تقسیم کے۔ یہاں ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جن سے عام زندگی میں کم کم سامنا ہوتا ہے۔ قدرت نے بہت سے لوگوں کا روزگار اُن سے وابستہ کر رکھا ہے۔ ہر درگاہ پر کبوتروں کے غول دل کو بہت بھلے لگے۔ درگاہوں سے ان کا خاص سمبندھ ہے۔ اُن کی اِس جڑت کو بنائے رکھنے کے لیے کچھ لوگ دانے کی چنگیری لئے آوازیں لگاتے ہیں۔ دما دم مست ماحول میں کبوتر کھا پی کر اونچی اڑان بھرتے ہیں اور درگاہ کے میناروں پر جا کر آسمان کی وسعتوں سے لطف اٹھاتے ہیں۔ دیا جلانے، دھاگے باندھنے سمیت تمام رسمیں دل کے خوش رکھنے والی آرزوئیں اور خیالات ہیں۔ ہر فرد نے اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دیا۔ کیا ہی اچھا ہو محکمہ اوقاف اس نذرانے سے غریب اور بے سہارا لوگوں کے لئے دو وقت لنگر اور سرائے کا اہتمام کرے۔ ملتان اور گردو نواح کی حالت میں خاص فرق نظر نہیں آیا۔ میرے لئے عوام کی بہتری کے خواب دیکھنے والا ہر سیاسی فرد قابلِ احترام ، بھلے اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔بہت متحرک، حلیم اور دردِ دل رکھنے والے ندیم قریشی اور نئی نسل کی تربیت کو مقصد سمجھنے والے ڈاکٹر اختر کارلو وی سی این ایف سی یونیورسٹی ملتان سے ملاقات بہت مبارک رہی۔خُدا کرے اولیا کی وارث اس دھرتی اور اس کے باسیوں کو تعلیم، علاج اور روزگار کے تمام مواقع اپنی مہربان فضاؤں میں میسر آئیں اور یہ آسانی سے ممکن ہے اگر وہاں ان کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بہترین اسپتالوں،تعلیمی اداروں اور کارخانوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ