تعلیم ایک غلط فہمی…..تحریر: فراز احمد


خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لاۓ گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آۓ گا الحاد بھی ساتھ

“تعلیم” اور “علم” عربی زبان کی اصطلاحات ہیں۔ لغت کے اعتبار سے تعلیم کے معنی محض معلومات جمع کرنا، اپنی مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور انہیں نکھارنا ہیں جبکہ علم سے مراد کسی خاص چیز کو باقاعدہ طور پر سیکھنا اور اس کی پیچیدگیوں کو صحیح معنوں میں سمجھنا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم بحیثیت معلومات کو ایک خاص حد تک جمع کرنے کا نام ہے جبکہ اصل مطلوب علم ہے اور علم معلومات کے بے حد و حساب خزانے کا نام ہے۔ ہمارے ہاں اکثریت یہ غلطی کرتی ہے کہ تعلیم اور علم کے درمیان فرق کو مکمل نظرانداز کرتے ہوۓ انہیں ایک ہی شجرِ سایہ دار کی مانند تصور کیا جاتا ہے حالانکہ یہ سراسر ایک غلط فہمی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت میں علم ایک وسیع اور گھنا درخت ہے اور تعلیم کی حیثیت صرف اور صرف اس درخت کی ایک شاخ کے برابر ہے۔

آج جس معاشرے میں ہم اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں اور ہماری نئی نسل جس جدید تعلیمی نظام کے زیرِ اثر پروان چڑھ رہی ہے، اس نظام کی بنیاد ہی سراسر غلط ہے۔ اس بات پر تو سب ہی متفق ہیں کہ جب کسی عمارت کی بنیاد کھوکھلی رکھی جاۓ گی تو اس عمارت کی تعمیر کسی صورت پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ پاۓ گی اور ایسی عمارت کی زندہ مثال ارضِ وطن میں رائج تعلیمی نظام ہے۔ دورِ حاضر میں تقریباً تئیس (23) قسم کے تعلیمی نظام پوری دنیا میں رائج ہیں اور ان میں سب سے بدترین نظام وہ ہے کہ جس میں ہماری نئی نسل یعنی اس ملک کا مستقبل نشونما پا رہا ہے۔ جب ایک معصوم نونہال اسکول میں پہلا قدم رکھتا ہے تو اسے “الف” سے “ﷲ” اور “ب” سے بکری سیکھانے کے بجائے “اے”(A) سے (for) “ایپل” (APPLE) اور “بی”(B) سے (for ) “بال” (BALL) کہلوایا جاتا ہے اور اس طرح اس کی ذہنی ترقی کے روزِ اول سے ہی اس عمارت کی بنیاد کھوکھلی کر دی جاتی ہے، اسے یہ تعلیم دے کر کہ اس نے اپنی مادری زبان پر فرنگیوں کی زبان کو فوقیت دینی ہے، جس کے نتیجے میں وہ بچہ اپنی شناخت، اپنی پہچان اور اپنے وقار سے ہاتھ دھو کر غیروں کی تہذیب و ثقافت اور روایات میں ڈھلنا شروع کر دیتا ہے۔

عہدِ حاضر میں جتنے بھی ترقی یافتہ اور مستحکم ممالک ہیں ان کی شروع دن سے یہی حکمتِ عملی رہی ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو علم اور شعور ان کی اپنی مادری زبان کی صورت میں دیا ہے۔ ذرا نہیں مکمل غور کیجئے!! کبھی کوئی جاپانی ترقی حاصل کرنے کیلیے اور علوم و فنون کی دنیا میں نمایاں حیثیت حاصل کرنے کیلیے انگریزی زبان میں گفتگو کرتا یا علم حاصل کرتا ہوا نہیں دیکھا گیا، کبھی کوئی انگریز محض اس لئے کہ اپنا مستقبل سنوار سکے جاپانی میں بات چیت کرتا یا پھر پڑھتا ہوا نہیں پایا گیا اور اسی طرح باقی تمام کامیاب اور مستحکم ریاستوں نے بھی یہی لائحہ عمل اختیار کیا لیکن ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہمارا تمام نصاب “اردو” کے بجائے انگریزی زبان میں ہے۔ جس کے نتیجے میں طلبہ نظریات کو باقاعدہ طور پر سمجھنے کے بجاۓ صرف نمبروں کی دوڑ میں نمایاں حیثیت حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ان کا مقصد حصولِ علم نہیں بلکہ صرف جماعت میں اول آنا بن چکا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ اگر نصاب کو انگریزی کے بجاۓ اردو میں تشکیل دی جاۓ تو نہ صرف طلبہ نمایاں نمبر حاصل کریں گے بلکہ ان کے علم میں بھی کسی نہ کسی حد تک اضافہ ضرور ہوگا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم اردو ہی پر زور دیں اور انگزیری سمیت دیگر زبانوں کی طرف غور ہی نہ کریں۔ اگر ہم نے ترقی حاصل کرنی ہے اور اس ریاست کو واقعتاً ایک کامیاب ریاست بنانا ہے تو اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہمیں ہر ملک کی زبان اور تہذیب و ثقافت کے بارے میں مکمل علم ہو۔ ہمیں دوسری زبانیں بھی سیکھنی اور پڑھنی چاہیئں لیکن انہیں اپنی مادری زبان پر فوقیت دینا کسی صورت ہمارے حق میں فائدہ مند نہیں ثابت ہوگا۔ ہماری زبان ہماری پہچان ہے اور دنیا کا یہ دستور ہے کہ ان ہی لوگوں کو عزت ملتی ہے جو اپنی عزت خود کرتے ہیں اور اپنے اقدار کو وقت دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نصاب میں وہ سائنسی نظریات اور فلسفے شامل ہیں جنہیں عالمی سطح پر غلط ثابت کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہماری نئی نسل وہی تعلیمات حاصل کر رہی ہے تو پر یہ کہنے میں کچھ غلط نہیں کہ یہ تعلیم صرف اور صرف ایک غلط فہمی اور بے بنیاد جھوٹ ہے۔ اس غلط فہمی کی ضد میں آج ہم تمام عملی میدانوں میں آگے بڑھنے کے بجائے مزید پستی کے شکار ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہم خود اس تعلیم اور تعلیمی نظام کو کسی قابل نہیں سمجھتے جس کے زیرِ اثر ہماری نئی نسل پل بڑھ رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کم از کم سولہ (16) محنت کرنے کے بعد جب طلبہ عملی میدان میں قدم رکھنے کیلئے مختلف اداروں کی طرف رجوع کرتے ہیں حتٰی کہ وہی ادارے جہاں سے وہ فارغ التحصیل کئے جاتے ہیں، جب طلبہ نوکری کیلیے ان اداروں کا رخ کرتے ہیں تو انہیں بڑے صاف الفاظ اور واضح انداز میں تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے منع کر دیا جاتا ہے اور اس طرح ان کی اتنے طویل دورانیے کی محنت ان کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ادارے اپنی دی گئی تعلیمات کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ ان کے بل بوتے پر طلبہ کو کوئ منصب دیا جاۓ یا پھر انہیں کوئ ذمہ داری سونپی جاۓ۔

اقبال! یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزوں نہیں مکتب کیلئے ایسے مقالات

اسلام میں سب سے زیادہ زور علم کی فضیلت و اہمیت اور افادیت پر دیا گیا ہے کیونکہ اس دین کی بنیاد ہی علم پر رکھی گئی ہے۔ ایسا علم جس کا حصول ہر انسان کیلئے لازم و ملزم ہے۔ یہ ہر شخص کا وہ بنیادی حق ہے جسے دنیا کی کوئ طاقت اس سے چھین نہیں سکتی۔ چونکہ ہمارا دین ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اس لئے یہ اِس چیز پر زور دیتا ہے کہ ہر انسان کو کم از کم اتنا علم حاصل ہو جس کی بدولت اسے زندگی گزارنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسلام ایک ایسے نظام کا نمونہ پیش کرتا ہے جس کا تعلق ہر قسم کے شعبۂ زندگی سے ہے۔ ہر وہ راستہ بتاتا ہے جسے اختیار کرنے کے بعد ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جہاں بسنے والے لوگوں کو شعور جیسی نعمت بھی نصیب ہوتی ہے اور پھر اس کے ذریعے وہ افراد عقل و فکر سے کام لیتے ہوۓ تحقیق و انکشاف کی راہیں ہموار کرتے جاتے ہیں اور اس میدان میں مزید بلندیوں کو سر کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی پانچ ہزار (5000) سالہ تاریخ میں جتنی ایجادات مسلمانوں نے کی ہیں اور جس قدر نئے نظریات اور بے مثال فلسفے پیش کئے ہیں اس کے مقابلے میں علوم و فنون کی دنیا میں کسی اور نے اس قدر حد درجہ خدمات سرانجام نہیں دیں۔

دنیا میں برائ کو ہمیشہ سے اچھائی کے نام پر فروغ دیا گیا ہے۔ جدید تعلیم کے نام پر پلنے والی غلط فہمیوں اور اس کے ذریعے پھیلنے والی بداخلاقیوں کا واحد حل یہی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو وہ علم دیں جو اسلام کی نسبت سے انہیں نصیب ہوا ہے۔ ایسا علم جسے دنیا کی کوئ طاقت غلط ثابت نہیں کرپائ اور جو زندگی کے تمام پہلوؤں سے تعلق اور مطابقت رکھتا ہے۔ اسکول کے بعد کالج اور پھر جامعات تک رسائی حاصل کرنے تک اور پھر اس کے بعد بھی مخلوط تعلیمی نظام کی وجہ سے ہمارے بچے خاص طور پر بچیاں جس طرح اہلِ مغرب کے رنگ میں رنگی جاتی ہیں، اس المئیے کو روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ خواتین کیلئے صرف اتنا علم ہی ضروری قرار دیا جاۓ جس کے ذریعے ان کی بہترین اخلاقی تربیت ہو تاکہ وہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بہترین اخلاق اور اعلیٰ انسانی اوصاف کا حامل بنا سکیں ناکہ ان کی بد تمیزی اور بد تہذیبی کو شارپنس کا نام دیں۔ اس کی چھوٹی سی مثال اس طرح ہے کہ موجودہ دور میں جب والدین اپنے بچوں سے کسی بڑے کو سلام کرنے کا کہتے ہیں اور بچے آگے سے ان کے منہ پر ہی سلام کرنے سے انکار کر دیں تو والدین ان کے اس عمل پر اش اش کر اٹھتے ہیں اور اسے شارپنس (sharpness) کا نام دیتے ہیں حالانکہ یہ شارپنس نہیں بلکہ بد تمیزی اور سراسر تربیت کا فقدان ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح مردوں کیلئے بھی اتنے علم کے حصول کو لازم و ملزوم قرار دیا جاۓ جس کی بدولت وہ معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کر سکیں اور اپنی ریاست اور قوم کے حق میں فائدہ مند ثابت ہوں۔ ریاست اس طرح کا لائحہ عمل اختیار کرے کہ خواتین کو معاشی معاملات کے پیشِ نظر گھر سے باہر نکلنے کی نوبت ہی نہ پیش آۓ۔ یاد رکھیے! ، اخلاقی طاقت کی فراوانی وسائل کے فقدان کی تلافی کر دیتی ہے مگر مادی وسائل کی فراوانی اخلاقی طاقت کے فقدان کی تلافی کبھی نہیں کر سکتی۔ ہم نے ایک ایسی نسل تیار کرنی ہے جس کے اندر بہترین انسان سازی، حیثیت سازی اور اعلیٰ اوصاف ہوں کیونکہ ہم نے بہترین انسان دنیا کے سامنے لانے ہیں جو ہمارے لئے باعثِ عزت اور قابلِ فخر ثابت ہوں۔

اگر حکومتِ پاکستان اور دیگر سیاسی جماعتیں واقعتاً اس ریاست کے بہترین مستقبل کیلئے سنجیدہ ہیں تو ان سے درخواست ہے کہ اس غلط فہم اور بے بنیاد تعلیمی نظام کو مٹا کر عملی طور پر ایسا علمی نمونہ پیش کریں جو اس ملک و قوم کے حق میں بہتر ثابت ہو۔ ہمارے بچے مغربی نظریات اور ان کی تعلیمات کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ ان کے اندر اس علم کو حاصل کرنے کی پیاس اور تڑپ بیدار ہو جو حقیقی اور برحق ہے۔ ایسا علم جس کا تعلق جدید زندگی کے ہر پہلو سے ہے، جسے حاصل کرنے کے بعد کوئ انہیں تجربے کی کمی کا طعنہ نہ دے۔ ایسا نظام تیار کیا جاۓ جس کی بدولت انہیں علم اور تجربہ دونوں حاصل ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تجویز بھی غور طلب ہے کہ علاقائی حکومت کے نمائندگان کیلئے تعلیمی قابلیت کم از کم سولہ جماعتیں (graduation) مختص کر دی جاۓ اور اعلیٰ قیادت سمیت سینیٹ کے ممبران کی اہلیت کا معیار پی ایچ ڈی (PhD) رکھا جاۓ تاکہ پڑھے لکھے لوگ اس ملک کے نظام کو سنبھالنے کیلئے آگے آئیں کیونکہ جب رہنما اہلِ علم اور دانشور ہوں گے تو یقیناً اس قوم کے اندر بھی غور و فکر کی صفت بیدار ہوگی۔ بلاشبہ حکومت کی طاقت نہ صرف خود ایک بڑا ذریعۂ اصلاح ہے، بلکہ وہ ساری اصلاحی تدابیر کو زیادہ موثر، نتیجہ خیز اور ہمہ گیر بنانے کی بھی قوت رکھتی ہے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا