اسلام میں “حقوق العباد” سے مراد بندوں کے انفرادی و اجتماعی سطح پر وہ حقوق ہیں کہ جو انہیں ﷲ رب العزت نے عطا کئے ہیں۔ جب ہم بات کرتے ہیں کہ اسلام میں انسانی حقوق یہ ہیں، تو اس سے مراد دراصل یہ ہے کہ وہ حقوق ﷲ تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں۔ یہ کسی بادشاہ کا یا پھر کسی قانون ساز کا ان پر احسان نہیں ہے۔ قانون ساز کی طرف سے دیئے گئے حقوق جب چاہے عدالتِ مجاز واپس لے سکتی ہے اور اسی طرح بادشاہوں اور وزراء کے تسلیم کردہ حقوق جب چاہے وہ واپس لیں، اور جب چاہیں اپنے ہی حکم کے خلاف عمل کریں۔ لیکن اسلام میں جو حقوق ہیں یہ بر حق ہیں یعنی خدا کے دیئے ہوۓ ہیں، دنیا کی بڑی سے بڑی ریاست، طاقتور حکومت اور اعلیٰ عدلیہ بھی اس قانون میں ایک حرف کے رد و بدل کی مجاز نہیں۔ ان کو واپس لینے یا منسوخ کرنے کا کچھ حق نہیں رکھتی۔ ہر مسلمان ان کو حتمی اور بر حق تسلیم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وہ ریاست انہیں تسلیم کرے گی کہ جو اسلامی ریاست ہو اور اس کے چلانے والوں کا یہ دعویٰ ہو کہ وہ مسلمان ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کوئی شخص خواہ وہ ہمارے اپنے ملک و وطن کا ہو یا پھر اس کا تعلق کسی اور قوم و قبیلے سے ہو، مومن ہو یا کافر، کسی جنگل کا باشندہ ہو یا پھر کسی صحرا میں رہنے والا ہو، بہرحال بحیثیت انسان اس کے کچھ حقوق ہیں جو اسے خداۓ بزرگ و برتر نے از خود عطا کئے ہیں۔ جن کی ادائیگی ایک مسلمان کیلئے انفرادی طور پر اور مسلم ریاست و حکومت کیلئے اجتماعی طور پر لازم و ملزم ہے۔
ان حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق زندہ رہنے کا حق، یعنی انسانی زندگی کا احترام ہے۔ ایک مسلمان کا خون، عزت اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے، اور جس شخص نے کسی کو ناحق قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا۔ اسی طرح جس نے کسی شخص کو بچایا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا، تمام انسانیت کو زندگی بخشی۔
اب موت سے بچانے کی بےشمار اشکال ہیں، مثال کے طور پر ایک شخص بیمار ہے قطع نظر اس کے کہ اُس کا تعلق کس مذہب، قبیلے، یا قوم سے ہے، اگر وہ شخص آپ کو بیماری کے عالم میں ملتا ہے، یا پھر زخمی حالت میں آپ کی اس سے ملاقات ہوتی ہے تو آپ کا یہ فرض ہے کہ اسے اس بیماری یا زخم سے نجات دلانے کا ذریعہ بنیں۔ اگر کوئ بندہ بھوک سے مر رہا ہو تو آپ کا فرض ہے کہ اسے کھلائیں تاکہ اس کی جان محفوظ ہو جاۓ، اسی طرح سے اگر کوئ انسان ڈوب رہا ہو تو آپ کا کام ہے کہ اس کی مدد کریں بغیر یہ خیال دل میں لاۓ کہ اس کا تعلق کس خطے، طبقے یا گروہ سے ہے۔
چونکہ عہدِ حاضر میں سلطنتی نظام کا تصور ہی ختم ہو چکا ہے، اس لئے ہر جانب ریاستی نظام رائج نظر آتا ہے۔ جو ریاست اپنے اسلامی ریاست ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اس کیلئے لازمی و حتمی شرط یہ ہے کہ وہ ﷲ رب العزت کی طرف سے عائد کردہ تمام قوائدوضوابط کو تسلیم کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ان تمام ذمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھاۓ جو بطورِ مسلم ریاست اس پر فرض ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست کے کیا فرائض و ذمہ داریاں ہیں؟ یہ وہی ذمہ داریاں ہیں جو اسلام کی نسبت سے ان پر عائد کی گئی ہیں، اس کے علاوہ کسی اور شخص یا پھر عدالتِ مجاز کی اس معاملے میں کسی قسم کی کوئ مداخلت نہیں ہے۔ ان میں سب سے بنیادی جزو اس ریاست میں بسنے والے لوگوں کو ان حقوق سے نوازنا ہے جو انہیں ان کے مالک نے عطا کئے ہیں۔ ان کی جان مال عزت اور ہر چیز کی حفاظت کی ذمہ دار ریاست ازخود اور اس کی اعلیٰ قیادت میں شامل لوگ ہیں۔ اگر وہ ان حقوق کی ادائیگی میں کسی قسم کی غفلت برتتے ہیں تو اس کا حساب و جواب انہیں ﷲ تعالیٰ کو دینا پڑے گا کیونکہ رب العزت اپنے حقوق تو معاف کر دے گا مگر اپنے بندوں کے حقوق کسی صورت نہیں بخشے گا۔
قیامِ پاکستان کی اصل بنیاد اسلامی نظام کا نفاذ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے اسلامی ریاست کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ اس ریاست کو چلانے والے لوگوں پر یہ فرض ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں اپنی عوام کو وہ بنیادی حقوق اور تحفظ فراہم کریں جو انہیں اسلام کی نسبت سے نصیب ہوۓ ہیں۔
لیکن جب ریاست فرض شناس اور اپنے کام کے ساتھ مخلص ہی نہ ہو تو اس صورت میں کچھ ایسے گروہ جنم لیتے ہیں جو لوگوں کی خدمت اور حقوق کی فراہمی کا بیڑا اپنے سر اٹھا لیتے ہیں۔ کبھی کبھار نہیں بلکہ ہر بار یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ جب بھی ہمیں کسی قدرتی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا ہے تو قبل اس کے کہ حکومتی امداد و افراد متاثرہ علاقوں میں قدم رکھیں، خدمتِ خلق کیلئے کوشاں یہ گروہ وہاں موجود نظر آۓ ہیں، اور ان میں سب سے ممتاز اور خدمت گزار گروہ کا تذکرہ نہ کرنا شاید ناانصافی ہوگی کہ جو “الخدمت فاونڈیشن پاکستان” ہے۔
الخدمت وہ واحد تنظیم ہے کہ جس نے آزمائش کی ہر گھڑی میں اپنے لوگوں کا ساتھ دیا۔ اس کا زندہ ثبوت ہمیں اپنے ملک کے موجودہ حالات سے ملتا ہے کہ کس طرح روزِ اول سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں الخدمت کے رضاکار بغیر تھکے، بغیر رکے، صبح و شام لوگوں کی خدمت میں مگن ہیں۔ سیلاب کی شکل میں اس قدرتی آفت کے آتے ہی جب چند لوگوں نے متاثرہ افراد کی مدد کیلئے دوسروں سے مدد کی بھیک مانگنا شروع کر دی، اس دوران الخدمت نے اپنی کارکردگی سے یہ ثابت کیا کہ مدد کیلئے مدد مانگنے سے بہتر اپنے موجودہ وسائل کو استعمال کرتے ہوۓ واقعتاً کچھ کر کے دکھانا ہے۔
جب اس آزمائش کا آغاز ہوا اور سیلاب اپنے ہمراہ کئی گھروں، لوگوں کی جمع پونجیوں، اور سرمائیوں کو بہا لے گیا۔ وہ دن اور آج کا دن ہے کہ الخدمت کے رضاکار سیلاب زدگان کو محفوظ مقامات تک پہنچانے، ان کو کپڑے، خوراک اور ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء مہیا کرنے میں مصروف ہیں۔
ان کی خدمات کا عملی ثبوت سوشل میڈیا پر مختلف تصاویر اور ویڈیوز کی شکل میں موجود ہے کہ جن مقامات تک سیلاب کی وجہ سے رسائی حاصل کرنا بھی بظاہر غیرممکن نظر آتا تھا، ان جگہوں پر بھی الخدمت اور اس کے رضاکار امداد سمیت پہنچے اور لوگوں کو وہی حقوق پہنچاۓ جو انہیں ﷲ رب العزت نے عطا کئے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ جب کام اس قدر سنجیدہ اور بڑی نوعیت کا ہوگا کہ کوئی مقام ایسا نہ بچ سکے کہ جہاں امداد نہ پہنچی ہو، تو اس کیلئے مالی طاقت کی بھی شدید ضرورت ہوگی۔ الخدمت کا کام ہی ان کی پہچان اور بھروسے کی علامت ہے کہ دنیا بھر سے لوگ ان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، عطیات بھیج رہے ہیں، ملکی اور عالمی سطح پر لوگ بڑی تعداد میں سیلاب زدگان کیلئے امداد انہیں سونپ رہے ہیں۔
علاقائی سطح پر تو کام اس طرح کیا جا رہا ہے کہ ہر شہر میں مختلف مقامات پر “امداد براۓ سیلاب زدگان” کے نام سے کیمپ لگاۓ گئے ہیں۔ لوگ جوق در جوق آتے ہیں اور خاموشی کے ساتھ حسبِ توفیق نقدی، کپڑے، جوتے، دودھ اور دیگر اشیاء ضروریہ دے جاتے ہیں، اور پھر وہ سامان ٹرکوں کی صورت میں پورے ملک کے سیلاب زدہ علاقوں تک پہنچ جاتا ہے۔ نہ لوگ کسی قسم کا سوال کرتے ہیں اور نہ ہی کسی شک کی تشویش، جس سے الخدمت پر لوگوں کے اعتماد کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
بات صرف نیت کی ہے۔ دینے والا بھی ﷲ کیلئے دے رہا ہے اور لینے والا بھی ﷲ ہی کیلئے لے رہا ہے۔ ایک کم عمر بچہ کہ جو موچی کا کام کرتا تھا، روز اپنی کمائی میں سے کچھ حصہ اپنے علاقے میں لگے الخدمت کے کیمپ میں عطیہ کر دیتا تھا، اور اپنے اس فعل سے اس نے یہ ثابت کیا کہ اخلاق بھی رزق ہے جو قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ بہرحال اُس کے اِس حسنِ اخلاق کو دیکھتے ہوۓ الخدمت فائونڈیشن نے اس کا روزگار چھڑوا کر اس کا داخلہ اسکول میں کرویا اور اس کی کفالت کا ذمہ اپنے سر لیا، جس پر ایک سیاسی جماعت کے رکن کا کہنا ہے کہ, “ہم قطاروں میں کھڑا کر کے جن کو کھانا دیا کرتے تھے، الخدمت کے توسط سے وہ کھانا لینے والے اب دینے والے بن کر ابھریں گے۔”
اس تنطیم کے خدمتِ خلق کیلئے جذبے، خلوص اور محنت کو دیکھتے ہوۓ عالمی سطح پر لوگوں اور مختلف کمپنیوں نے ان پر اعتماد کیا اور سیلاب زدگان کیلئے کثیر امداد فراہم کی۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ان کا احتسابی نظام ہے۔ یہ وہ واحد فلاحی تنظیم ہے جو کئی ارب روپیوں کی امداد حاصل کرنے کے باوجود بھی ایک ایک پیسے کا حساب رکھتی ہے اور ہر دم خود کو احتساب کیلئے پیش کئے ہوۓ ہے۔ الخدمت نے یہ طریقہ ابھی سے نہیں اپنایا بلکہ روزِ اول سے ان کی یہی حکمتِ عملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تُرک حکومت نے اپنے عطیات حکومتِ پاکستان کے بجائے الخدمت کو سونپے۔ اوپو موبائل کمپنی نے الخدمت کو ایک کروڑ روپے عطیہ کئے، یو بی ایل نے پچاس لاکھ سے زائد کی امداد بھیجی، اور دارِارقم اسکولز نے بھی الخدمت کی خدمات کو دیکھتے ہوۓ ایک کروڑ روپے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے انہیں سونپے۔ ڈان گروپ نے ۲۰ ہزار ڈبل روٹی کی تھیلیاں اور ۲۰ ہزار رس کے ڈبے الخدمت کے حوالے کئے اور ایک ہفتے تک روزانہ کی بنیاد پر دس دس ہزار تھیلیاں بھیجنے کی یقین دہانی کی۔ اس طرح کی بے شمار عطیات الخدمت تک پہنچیں اور اس وقت سیلاب زدگان تک 6ارب سے زائد مالیت کا سامان پہنچ چکا ہے اور یہ سلسلہ بغیر کسی خلل کے تیزی کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
ﷲ تعالیٰ اس تنظیم سے بہت بڑا اور اہم کام لے رہا ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ نے انہیں اس قدر عزت بخشی کہ وہ لوگ جن کا جماعتِ اسلامی سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں، لیکن جماعت کی فلاحی تنظیم کی نا فراموش خدمات کی بنیاد پر آزمائش کی اس گھڑی میں وہ لوگ الخدمت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، اور ان کی خدمات اور نظم کو خوب سراہ رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے عالمی سطح پر مشہور کھلاڑی شاہد آفریدی صاحب جو از خود اپنا فلاحی ادارہ چلا رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ “الخدمت کے ساتھ تعاون کرنا ایک خوشی کی بات ہے”۔ الخدمت کے برانڈ ایمبسیڈر فخر زمان صاحب نے بھی سیلاب زدگان سے متعلق ان کی خدمات اور کاوشوں کو خوب سراہا۔ کئی معروف اداکاروں نے الخدمت کے کام اور ان کے رضاکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوۓ لوگوں کو اپنی عطیات الخدمت کو دینے کا مشورہ دیا۔ اداکار احسن خان صاحب نے شہرِ کراچی میں الخدمت کے مرکزی کیمپ کا دورہ کیا اور امیرِ جماعتِ اسلامی کراچی اور صدر الخدمت حافظ نعیم الرحمٰن صاحب سے خصوصی ملاقات کی اور سیلاب زدگان سے متعلق ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوۓ ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کی۔ سینئیر اینکر پرسن اور ادیب انیق احمد صاحب نے بھی الخدمت کے کیمپ کا دورہ کیا اور بیان دیا کہ، ” میں آج کھڑا ہوں یہاں الخدمت کے کیمپ پر، یہاں ریلیف کا کام ہو رہا ہے، دل نکل کر باہر آگیا ہے، جو لوگوں کے جذبات ہیں یہاں دیکھ رہا ہوں کہ یہ قوم کتنی زندہ قوم ہے اور کسی بھی وقت ایک جھرجھری لے کر یہ کھڑی ہو جاتی ہے، یہاں لوگ آرہے ہیں اور جوق در جوق آرہے ہیں، عطیات دے رہے ہیں، ﷲ اکبر ﷲ اکبر، میں بےپناہ خوش ہوں اور الخدمت کو دعائیں دیتا ہوں کہ ﷲ تعالیٰ نے ان سے کتنا بڑا کام لیا ہے اور لے رہا ہے، الخدمت نے ہمیشہ پاکستان اور پاکستان سے باہر انسانیت کی خدمت کی ہے، کسی گواہی کی ضرورت نہیں، کسی شہادت کی ضرورت نہیں، الخدمت نام ہی اس بات کیلئے کافی ہے کہ جہاں کہیں کوئی آفت آئی الخدمت کے لوگ وہاں پہنچے اور انہوں نے انسانیت کی خدمت کی۔ الخدمت جس طرح کھڑی ہوتی ہے ہم سب بھی الخدمت کے ساتھ کھڑے ہوں، اور تمام پاکستانیوں کو یہ بتائیں، مصیبت زدہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ الخدمت آگے آگے ہے اور ہم اس کے ساتھ ہیں۔”
اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے پاکستان کے سرکاری دورے کے دوران مختلف فلاحی اداروں کی قیادت کے ساتھ ایک نشست رکھی جس میں صدر الخدمت عبدالشکور صاحب نے بھی شرکت کی۔ سیکرٹری صاحب نے سیلاب زدگان سے متعلق الخدمت کی خدمات کو سراہا۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں تک اشیاء ضروریہ کی فراہمی کے ساتھ ساتھ صدر الخدمت کی ہدایات کے مطابق آفت زدہ علاقوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹ اور بچوں کیلئے اسکول کھول دئیے گئے ہیں تاکہ ان کی تعلیم کے تسلسل میں کسی قسم کا خلل نہ آۓ۔ اس کے ساتھ ساتھ سیلاب سے پیدا ہونے والے مچھروں سے بچاؤ کیلئے بھی تمام اقدامات کئے جا رہے ہیں، اور ہر متاثرہ خاندان کیلئے ایک کمرے، کچن اور بیت الخلا پر مشتمل گھر کا نقشہ بھی تیار کیا گیا ہے۔ انشاءاللہ اس منصوبے کو بھی جلد از جلد عملی جامہ پہنایا جاۓ گا۔ اس گروہ کے ہمیشہ سے جہدِ مسلسل اور دستورِ خدمت کی بناء پر انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدرِ پاکستان عارف علوی صاحب کے ہاتھوں فخرِ پاکستان ایوارڈ سے نوازا گیا۔
موجود حالات و واقعات کے پیشِ نظر ریاستِ پاکستان اور حکومتِ پاکستان کیلئے مناسب یہی لگتا ہے کہ جس طرح یہ تنظیم ریاست و حکومت سے کسی قسم کا معاوضہ اور مراعات لئے بغیر اپنا کام کرتی آئی ہے اور مسلسل کر رہی ہے۔ اسی حکمتِ عملی کے مطابق الخدمت کو ریاست کی اعلیٰ قیادت سے منسلک کرتے ہوۓ سرکاری ادارے کی حیثیت دے دی جاۓ تاکہ کم از کم یہ ادارہ تو باقی اداروں کی طرح علاقائی سیاست کی نظر نہ ہو۔
جس طرح صوبہ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ صاحب آزمائش کے اس موقع پر لمحہ بلمحہ الخدمت کے ساتھ رابطے میں رہے اور متاثرہ علاقوں میں اپنے عملے سمیت پہنچنے کے بجاۓ الخدمت کو ہدایات دیتے رہے کہ فلاں علاقے میں حالات خراب ہیں، آپ اپنے رضاکار وہاں بھیجیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ لوگ پہلے ہی سے وہاں خدمتِ خلق کیلئے موجود تھے۔ بالکل اسی طرح متاثرہ علاقوں کا فضائی دورہ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ جو لوگ زمین پر موجود عوام کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں ان کیلئے کچھ راہیں ہموار کی جائیں اور انہیں اس عزت سے نوازا جاۓ جس کے وہ واقعی حقدار ہیں، کیونکہ یہ لوگ کسی قسم کا معاوضہ لئے بغیر اپنا کام مراعات لینے والوں سے کئی گناہ بہتر کرتے آۓ ہیں اور انشاءاللہ آگے بھی کرتے رہیں گے۔