پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کو پورا کرے گا اور اس پر مزید کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اسحاق ڈار


واشنگٹن(صباح نیوز)پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے  کہا ہے کہ  پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کو پورا کرے گا اور اس پر مزید کوئی  مذاکرات نہیں ہوں گے اور پاکستان اپنے بانڈز کی بھی مکمل ادائیگیاں کرے گا۔

واشنگٹن ڈی سی میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کا عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف)کے ساتھ موجودہ قرض پروگرام اتحادی حکومت کی طرف سے کی گئی ایک ایکسٹینشن کے بعد اگلے سال جون میں پورا ہو رہا ہے۔ تاہم ملک میں حالیہ سیلاب کے بعد آئی ایم ایف نے اس تشویش کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان قرضوں کی معافی اور اس کی ری شیڈولنگ کے لیے پیرس کلب جائے گا۔

آئی ایم ایف کی تشویش پر بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ انہوں نے اپنے حالیہ دورہ امریکہ میں یہ غلط فہمی دور کر دی ہے اور پاکستان تمام قرضے بروقت ادا کرے گا۔

اسحاق ڈار نے ملک کے موجودہ معاشی مسائل کا ذمے دار عمران خان کی سابق حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بدترین حکمرانی کی وجہ سے سابق حکومت ویسے ہی تباہی کی جانب جارہی تھی۔ ایسے میں اپوزیشن نے سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے کا فیصلہ کیا جس کی قیمت ہمیں ادا کرنا پڑرہی ہے۔

انہوں نے  کہا کہ پاکستان میں ہونے والی تاریخی مہنگاء میں امپورٹڈ مہنگائی (ان اشیا کا مہنگائی میں حصہ جو پاکستان کو درآمد کرنا پڑتی ہیں) کا بڑا ہاتھ ہے اور اگر ڈالر کی قیمت کو اس کی اصل قدر پر لایا جائے تو مہنگائی میں خاطر خواہ کمی ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی توجہ تین سے چار اہم نکات پر ہے جس میں طرزِ حکمرانی کو بہتر کرنے کے ساتھ کرنسی کی قیمت کو مستحکم کرنا اولین مقصد ہے۔

اسحاق ڈار کے بقول روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر 200روپے سے نیچے بنتی ہے، پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں استحکام کے لیے وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقات کرے گا تاکہ ڈالر کو 200 روپے سے نیچے لایا جا سکے۔

وزیرِ خزانہ نے مزید کہا کہ سٹے بازوں نے کرنسی کے ساتھ غیر حقیقی سلوک کیا۔ ڈالر کی قیمت بڑھانے میں جن بینکوں یا کاروباری اداروں نے سٹے بازی سے کام لیا ہے ان کے خلاف بھی ایکشن ہو گا۔

انہوں نے دعوی کیا کہ پاکستان کو اپنی توانائی کی ضرویات پورا کرنے کے لیے اگر روس سے تیل اسی قیمت پر ملتا ہے جس پر بھارت حاصل کر رہا ہے تو پاکستان روس سے توانائی درآمد کر سکتا ہے جس پر مغرب کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

وفاقی وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کو پورا کرے گا اور اس پر مزید کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور پاکستان اپنے بانڈز کی بھی مکمل ادائیگیاں کرے گا۔ تاہم اگر بانڈز رکھنے والے بڑے اداروں نے پاکستان کو سیلاب کی وجہ سے کچھ ریلیف دینے پر رضامندی ظاہر کی تو ان سے بات کی جاسکتی ہے۔ یاد رہے دورہ امریکہ سے قبل اسحاق ڈار نے دعوی کیا تھا کہ پاکستان اپنی بیرونی ادائیگیاں وقت پر کرے گا اور کسی بھی عالمی ادارے سے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی درخواست نہیں کرے گا۔

انہوں نے دعوی کیا کہ اکتیس اکتوبر کو ختم ہونے والے آئی ایم ایف کے اجلاس کے بعد پاکستان دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے بھی نکل جائے گا اور اگر کچھ معمولی نوعیت کے مسائل رہ جائیں تو انہیں بھی آسانی سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔ان کے بقول “سیلاب زدہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ماہ جنرل اسمبلی اجلاس کی سائڈ لائن ملاقاتوں میں آئی ایم ایف کی سربراہ سے موجودہ آئی ایم ایف پروگرام میں تین ماہ کے لیے سبسڈیز اور ریلیف کی درخواست کی تھی جس کی منظوری کا پاکستان کو انتظار ہے۔

اسحاق دار کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پاکستان کی معیشت کو بہت حد تک سنبھال چکی ہے اور پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا اب کوئی  خطرہ نہیں۔

وفاقی وزیرِ خزانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا حالیہ دورہ کسی اقتصادی ریلیف کے لیے نہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کا پاکستان پر اعتماد بحال کرنے کے لیے تھا۔

وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب سے 32 ارب 40 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے ۔ پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کی تعمیرِ نو کے لیے تقریبا 16 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔

وزیر خزانہ نے انٹرویو میں پاکستان میں سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں سے متعلق سوال پر کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں نے پاکستان میں شدیدبارشوں سے آنے والے حالیہ سیلاب سے 32 ارب 40 کروڑ ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا ہے اور پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کی تعمیرِ نو کے لیے تقریبا 16 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔

واشنگٹن ڈی سی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بھی اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ  پاکستان کو تباہ کن سیلاب سے نکلنے میں تقریبا تین سال لگ سکتے ہیں، جس میں 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور 7.9 ملین بے گھر ہوئے۔