کراچی(صباح نیوز)جماعت اسلامی کے تحت کے الیکٹرک کے خلاف ”عوامی ریفرنڈم ” بدھ کو مکمل ہو گیا ، 6روز تک جاری رہنے والے ریفرنڈم میں لاکھوں شہریوں نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا ۔ تمام اضلاع سے بیلٹ بکس ادارہ نور حق میں قائم مرکزی ریفرنڈم کیمپ میں پہنچنا شروع ہو گئے اور رات گئے ووٹوں کی گنتی بھی شروع کر دی گئی ،گنتی مکمل ہونے کے بعد نتائج کا اعلان کیا جائے گا ، ریفرنڈم کے دوران شہر بھر میں متعدد مقامات پر ریفرنڈم کیمپ قائم کیے گئے جہاں مختلف شعبہ زندگی اور طبقات سے وابستہ افراد نے اپنی رائے دی ۔ وکلاء تاجروںاور صحافیوں کی جانب سے بھی کیمپ لگائے گئے اور عوام کی جانب سے زبردست جوش و خروش کا اظہار کیا ۔عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ ہے کہ کے الیکٹرک کے بلوں میں سے کے ایم سی میونسپل ٹیکس اور جعلی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز سمیت دیگر ناجائز ٹیکس ختم کیے جائیں ، کلاء بیک کے 50ارب روپے عوام کو واپس دلوائے جائیں ، اس کا لائسنس منسوخ ، قومی تحویل میں لے کر فرانزک آڈٹ کرایا جائے ، اس نجی کمپنی کے تمام سہولت کاروں کو بے نقاب کیا جائے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے ریفرنڈم کے آخری روز ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوامی ریفرنڈم اہل کراچی کا ترجمان ہو گا ، ہائی کورٹ کی جانب سے کے الیکٹرک کو کے ایم سی یوٹیلٹی ٹیکس وصول کرنے سے روکنے کا حکم اہل کراچی کی کامیابی ہے اور امید ہے کہ عدالت سے جعلی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز سمیت دیگر ناجائز ٹیکسوں کے حوالے سے بھی کراچی کے عوام کو انصاف اور ریلیف ملے گا ۔مرتضیٰ وہاب کے الیکٹرک کے ذریعے 3ارب روپے کراچی کے عوام سے وصول کر کے کے الیکٹرک کو ہی سالانہ 22کروڑ روپے دینا چاہتے ہیں ،کے الیکٹرک پہلے ہی کے ایم سی کی نادہندہ ہے اس کے باوجود اس کو سروس چارجز کے نام پر اربوں روپے دیے جاتے ہیں، مرتضیٰ وہاب عدالت میں میونسپل چارجز کے حوالے سے غلط بیانی کررہے ہیں ، میونسپل چارجز سب سے پہلے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت نے 2008میں لگائے ،پیپلز پارٹی گزشتہ 14سال سے سندھ پر حکومت کررہی ہے اس نے شہر کے تمام بڑے ادارے اپنے قبضے میں کر لیے ہیں اس کے باوجود یہ میونسپل چارجز وصول کرنے میں ناکام رہی ہے تو ا س استعفیٰ دے دینا چاہیئے ۔
مرتضیٰ وہاب 3ارب روپے پہ آنسو بہانے کی بجائے ،پیپلزپارٹی کے وزراء اور پارٹی رہنما بلال بھٹو زرداری سے پوچھیں کہ 2009سے پرووینشل فنانس کمیشن کیوں نہیں بنایا گیا ؟این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے وصول کیا گیا ٹیکس وفاق سے صوبہ منتقل ہوتا ہے وہ صوبے سے شہروں میں کیوں منتقل نہیں کیا جاتا؟سندھ حکومت اختیارا ت اور وسائل شہروں کو منتقل کیوں نہیں کرتی ؟کراچی سے امپورٹ پر انفرااسٹریکچر ٹیکس کی ٹیکس کی مد میں سالانہ اربوں روپے سندھ حکومت ہڑپ کرجاتی ہے اور کراچی کو کچھ نہیں ملتا،پیپلزپارٹی وفاق اور صوبے دونوں حکومتوں میں شامل ہے ،یہ مطالبہ کیوں نہیں کرتی کہ امپورٹ انفرااسٹرکچر کے ٹیکس میں سے کراچی کو بھی دیاجائے،مرتضیٰ وہاب بتائیں کہ کراچی میں سائن بورڈز سے بلدیاتی ادارے سالانہ اربوں روپے ٹیکس وصول کرتے ہیں وہ کہاں خرچ کیے جاتے ہیں، صوبائی حکومت کراچی کے شہریوں سے موٹر وہیکل ٹیکس وصول کرتی ہے ، اس مد میں 2019اور2020میں 77ارب روپے وصول کیے گئے ،بتایا جائے کہ یہ کہاں خرچ کیے گئے ؟
انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی نے الیکشن کمیشن کو وزیر اعلیٰ کے کراچی دشمن فیصلے اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو مسترد کرنے کے حوالے سے خط لکھا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن وزیر اعلیٰ سندھ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کافوری نوٹس لے، وہ کس طرح الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔کراچی ڈویژن میں بلدیاتی انتخابات کو یقینی بنایا جائے،کراچی شہر کے مسائل کا حل صرف ایک بااختیار،منتخب بلدیاتی حکومت ہے،30اگست 2020سے بلدیاتی انتخابات التواء کا شکار ہیں،مختلف حیلے،بہانوں سے سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کومسلسل ٹالتی رہی ہے،سیلاب زدگان کا بہانہ بنا کر کراچی میں انتخابات کو ٹالنا سندھ کے دارالخلافہ اور معاشی حب کے ساتھ بدترین ظلم ہے۔
انہوں نے کہاکہ چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے الیکشن کے مطالبہ پر جواب دے سکتے ہیں تو وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف بیان پر نوٹس کیوں نہیں لیتے ؟ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چیف الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ بات آنی چاہیئے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے بیانات غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے جس پر تادیبی کارروائی ہوسکتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے کراچی میں 6سال میں صرف چند کلو میٹر کی ایک اورنج لائن بنائی جس میں سے 30فیصد حصہ بنارس کا پل شامل ہے جہاں اورنج لائن بنی ہی نہیں ، اورنج لائین صرف اور صرف 4اسٹاپ پر مشتمل سڑک ہے سندھ حکومت کی رپورٹ کے مطابق اس پر 2ارب روپے کی لاگت آئی ہے ۔سندھ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 50کروڑ ڈالر میں ریڈ لائن بنائیں گے ،50کروڑ ڈالر کی رقم اس پر خرچ کرنے کی بجائے لائٹ ٹرین کا نظام بنایاجائے، کراچی کے فیصلے کراچی کا منتخب میئر اور اس کی کونسل ہی کو کرنے چاہیئے ، پیپلزپارٹی سمیت تمام حکومتی جماعتوں کا اتفاق ہے کہ بلدیاتی اداروں کو بااختیار نہ کیا جائے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 140-Aکے تحت بلدیاتی حکومت کو بااختیار کیا جائے ۔