کیا ہم قابل فخر قوم کہلوانے کے حقدار ہیں؟۔۔۔شکیل احمد ترابی


طویل عرصہ بعدقومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ” فوج اور ہم ایک ہیں ” ایسے بیانات دے کرہم جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں، کسی ملک کے وزیر اعظم سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ یہ کہیں کہ وزارت خزانہ اور وہ ایک ہیں،ایسے ہی فوج سے متعلق بھی بیان دینا اچھی روایت نہیں۔یہ بیان دہشتگردوں سے زیادہ وزیر اعظم نے اپنے سیاسی مخالفین کی”غلط فہمی ”دور کرنے کیلئے دیا ۔ماضی کی فوجی مداخلتوں اور سول حکومتوں کے خلاف فوجی ساز باز کی وجہ سے کچھ لوگ آج بھی فوجی کپتان کی انگلی یابوٹ اٹھنے کے منتظر ہیں۔سیاسی مخالفین کی اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ میاں صاحب فوجی نرسری میں پروان چڑھے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے مستقبل میں یہ سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔سول و فوجی قیادت اور مملکت پاکستان کا اسی میں بھلا ہے۔ مقتدر حلقوں میں کون ہے جو ایسا نہیں؟ سب سے بڑی جمہوری پارٹی کا لیڈر پہلے فوجی آمر کو ” ڈیڈی” نہیں کہتا تھا؟
اس کی بیٹی نے ایک اور فوجی آمر سے NROنہیں کیا تھا؟
ناامیدی کی فضائوں میں قوم نے جس عمران خان کو والہانہ عقیدت سے اتنابڑا مینڈیٹ دیا تھا’ اس عمران کو بھی اللہ اور عوام کی بجائے ”کنٹینر” پر کسی ایمپائر کی انگلی کے اٹھنے کا انتظار نہیں تھا۔؟ ایمپائر کی انگلی تو نہ اٹھی مگر ان کے کسی کارندے نے جب یہ پیغام دیاکہ ایمپائر ملنا چاہتاہے تو عمران بھاگم بھاگ سرپٹ نہیں دوڑ پڑاتھا؟،عمران خان کے چہرے پر بکھری وہ قابل شرم مسکراہٹ کیمرے کی آنکھ نے براہ راست قوم کو دکھائی تھی۔قومی اسمبلی میں دیئے گئے بیان میں بظاہرقصوروار وزیراعظم نوازشریف ہی لگتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری زیادہ ترسیاسی قیادت وقت کے حکمرانوں سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے لئے فوجی قیادت کی جانب ہی ملتجانہ نظروں سے نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ آمر ضیاء الحق کے بقول ” دم ہلاتی چلی جاتی ہے ”
میاں نوازشریف بھی اس سے مبرا نہیں ۔ ” میثاق جمہوریت ” پر عمل کیا جاتا تو یہ شرم ناک دن شاید زیادہ عرصہ نہ دیکھنے پڑتے۔
بھارت سے ہم حالت جنگ میں ہیں، سیاسی قیادت کو روایتی دشمن کو تحریک آزادی کشمیر کی موجودہ صورتحال میں ٹھوس پیغام دینے کی ضرورت تھی۔ مگر جب وزیر اعظم ایسا بیان دینگے کہ ” فوج اور ہم ایک ہیں ”تو وچلی ( اندر )بات کس کو سمجھ نہیں آئیگی؟تبھی تو بھارتی وفود جب پاکستان آتے ہیں تو وہ سول لیڈرشپ کی بجائے” اصل قیادت” سے بات چیت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں کیا ہم قابل فخر قوم کہلوانے کے حقدار ہیں؟
ابھی ایک ماہ قبل ہی توغیور ترکوں نے اپنی سپاہ کے صرف باغی گروپ ہی کو نہیں پوری دنیا باالخصوص امریکہ ومغرب کو یہ پیغام دیا ہے کہ فوج کا اصل کام سرحدوں کی حفاظت نہ کے ملکی معاملات میں مداخلت ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ قوم تو ان حکمرانوں ہی کا ساتھ دیتی ہے جو اس کے لئے جیتے مرتے ہیں ۔ ماضی قریب کی بات ہے کہ 1994میں استنبول میں بریڈ( روٹی )بلیک میں ملتی تھی طیب اردگان استبول کا مئیر بنتا ہے تو چند ماہ میں سوا کروڑ کے شہر میں روٹی یکساں سستے نرخوں ہر جگہ میسر ہوتی ہے۔ طیب دنیا کے ساتویں اور یورپ کے سب سے بڑے شہر استنبول جسے لوگ بدبودارشہر قرار دیتے تھے کا حلیہ بدل کر رکھ دیتا ہے۔ طیب کی مئیرشپ کے دوران استنبول دنیاکے چندصاف ستھرے اور خوبصورت شہروں میں شامل ہو جاتاہے۔
2002 ء میں طیب اردگان کی جماعت برسر اقتدار آتی ہے تو اس وقت ترکی میں فی کس آمدن 3200$ تھی۔ عالمی بنک کے اعداد وشمار کے مطابق اب اس میں تقریباً تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
Turkey is one of the largest upper middle-income partners of the World Bank Group (WBG). With a Gross Domestic Product (GDP) of $ 799.54 billion, Turkey is the 17th largest economy in the world. In less than a decade, per capita income in the country has nearly tripled and now exceeds $10, 500.
اس وقت مقصد طیب اردگان کی کامیابیاں گنوانا ہر گز نہیں بلکہ کہنے کا مدعا یہ ہے کے دل وجان سے قوم ٹینکوں کے سامنے تب ہی لیٹتی ہے جب اسے معلوم ہو کہ اس کے حکمران ذاتی تجوریاں نہیں بلکہ قوم کا پیٹ بھرنے اور اقوام عالم میں اسکا سر بلند کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے۔
سانحہ کوئٹہ کے بعد جو کچھ ایوان میں زیربحث رہا وہ جھوٹ نہیں مگر بے وقت کھلے عام سچ بولنے سے کیا ہم دنیا میں باعزت مقام حاصل کر پائیں گے؟ کیا ساری خرابیوں کے ذمہ دارعسکری حلقے اور خفیہ ایجنسیاں ہی ہیں؟ بلوچستان میں اچکزئی صاحب نے اقربا پروری کی انتہا کردی۔دوسروں پر سنگ زنی آسان ہے مگر اس سے قبل اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔
ایوان میں جو بات قائدحزب اختلاف اور دیگر سیاسی قیادت نے ارشاد فرمائی وہ ” ان کیمرہ” اس سے زیادہ شدت سے کی جانے کے قابل ہے۔مگر مکرر عرض ہے کہ ہمیں دوعملی دور کرنا ہوگی۔مولانا شیرانی فوج کے خلاف بولتے ہیں اور قومی کشمیر پالیسی سے متصادم بیان بازی بھی کرتے ہیں۔ایسی بیان بازی سے قبل انہیں غور فرمانا چاہیے کہ پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کا سربراہ کوئی اور نہیں ان کی اپنی ہی جماعت کے قائد ہیں۔
ترکی کے حالیہ تجربے پر سیاسی قیادت کو پھولنے اور فوجی قیادت کوخوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ہمیں اپنے گھر کو صحیح کرنا ہوگا۔
معیشت ،تعلیم کے میدان میں انقلابی اقدامات کی مختصر وطویل منصوبہ بندی کے ساتھ امن وامان کے قیام پر توجہ دیں ۔ بھوک تو کفر کی جانب لے جاتی ہے’ ملک دشمی کفر وارتداد سے بڑا جرم نہیں۔بھوکا ملک کی حفاظت کیلئے میدان میں کیوں نکلے گا؟
ماضی میں جو ہو چکا ” اس لکیر” کو پیٹنے کی بجائے سیاسی قیادت جولوٹ مار کرچکی جو کھا چکی اس پر بس کرے اور عسکری قیادت بھی مزید اندرونی فتوحات سے اپنا رخ مکمل طور پر موڑ کر ملکی سرحدوں کی جانب کر لے۔ ہم ایسا نہ کر سکے تو اللہ میاں نے ہرگز ہماری حفاظت کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا، اللہ نے واضح طور فرما رکھا ہے کہ ہم اس قوم کی حالت تبدیل نہیں کرتے جسکو خود اپنی حالت کی تبدیلی کی تمنا نہ ہو۔
ایسے میں ” فوج اور ہم ایک ہیں” کہنا بند ہونا چاہیئے کیونکہ حقیقت حال سے کون واقف نہیں ۔
خلیل جبران نے کہا تھا ”قابل رحم ہے وہ قوم جو جنازوں کے ہجوم کے سواکہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی اور ماضی کی یادوں کے سوا اس کے پاس فخر کرنے کا کوئی ساماں نہیں ہوتا” دہشت گردی کا عفریت سیاسی قیادت نے نہیں بلکہ فوجی آمر پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے امریکہ سے جپھی لگا کے قوم کے گلے میںڈالا تھا۔ امریکہ کے” ڈو مور” کے جواب میں ” نومور” کہنے کی ضرورت ہے۔جب ہم نے ایسا کرلیا تو نصف سے زائد دہشتگردی خود بخود ختم ہوجائے گی۔
آج غور کریں تو واضح نظر آئیگا کہ ہم نے مختلف میدانوں میں کوشش کرنا ترک کر دی ہے،جدوجہد کی بجائے اغیار کی امداد پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا ہے،اسی لئے آج ہماری گردنیں آئی۔ایم۔ایف کے بے رحم شکنجے میں جکڑی جاچکی ہیں ،اور ہم آج سب کچھ جانتے ہوئے بھی حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ اگر ذلت و رسوائی کے طوق کو اتار پھینکنا چاہتے ہیں تو ہمیں اغیارکی امدادکی بجائے اپنے زور و بازو اور اپنے وسائل کو بروئے کار لانا ہوگا۔
اپنی تہذیب و ثقافت کی جانب رخ موڑ کر ہی ہم سر اٹھا کر اور دنیا سے نظریں ملا کر جی سکتے ہیں ورنہ ہم اسی طرح ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے ۔
اگرہم ایسانہ کر پائے تو
داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں