نئے آرمی چیف کی تقرری میں تین ماہ باقی ،جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرینگے،خواجہ آصف


اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری میں تین ماہ باقی ہیں ،جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرینگے،سابق وزیرِ اعظم نے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے جو متنازع بیان دیا ہے، اس پر انہیں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی، افغانستان میں امریکہ کی جانب سے کئے جانے والے ڈرون حملے میں پاکستان کی سرزمین قطعی طور پر استعمال نہیں ہوئی۔

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کے اسلام آباد میں نمائندے علی فرقان کو دیئے گئے انٹرویو میں  خواجہ آصف نے کہا کہ فوج کے سربراہ کی تقرری کے معاملے میں کسی کے دباؤمیں آ کر کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔ سابق وزیرِ اعظم نے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے جو متنازع بیان دیا ہے، اس پر انہیں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ عمران خان کے فوجی سربراہ کی تقرری سے متعلق متنازع بیان پر قانونی کارروائی سے قبل اس بیان کی تحقیق کی جائے گی۔ البتہ خواجہ آصف نے یہ نہیں بتایا کہ عمران خان کے بیان کی تحقیقات کون کرے گاتاہم انہوں نے واضح کیا کہ عمران خان کو اس معاملے میں کوئی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔۔نئے آرمی چیف کی تقرری سے متعلق جب خواجہ آصف سے سوال کیا گیا تو ا نہوں نے کہا کہ فوج کے نئے سربراہ کے تقرر میں ابھی تین ماہ باقی ہیں اور حکومت اس ضمن میں جلد بازی سے فیصلہ نہیں لے گی۔نہ ہی کسی کے دباؤمیں آکر آرمی چیف کا تقرر کیا جائے گا۔اس سوال پر کہ تقرری میں تاخیر سے یہ معاملہ مزید متنازع نہیں ہو جائے گا؟

خواجہ آصف نے کہا کہ آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر ادارے کا تقدس اور وقار بحال رکھنا ہمارے لیے مقدم ہے۔خواجہ آصف نے عمران خان کا نام لئے بغیر کہا کہ اگر کوئی شخص ادارے کا وقار مجروح کرنے کی کوشش کررہا ہے تو ہمیں اس کے دبا ؤمیں آکر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے، جو روایتی طور پر غلط ہو۔ اس لیے جلد بازی کی کوئی ایسی ضرورت نہیں ہے۔وزیرِ دفاع نے کہا کہ آپ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بتائیں کہ دو تین ماہ یا ایک ماہ پہلے کسی آرمی چیف کی تقرری کا اعلان ہوا ہو۔خواجہ آصف کے بقول وہ ماضی میں بھی بطور وزیر دفاع دو مرتبہ آرمی چیف کی تقرری کے عمل کا حصہ رہے ہیں، آرمی چیف کی سبک دوشی سے چند روز قبل ہی نئے سربراہ کے نام کا اعلان کیا جاتا ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ فوج کے سربراہ کی تقرری کا طریقہ کار آئین میں درج ہے جس کے تحت فوج کی جانب سے وزیرِ اعظم کے پاس چار یا پانچ سینئر جنرلز کے نام آتے ہیں جن میں سے وزیرِ اعظم اپنی صوابدید کے تحت ایک کی تعیناتی کرتے ہیں۔ آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے سوال پر خواجہ آصف بولے کہ اتحادی حکومت میں ہوتے ہوئے لازم ہوتا ہے کہ اہم فیصلوں میں مشاورت کی جائے۔ یقینی طور پر فوج کی جانب سے سامنے آنے والے ناموں کو اتحادی رہنماؤں کے سامنے بھی رکھا جائے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ اس عمل میں حکومت اصولوں سے انحراف نہیں کرے گی اور پہلے سے وضع کردہ قواعد اور قانون کے مطابق فیصلہ لیا جائے گا۔اس سوال پر کہ کیا فوج سے نئے سربراہ کی تقرری کے لیے نام منگوا لیے گئے ہیں؟ اس پر خواجہ آصف نے دلچسپ انداز میں کہا کہ ابھی دریا دس کوس دور ہے تو شلوار پہلے اونچی کر لیں کہ بھیگ نہ جائے۔اس سوال پر کہ غیر معمولی حالات میں کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع دی جا سکتی ہے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ملکی دفاع کے تناظر میں پاکستان کو پچھلے 20 برس سے غیر معمولی حالات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان غیر یقینی حالات میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی تقرریاں ہوتی رہی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ملک میں سیاسی اور معاشی حالات سازگار نہیں لیکن دفاعی ادارے کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو قطعی طور پر غیر معمولی حالات نہیں ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ فوج کے سربراہ کی تقرری میں میڈیا کی دلچسپی بھی بڑھ گئی ہے اور اسے موضوعِ بحث بنا رکھا ہے اور عمران خان بھی اس پر عوامی سطح پر تبصرے کررہے ہیں۔

جنرل باجوہ کی مدت میں توسیع کے امکان پر بات کرتے ہوئے ا نہوں نے کہا کہ وقت آنے پر اس بارے میں بحث کی جاسکتی ہے ابھی یہ بات قبل ازوقت اور غیر ضروری ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر دفاع نے واضح کیا کہ افغانستان میں امریکہ کی جانب سے کئے جانے والے ڈرون حملے میں پاکستان کی سرزمین قطعی طور پر استعمال نہیں ہوئی، امریکہ کے افغانستان سے انخلا سے قبل پاکستان کی فضائی اور زمینی راستے استعمال کئے جاتے رہے ہیں تاہم اس وقت واشنگٹن کے ساتھ اسلام آباد کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں،پاکستان خلفشار کا شکار ہمسایہ ملک میں استحکام چاہتا ہے اور اس کے لیے افغانستان کو ہر ممکن معاونت فراہم کی جارہی ہے۔

کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں افغان طالبان کے کردار پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والی بات چیت اگر کسی منطقی انجام تک پہنچتی ہے تو اس میں افغان طالبان کا کردار ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس ضمن میں افغان طالبان کا کردار مثبت رہے گا کیوں کہ وہ ٹی ٹی پی پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔