اسلام آباد(صباح نیوز)سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا بند کریں اس سے جمہوریت کو نقصان ہو گا، ن لیگ والوں کو کہنا چاہتا ہوں غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا بند کریں،تحریک انصاف کی حکومت نے ستمبر 2022 تک آئی ایم ایف کی چھٹی کرادینی تھی کیوں کہ آئی ایم ایف کبھی نہیں چاہتا کہ پاکستان اس کے شکنجے سے نکل سکے۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف تو اپنا چورن بیچتا رہے گا اور کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اس کے شکنجے سے نکل سکے۔ انھوں نے کہا کہ جنوری 2022 تک ہمارے لئے یہ ہی آئی ایم ایف بہت اچھی رپورٹ دے رہا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت میں ہم آئی ایم ایف کے سامنے کھڑے ہوجاتے تھے لیکن موجودہ حکمران بالکل لیٹ گئے ہیں۔
شوکت ترین نے تجویز دی کہ اب حکومت یہ کرے کہ آئی ایم ایف کے پاس جائے اور کہیں کہ ملک میں سیلاب کے باعث ہمیں عوام کو ریلیف دینا ہے، آئی ایم ایف سے شرائط نرم کروائی جائیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ روس سمیت جہاں سے سستا تیل مل سکتا ہے اس کو حاصل کرنا چاہئے اور ٹیکس کا دائرہ بڑھا کر ٹیکس ریونیو بڑھایا جائے۔
انھوں نے مزید کہا کہ شوکت ترین کو غدار کہنے والے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ شوکت ترین پاکستان کیلئے تھائی لینڈ سے ایک ملین ڈالر کی نوکری چھوڑ کر آیا۔ مسلم لیگ ن والے اپنے گریبان میں دیکھیں انہوں نے کیا کیا، ہم اپنے پیسے خود اپنے عوام پر خرچ کرنا چاہتے ہیں اور عمران خان نے ٹیلی تھون سے جو رقم اکٹھی کی وہ ملک بھر کے متاثرین میں تقسیم ہو گی۔انہوں نے کہا کہ میرے والد نے برطانوی جیل میں قید کاٹی تو بیٹا کیسے غدار ہوا۔ ن لیگ والوں کو کہنا چاہتا ہوں غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا بند کریں کیونکہ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے سے جمہوریت کو نقصان ہو گا۔
سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ شوکت ترین تھائی لینڈ سے 50 لاکھ مہینے کی تنخواہ چھوڑ کے پاکستان آیا تھا اور شوکت ترین نے ساتواں این ایف سی ایوارڈ کرایا لیکن اس وقت تو غدار نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کو یاد دلادوں کہ ملیشیا کی کمپنی کے معاملے میں مجھے فریق بنایا گیا اور میں اپنے خرچے پر ملیشیا گیا جہاں بیان دیا تو معاملہ حل ہوا۔ شاہد خاقان عباسی کو بتانا چاہتا ہوں شوکت ترین غدار نہیں ہے۔
شوکت ترین نے کہا کہ آڈیو ٹیپ کے ذریعے سے پی ٹی آئی کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ ٹیلی فون پر پرائیویٹ گفتگو ٹیپ کرنے کا عمل غیرقانونی ہے۔ وزیر خزانہ خیبر پختونخوا نے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو خط لکھا تھا۔