اسلام آباد(صباح نیوز)انسداد دہشتگردی کی عدالت نے دہشت گردی کے مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی یکم ستمبر تک عبوری ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے عمران خان کی مستقل ضمانت کی درخواست پر پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پولیس سے یکم ستمبر تک جواب طلب کر لیا ہے، جبکہ پولیس کو یکم ستمبر تک عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا ۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری اور اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو دھمکیاں دینے کے الزام میں درج دہشت گردی کے مقدمے میں ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے عمران خان انسداد دہشتگردی عدالت پہنچے۔
درخواست ضمانت پر سماعت دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی پیشی کے موقع پر فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، کمپلیکس کے اطراف کی سڑکیں بند کردی گئی تھیں اور غیر متعلقہ افراد کو عمارت میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ عمران خان کی گاڑی کوجوڈیشل کمپلیکس کے احاطے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی جس کے باعث چیئرمین پی ٹی آئی پیدل چل کر انسداد دہشتگردی کی عدالت پہنچے۔ ان کے ہمراہ پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر، پرویز خٹک، زلفی بخاری اور فواد چودھری بھی موجود تھے۔
اس موقع پر وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کے خلاف تھانہ مارگلہ میں دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ پہلی ایف آئی آر دیکھیں، مجسٹریٹ علی جاوید مقدمے کا مدعی ہے۔وکیل عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ پراسیکیوشن کے مطابق 3 لوگوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ آئی جی،ایڈیشنل آئی جی اور مجسٹریٹ زیبا کا نام لکھا گیا۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی مدعی نہیں بنا اور پولیس نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا۔ شرم کرو کو دھمکی بنا دیا گیا ورنہ کئی وزیر اس حکومت کے اندر ہوتے۔بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی اور ڈی آئی جی کو کہا تمہیں نہیں چھوڑنا، کیس کریں گے۔ اسی لیے اقوام متحدہ نے نوٹس لیا ہے پوری دنیا چیخ اٹھی ہے۔ مجسٹریٹ صاحبہ زیبا آپ بھی تیار ہو جائیں آپ کے اوپر بھی ایکشن لیں گے۔ ہم نے ایکشن لیا اور ہم ہائیکورٹ گئے ہیں۔
بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راجا جواد عباس نے عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے ایک لاکھ کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے اور یکم ستمبر کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیا۔عدالت نے عمران خان کی مستقل ضمانت کی درخواست پر پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے پولیس سے یکم ستمبر تک جواب طلب کر لیا ، جبکہ پولیس کو یکم ستمبر تک عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا گیا ہے۔
قبل ازیں عمران خان نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں وکیل بابر اعوان اور علی بخاری کے ذریعے درخواست دائر کی، جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پولیس نے انتقامی کارووائی کے تحت دہشت گردی کا مقدمہ بنایا۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرے ۔
عمران خان کے پہنچنے سے قبل ان کے وکلا کی ٹیم انسداد دہشت گردی عدالت میں موجود تھی۔ اس موقع پر فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بتائیں گے کہ عدالت کے اطراف مارشل لا جیسی صورتحال ہے اور وکلا کو بھی جوڈیشل کمپلیکس میں داخلے سے روکا جا رہا ہے۔
دریں اثنا عمران خان نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر اپنے خلاف درج مقدمے میں وکلا کے ذریعے عبوری درخواست ضمانت سیشن عدالت میں دائر کر دی۔ واضح رہے کہ عمران خان کے خلاف تھانہ آبپارہ میں مقدمہ درج ہے۔
اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں عمران خان نے کہا کہ ساری دنیا میں اس وقت پاکستان کا مذاق اڑ رہا ہے، شہبازگل پر جنسی تشدد ہوتا ہے میں کہوں کہ لیگل ایکشن لوں گا تو دہشتگردی کا کیس لگ جاتا ہے، مجسٹریٹ نے تشدد ہوتے ہوئے شہبازگل کو واپس پولیس کے پاس بھیج دیا، اس پر اگر میں لیگل ایکشن لینے کا کہتا ہوں تو مجھ پر دہشتگردی کا کیس لگ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ساری دنیا میں یہ خبر گئی، ایسا لگا کہ پاکستان بنانا ری پبلک ہے، میں چاہتا ہوں کہ جو بھی فیصلے کررہے ہیں اور کروارہے ہیں ان کو ملک کا سوچنا چاہیے، سب سے بڑی جماعت کے سربراہ کو اس کیس پر گرفتاری کی کوشش کررہے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ یہ تحریک انصاف کی طاقت سے خوفزدہ ہیں، ہم ضمنی الیکشن جیتے جارہے ہیں، تاریخ میں اتنے بڑے جلسے نہیں ہوئے، خوف کی وجہ سے ٹیکنیکل ناک آئوٹ کرنے اور اپنی ذات کو بچانے کے لیے یہ پاکستان کا مذاق اڑ رہا ہے۔