14 اگست کے بابرکت دن ساڑھے گیارہ بجے عُمان کے دارالحکومت مسقط کے ایئرپورٹ پر اُترے تو ایک عجیب سی کشادگی اور اپنائیت کا احساس ہوا، ماحول، لباس اور لوگ اپنے اپنے سے لگے۔ عمان کی خاص پہچان ان کا منفرد کلچر ہے جس پر تیز رفتار زمانے کی کوئی ایجاد اثر انداز نہیں ہو سکی۔ تقریباً پاکستان جتنا رقبہ رکھنے والے ملک کی آبادی صرف 45 لاکھ ہے۔ جتنے وسائل ہیں ان میں اتنی آبادی خوشحال کیوں نہ ہو۔ تاہم بات ہو رہی تھی 75 سالہ جشنِ آزادی کی تقریبات کی تو اسی روز یعنی 14 اگست کو ہی پاکستان سکول کی طرف سے ایک عالیشان تقریب منعقد کی گئی تھی جس میں پاکستان کی نمائندہ تنظیموں کے صدور اور بااثر افراد نے شرکت کی۔ مختلف ٹیبلوز، ملی نغموں اور تقاریر کے ذریعے نئی نسل نے جو پیغام دیا وہ بہت حوصلہ افزا تھا۔ پاک وطن کو ترقی کی اعلیٰ منازل تک لے جانے اور اس کی پہچان کو معتبر بنانے کا عزم صرف ان کے لفظوں میں نہیں، آنکھوں اور جذبوں سے بھی ہویدا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ نے نئی نسل کے سامنے دنیا کی جو سچائی رکھ دی ہے اس کے توسط سے ان کی حالات پر زیادہ گہری نظر بھی ہے اور اصل معاملات کا شعور بھی۔ اس تقریب میں سفیر پاکستان عمران علی چودھری کے ہمراہ عباس تابش، یاسر پیر زادہ، راقم، قمر ریاض، امیر حمزہ نے پاکستان کی 75ویں سالگرہ کا کیک کاٹا اور حاضرین سے گفتگو بھی کی۔ مگر حاصلِ محفل تقریر عمان میں پاکستان کے سفیر عمران علی چودھری کی تھی۔ میں عمران چودھری کو کئی برسوں سے جانتی ہوں، جب وہ لاہور اکادمی میں تھے تو کئی بار وہاں کی ثقافتی تقریبات میں شرکت رہی۔ عمران چودھری بنیادی طور پر ایک درویش صفت مزاج کا مالک اور خیر کے رستے پر چلنے والا انسان ہے۔ وطن سے محبت کا یہ عالم ہے کہ مختلف شعبوں میں حیرت انگیز طور پر آگے بڑھ کر کامیابی حاصل کرنے والے لمحات، ہمسایہ اور ترقی یافتہ ممالک سے تقابلی جائزے کے نکات کو ڈائری میں جمع کرتا رہتا ہے اور وقتاً فوقتاً ان اعداد و شمار کے ذریعے اپنے ہم وطنوں خصوصاً نئی نسل کے اندر فخر و انبساط اور مقابلے کے جذبات انجیکٹ کرتا رہتا ہے۔ اس سے بڑی خدمت اور خیر کیا ہو گی کہ آپ دوسروں کو ہمت اور کوشش کرنے پر اُبھاریں تا کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور محنت سے اپنے مقصد کے حصول کو ممکن بنائیں۔ عمران علی چودھری نے جشنِ آزادی کی مناسبت سے اپنی گفتگو میں قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک مختلف شعبوں میں پاکستان کی حیرت انگیز کامیابیوں کا تذکرہ کیا جب تماشائی اور وقت کا منصف ہار جیت کے مرحلے میں پاکستان کے پلڑے میں ہار کا فیصلہ رکھ چکا تھا۔ کسی ایک فرد کی بے مثال کارکردگی سے سارے فیصلے اُلٹ ہو گئے اور جیت پاکستان کا مقدر بنی۔
پاکستانی ایک ایسی ہی قوم ہیں ڈٹ جائیں تو دریاؤں کو رُخ بدلنے پر مجبور کر دیں۔ آج اس جذبے کو دوبارہ بیدار کرنے اور نوجوان نسل کے ہاتھ میں اُمید کا دِیا تھمانے کی ضرورت ہے۔
اپنے وسائل سے بھرے ملک کو معاشی بحران کا شکار کرنے میں ہم سب حصہ دار ہیں۔ مایوسی، لاچارگی اور بے بسی کا اتنا واویلا کیا گیا کہ لوگ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی لے کر لاکھوں میل دور جا بسے، بجلی کی کمی کے باعث صنعت کاروں نے اپنے گھاٹے کے خوف سے ہمسایہ ملک میں فیکٹریاں لگا لیں۔ سرمایہ داروں نے پاکستانی بینکوں سے پیسہ نکال کر دیگر ملکوں میں سرمایہ کاری کے رحجان کو تقویت دی۔ ہم سب مل کر دوسروں کی معیشت بہتر کرتے رہے اور حب الوطنی کے راگ بھی الاپتے رہے۔ کسی نے اس حوالے سے کوئی مذاکرہ منعقد کیا اور نہ ہی میڈیا پر بات کی بلکہ خاموشی سے سب ہوتا دیکھتے رہے۔ بقول عمران علی چودھری ہمیں اپنی نئی نسل سے معافی مانگ کر سب کچھ ان کے حوالے کرنا ہو گا کہ اب بھی اس مٹی میں نم بھی بہت ہے اور مٹی سے جڑت رکھنے والوں کے جذبے بھی سلامت ہیں۔
انھیں پاکستان کا روشن چہرہ اور کامیابیاں دکھا کر فخر کرنا سکھانا ہے۔ ایک عرصے سے حالات کا تاریک رُخ دکھا کر مایوس نہیں کرنا۔ ہم نے تنقید نہیں کرنی، عمل کرنا اور دوسروں کو عمل کرنے پر اُکسانا ہے۔ پاکستان سکول سلالہ میں بھی عدیل چودھری کی طرف سے جشنِ آزادی کے حوالے سے تقریب کا اہتمام کیا گیا۔
ہمیں عمان کے کئی شہروں میں جانے اور روزانہ سینکڑوں لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ہر فرد نے پاکستانی کمیونٹی اور پاکستان کے مفادات کے لیے عمران چودھری کی خدمات اور کاوشوں کو سراہا۔ رب کرے میرے وطن کا ہر فرد اپنی اپنی سطح پر ملک کی ترقی کے لئے بہترین خدمات سر انجام دے اور نیک نامی کا باعث بنے۔ پاکستان زندہ باد!
بشکریہ روزنامہ جنگ