گزشتہ دنوں پاکستان میں انتظامیہ کا زوال میری تحریروں کا محور رہا۔ اِس ضمن میں سو برس پہلے برطانوی وزیر اعظم، لائیڈ جارج کی تقریر کا حوالہ تھا جس میں انہوں نے بڑے فخر سے انڈین سول سروس کو ہندوستان کی انتظامیہ کا فولادی ڈھانچہ قرار دیا تھا۔ آئی سی ایس افسران جن کا ذہن، قانون اور عدل کی طرف مائل ہوتا، حکومت کی اجازت سے، عدلیہ میں شامل ہو سکتے تھے۔ انہیں پہلے پہل کسی تحصیل میں بطور سول جج تعینات کیا جاتا۔ دو سال بعد انہیں ایک برس کیلئے سینئر سول جج کے فرائض سونپے جاتے۔ اِس مرحلے کے اختتام پر ایڈیشنل سیشن جج مقرر کیا جاتا اور ایک مخصوص مدت کے بعد، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی ذمہ داری تفویض ہوتی۔ بالآخر کارکردگی اور اہلیت کی سخت پرکھ کے مراحل سے گزرنے پر، اعلی عدلیہ میں شامل ہونے کا موقع ملتا۔
جو آئی سی ایس افسران، اِس راستے، اعلی عدلیہ میں شامل ہوئے ان میں شہاب الدین پہلے مدراس اور پھر ڈھاکہ ہائی کورٹ کے جج رہے۔ آزادی کے بعد پاکستانی عدلیہ کے سربراہ بنے۔ اِسی طرح ایم آر کیانی، آئی سی ایس میں شامل ہوئے اور آزادی کے بعد ویسٹ پاکستان ہائی کورٹ کے سربراہ رہے۔ جسٹس کارنیلئس بھی پہلے لاہور ہائی کورٹ اور پھر پاکستان کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے۔ شیخ انوارالحق بھی آئی سی ایس آفیسر تھے۔ آزادی کے بعد سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر رہے پھر عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور آخر کار پاکستان کے چیف جسٹس بنے۔
پاکستان بننے کے بعد سی ایس پی افسروں کیلئے بھی انتظامیہ سے عدلیہ میں منتقلی کی سہولت برقرار رہی۔ سول سروس کے اراکین جوعدلیہ میں شامل ہوئے ، ان میں جسٹس صمدانی، جسٹس شفیع الرحمن ، جسٹس ایس ایم ایچ قریشی ، جسٹس سعد سعود جان اور جسٹس ظفراللہ چوہدری شامل ہیں۔ جسٹس ظفراللہ چوہدری آخری افسر تھے جو سی ایس پی سے عدلیہ میں منتقل ہوئے۔ ایوب خان کا دورِ حکومت شروع ہوا تو جسٹس کیانی کے عدالتی فیصلے اور تقاریر میں طنزو مزاح حکومت کو ناگوار گزرا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ سول سروس سے عدلیہ میں منتقل ہونے کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔
آزادی کے بعد سول سروس کے 1954 بیچ سے متعلق چند واقعات قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوں گے۔ کامیاب امیدوار سول سروس اکیڈمی میں اکٹھے ملکی قوانین اور انتظامی امور بارے تربیت حاصل کرتے۔ ان دنوں ذرائع رسل و رسائل محدود تھے۔ افسران کو دشوار گزار علاقوں میں سفر کے لیے، گھڑ سواری سکھائی جاتی اور پھر اعلی تعلیم کے لیے انگلستان کی یونیورسٹی بھیجا جاتا۔ حسن اتفاق ہے کہ 1954 کے کامیاب امیدواروں میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ کے والد، نصر من اللہ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال کے والد، فتح خان بندیال اور خواجہ محمد احمد صمدانی شامل تھے۔ صمدانی صاحب کچھ عرصہ انتظامیہ میں گزارنے کے بعد عدلیہ میں شامل ہوئے۔ وہ ایک نڈر اور بے باک جج تھے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو، ضیا الحق کے عتاب کی زد میں آئے تو ان پر قتل کا مقدمہ بنا۔ جسٹس صمدانی ان دنوں لاہور ہائی کورٹ کے جج تھے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی ضمانت لی۔ تھوڑے عرصے کے بعد انہیں ہائی کورٹ سے تبدیل کر کے سیکرٹری قانون کی ذمہ داری دی گئی۔ یہاں بھی فیڈرل سیکرٹریوں کی میٹنگز میں ان کی جرات رندانہ نے ضیا الحق کی ناراضی کو دعوت دی، مگر جسٹس صمدانی نے زندگی بھر عہدوں کی پروا نہ کی آج بھی ان کا نام عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔
1954 بیچ کے فتح خان بندیال نے انتظامیہ کا حصہ بن کر شہرت کمائی۔ وہ مختلف مدارج طے کرتے ہوئے، نسبتا کم عمری میں پنجاب کے چیف سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے اپنی انتظامی قابلیت اور دیانتداری کی وجہ سے شہرت پائی۔ ان کے فرزند جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے لئے قانون کا شعبہ منتخب کیا اور لا پریکٹس میں شہرت کمانے کے بعد عدلیہ کا حصہ بنے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج اور چیف جسٹس رہنے کے بعد، سپریم کورٹ کی اعلی عدلیہ میں شامل ہوئے۔ آج کل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہیں ۔1954 بیچ کے ایک اور مشہور افسر جناب نصر من اللہ نے بھی پاکستان کی انتظامیہ میں بہت نام کمایا۔ پشاور کے ڈپٹی کمشنر رہنے کے بعد، گلگت بلتستان کی انتظامیہ کے سربراہ رہے۔ وہ بھی اپنے بیچ میٹ، فتح خان بندیال کی طرح اعلی عہدوں تک پہنچے اور دو صوبوں خیبر پختونخوااور بلوچستان میں چیف سیکرٹری کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ان کے فرزند اطہر من اللہ نے پہلے مقابلے کا امتحان دیا اور پاکستان کسٹم سروس میں شامل ہوئے۔ کچھ برس بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے اورکیمبرج یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وکالت شروع کی۔ اِس پیشے میں نام کمانے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بنے اور آج کل اس کے چیف جسٹس ہیں۔
قارئین کیلئے شاید یہ بات دلچسپی کا باعث ہو کہ سپریم کورٹ کے جسٹس جناب یحیی آفریدی اور جسٹس جناب منصور علی شاہ کیمبرج یونیورسٹی میں جسٹس اطہر من اللہ کے ہم عصر تھے اور اِن تینوں نے تعلیم مکمل ہونے پر اکٹھے لا پریکٹس شروع کی۔ اتفاق کی بات ہے کہ جسٹس یحیی آفریدی کے والد عمر آفریدی بھی سول سروس کا حصہ تھے۔ راقم نے ان کی زیر نگرانی کام نہیں کیا ، مگر وہ ایک نڈر، بیباک اور دبنگ افسر کے طور پر مشہور تھے۔ 1980 کی دہائی میں لاہور کے کمشنر رہنے کے بعد، وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری بھی تعینات ہوئے۔ انتظامیہ اور عدلیہ ملک کے دو اہم ادارے ہیں۔ اِن کی مضبوطی سے ریاست کا مستقبل جڑا ہے۔ اِس تحریر کا اختتام، دوسرے پاکستانیوں کی طرح، اِس دعا سے کرتا ہوں کہ پاکستان کے اداروں کی حرمت پر کبھی حرف نہ آئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ