سوشل میڈیا کے ذریعے ہماری سیاست میں ہیجان کے عادی ہوئے میرے کئی بہت ہی عزیز مگر نوجوان ساتھی چڑجاتے ہیں اگر میں حالیہ معاملات کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کروں۔ بوڑھا گھوڑا مگر نئے کرتب سیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔ اسی باعث مصر رہتا ہوں کہ تاریخ کو نظرانداز نہ کیا جائے۔
اپنے والد کے عدالتی قتل کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے نہایت لگن اور استقامت سے پاکستان پیپلز پارٹی کو سنبھالے رکھا۔ان سے متاثر ہوکر سینکڑوں کارکن جنرل ضیا کے لگائے مارشل لا کے خلاف جدوجہد کی بدولت اپنی جوانیاں عقوبت خانوں اور جیلوں کی نذر کرنے کو مائل ہوئے۔کئی ایک نے جلاوطنی اختیارکرلی اور آج تک وطن لوٹنے کے قابل نہیں ہوسکے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد بالآخر 1988 میں ایسے انتخاب ہوئے جن کی پیپلز پارٹی 1977 سے منتظر تھی۔ اس جماعت کے دیرینہ مخالفین کئی جماعتوں میں منقسم تھے۔ واضح انداز میں نظر آرہا تھا کہ 1988 کے انتخابات کی بدولت یہ جماعت مرکز ہی نہیں صوبوں میں بھی بھاری نہ سہی مناسب اکثریت کے ساتھ حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
پیپلز پارٹی کو اوقات میں رکھنے کے لئے مگر ر اتوں رات اسلامی جمہوری اتحاد (IJI)نامی اتحاد قائم ہوگیا۔لاہور سے ابھرے نواز شریف صاحب نے اس کے قیام میں بھرپور کردار ادا کیا۔ 1985 سے 1988 تک آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلی رہنے کی وجہ سے وہ ڈیروں اور دھڑوں کی اہمیت سے بخوبی آگاہ بھی ہوچکے تھے۔ اسی باعث انتخابی نتائج آئے تو چھانگا مانگا سیاست نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم نہ ہونے دی۔وزارت اعلی کے منصب پر نواز شریف ہی براجمان رہے۔
1988 کے بعد پیپلز پارٹی اپنے تئیں پنجاب میں آج تک حکومت نہیں بناپائی ہے۔ 1993 میں اسے یہ صوبہ حامد ناصر چٹھہ کے نامزد کردہ میاں منظور وٹو کے حوالے کرنا پڑا۔وٹو صاحب کے پنجاب اسمبلی میں وفاداروں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی۔وہ مگر نہایت ہوشیاری سے وزیر اعلی کے اختیارات بھرپور انداز میں استعمال کرتے رہے۔انہیں لگام ڈالنے کو محترمہ کافی لیت ولال کے بعد چودھری الطاف حسین مرحوم کو گورنر پنجاب لگانے کو مجبور ہوئیں۔ اس وقت تک مگر بہت دیر ہوچکی تھی۔ 2008 کے انتخاب کے بعد کہنے کو پیپلز پارٹی پنجاب حکومت میں چند مہینوں تک شراکت دار بھی رہی۔ اس کے نامزد کردہ وزرا مگر اختیارات سے محروم رہے۔شہباز شریف صاحب اپنے مخصوص طرز حکمرانی سے مرد آہن کی مانند عمل پیرا رہے۔
حالیہ تاریخ کے ان حوالوں کو یاد کرتے ہوئے اکثر میرے جھکی ذہن میں یہ سوال امڈ آتا ہے کہ 17جولائی کے عدالتی فیصلے کے بعد پنجاب کا اصل حکمران کون ہوا ہے۔ماضی پر انحصار کروں تو پگ چودھری پرویز الہی کے سرپر ٹکی نظر آتی ہے۔میرے نوجوان دوست مگر مصر ہیں کہ درحقیقت تحریک انصاف ہی گج وج کر پنجاب حکومت میں واپس لوٹی ہے۔میں اس دعوی پر کھلے ذہن کے ساتھ غور کرنے کو آمادہ ہوں۔سوال اس کے بعد بھی مگر یہ اٹھتا ہے کہ اب کیا؟
عمران خان صاحب اتوار کے دن لاہور میں موجود تھے۔چودھری پرویز الہی نے نہایت انکساری سے کام لیتے ہوئے انہیں وزیر اعلی کے لئے مختص کرسی پر بٹھایا۔ اپنے فرزند مونس الہی سمیت ان کے روبرو فدویوں کی طرح بیٹھے نظر آئے۔ اپنے قیام لاہور کے دوران عمران خان صاحب نے تاہم ایک بار پھر یاد دلایا کہ وہ اگست -ستمبر میں نئے انتخابات کی تاریخ کے منتظر ہیں۔سوال اب یہ اٹھتا ہے کہ نئے انتخاب کونسی اسمبلی کے لئے ہوں گے۔نظر بظاہر عمران خان صاحب پنجاب حکومت کے حصول کے بعد فقط قومی اسمبلی کے لئے نئے انتخاب چاہیں گے۔پنجاب اسمبلی اور حکومت کو اپنی بقیہ آئینی مدت مکمل کرنے دیں گے۔
انتخاب اگر نئی قومی اسمبلی کی تشکیل کے لئے ہی ہونا ہے تو ان کی نگرانی کے لئے عبوری حکومت فقط مرکز ہی میں قائم ہوگی۔ چودھری پرویز الہی بدستور وزیر اعلی کے منصب پر فائز رہیں گے۔اس منصب کے لئے مختص اختیارات کی بدولت وہ اپنے انتظامی تجربے کو بھرپور انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کی بدولت مسلم لیگ (نون) کے امیدواروں کے حلقوں میں رونق لگانا چاہیں گے۔ سوال اب یہ اٹھتا ہے کہ نواز شریف صاحب سے منسوب مسلم لیگ کو کاری ضرب لگانے کا حتمی فائدہ کون اٹھائے گا۔تحریک انصاف یا چودھری پرویز الہی سے وابستہ مسلم لیگ (قاف)۔
میرے نوجوان دوست مصر ہیں کہ میں جو سوالات اٹھارہا ہوں وہ 1990 کے فرسودہ ٹھہرائے سیاسی منظرنامے میں واجب سنائی دے سکتے تھے۔2022 کے حقائق قطعا بدل چکے ہیں۔عمران خان صاحب نے اپنی کرشماتی شخصیت اور روایتی اور سوشل میڈیا کے جارحانہ استعمال کے ذریعے نوجوان ووٹروں کی ایسی کھیپ تیار کرلی ہے کہ جو تحریک انصاف کے نامزد کردہ کھمبے کو بھی بلے پر مہرلگاتے ہوئے منتخب کرنے کو بے تاب ہے۔پرویز الہی جیسے موروثی سیاست دان ان کے سحر کا توڑ ڈھونڈ نہیں سکتے۔
اقتدار کا کھیل مگر بہت سفاک ہوتا ہے۔اس میں شامل ہر شخص انتہائی خود غرض ہوتا ہے۔چودھری پرویز الہی نے مونس الہی کو اپنا طاقت ور سیاسی وارث بھی بنانا ہے۔وہ انہیں تحریک انصاف سے وابستہ ہجوم کی نذر کرنا نہیں چاہیں گے۔ اس تناظر میں اپنی جماعت یعنی مسلم لیگ (ق) کی شناخت برقرار رکھنا ان کی مجبوری ہے۔مسلم لیگ (نون) سے اب تک وابستہ ڈیروں اور دھڑے والے کئی افراد اپنی قیادت سے ان دنوں مایوس ہونا شروع ہوگئے ہیں۔تحریک انصاف میں شامل ہوکر لوٹا پکارے جانے سے بھی لیکن خائف ہیں۔چودھری پرویز الہی مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ کی دھن بجاتے ہوئے انہیں اپنی جانب بآسانی مائل کرسکتے ہیں۔ہیجان سے غالب ہوئے اذہان فی الوقت مگر اس امکان پر توجہ ہی نہیں دے رہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت