تین سال بعد بھی میری گرفتاری، ہتھکڑی اور قصوری چکی کا راز نہیں کھلا، عرفان صدیقی


اسلام آباد(صباح نیوز) معروف صحافی، دانشور، مصنف اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ تین سال بعد بھی میری گرفتاری، ہتھکڑی اور قصوری چکی کا راز نہیں کھلا۔

اپنے ایک بیان میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ تین سال گزر جانے کے بعد بھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھ سکا کہ معروف صحافی، دانشور اور مصنف سینیٹر عرفان صدیقی کو کس کے حکم پر گرفتار کیا گیا۔ کس کے حکم پر ہتھکڑی لگائی گئی، کس کے دبائوپر اسسٹنٹ کمشنر نے انہیں چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا فیصلہ سنایا اور پھر کس کے حکم پر انہیں سنگین جرائم میں ملوث ملزموں کے ساتھ اڈیالہ جیل کی قصوری چکی میں ڈال دیا گیا۔

یاد رہے کہ تین سال قبل 26 جولائی 2019 کو عرفان صدیقی کو رات گیارہ بجے کے لگ بھگ پولیس کی بھاری نفری نے انہیں اپنے گھر جی ٹین تھری سے گرفتار کیا۔ رات حوالات میں رکھنے کے بعد اگلے دن 27 جولائی 2019 کو انہیں ہتھکڑی لگا کر اسسٹنٹ مجسٹریٹ مہرین بلوچ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ پولیس کی ایف آئی آر میں کہا گیا کہ عرفان صدیقی نے ایک مکان کرائے پر دیا ہے لیکن کرائے دار کے کوائف متعلقہ تھانے میں جمع نہیں کرائے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ متعلقہ مکان عرفان صدیقی کی ملکیت نہیں۔ انکا بیٹا مکان کا مالک ہے۔ اسی نے کرایہ دار کے ساتھ معاہدہ کیا ہے لیکن اسسٹنٹ کمشنر نے فیصلہ سناتے ہوئے عرفان صدیقی کو چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جہاں انہیں سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کے ساتھ قصوری چکی میں ڈال دیا گیا۔ میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر شدید احتجاج کیا۔

اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس سے عدلیہ کی رسوائی ہوئی ہے۔ اگلے دن، اتوار کو عدالت کھلی اور عرفان صدیقی کو رہا کر دیا گیا۔ یہ معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ آج تک اس معاملے کی کوئی تحقیق یا تفتیش بھی نہیں ہوئی۔ پونے چار سال تحریک انصاف نے یہ زحمت نہ کی اور اب چار ماہ سے پی ڈی ایم کی حکومت نے بھی اسے ضروری خیال نہیں کیا۔

حال ہی میں کچھ سیاست دانوں کی گرفتاری پر آدھی رات کو عدالت کھلی اور اس کا جائزہ لینے کیلئے ایک جوڈیشل کمیشن بھی قائم ہوگیا لیکن عرفان صدیقی کا معاملہ ابھی تک ایک راز ہی ہے۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ میں اس تلخ واقعہ کو بھول جانا چاہتا ہوں، لیکن ریاست پر فرض ہے کہ ایک شہری کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور انتہائی ناروا سلوک کی تحقیقات ضرور کرے اور ذمہ داروں کا محاسبہ کرے۔