میں نے سگریٹ سلگایا تو اس کے دھوئیں میں سے خوفناک قہقہے لگاتا جن برآمد ہوا، اس کا قد آسمان سے باتیں کر رہا تھا اور اس کے بازو مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے تھے۔ اس نے گردن جھکا کر اور دونوں ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے کہا ،’’میرے آقا کیا حکم ہے؟‘‘ میں نے بیزاری سے اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’سگریٹ دن بدن مہنگے ہو رہے ہیں، ان کی قیمت فوراً نیچے لائو‘‘ یہ سن کر اس نے اپنا روایتی جناتی قہقہہ لگایا اور بولا ’’میرے آقا آپ مجھے بہت مخولیے لگتے ہیں‘‘ میں نے اسے ڈانٹا ’’اپنی اوقات میں رہو، تم شاید میرے مقام اور مرتبے سے واقف نہیں ہو!‘‘ بولا ’’میرے آقا میں اچھی طرح واقف ہوں کیونکہ جو سگریٹ آپ پیتے ہیں، اس کا درجہ سگریٹوں میں سب سے نیچا ہے اور یہ سستا ترین ہے، میرے آقا اس سے سستا توصرف مفت ہی ہو سکتا ہے‘‘۔ مجھے مخولیا قرار دینے والا یہ گستاخ جن مجھ پر جگتیں لگانے لگ گیا تھا۔ میں نے اسے ڈانٹ پلائی ’’اپنی اوقات میں رہو اور اپنی ہڈ حرامی کو جگتوں میں چھپانے کی کوشش نہ کرو‘‘۔ یہ سن کر ایک لمحے کے لئے وہ میری نظروں سے اوجھل ہوا اور دوسرے ہی لمحے اس نے میرے برانڈ کے سگریٹوں کے بیس کارٹنوں کا ڈھیر میرے سامنے لگا دیا۔ اس کے بعد وہ پھر جھکا اور سینے پر ہاتھ باندھ کر بولا ’’میرے آقا کوئی اور حکم بتائیں‘‘۔
میں نے محسوس کیا کہ یہ تو بہت کارآمد جن ہے تو کیوں نہ اس سے کوئی بڑی فرمائش کی جائے۔ چنانچہ میں نے اسے مخاطب کرکے کہا ’’آٹا، چینی، گھی اور دوسری اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگ گئی ہیں، ان سب کی قیمتیں نیچے لائو، یہ سن کر اس نے چشم زدن میں دس بڑے بارعب انسان میرے سامنے لا کھڑے کئے اور کہا ’’میرے آقا، قیمتوں میں اضافہ کرنے والے یہ لوگ ہیں، آپ ان سے خود نپٹ لیں‘‘۔ میں نے انہیں مخاطب کیا اور ان سے گزارش کی کہ خدا را اس ملک میں غریبوں کو بھی زندہ رہنے کا حق دیں، آپ نے روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں اتنی زیادہ کردی ہیں کہ ان کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔ تم نے اگرابھی قیمتیں کم نہ کیں تو میں تم سب کو اس جن کے آگے ڈال دوں گا جو تمہاری ہڈیاں تک چبا جائے گا۔ اس پر ان سب نے ایک لمحے کے لئے اپنی آنکھیں بند کیں اور جب کھولیں تو پورے دس برسوں کے استعمال کا راشن میرے قدموں میں پڑا تھا۔ یہ دیکھ کر جن نے مجھ سے پوچھا ’’میرے آقا حکم دیں، ان سے کیا سلوک کرنا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’یہ معزز لوگ ہیں، انہیں پورے عزت و احترام سے ان کی تجوریوں کےپاس چھوڑ آئو‘‘۔
اگلے ہی لمحے جن دوبارہ میرے سامنے مودب کھڑا تھا اور میرے کسی نئے حکم کا منتظر تھا۔ میں نے ارد گرد دھرے برسوں کے لئے کافی سامان خور ونوش پر ایک نظر ڈالی اور کہا ’’میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں، تم مجھے اکیلا چھوڑ دو‘‘ جن یہ سنتے ہی میری نظروں سے غائب ہوگیا۔ اس کے جاتے ہی میں نے سوچا ان لمحوں کو زیادہ انجوائے کرنا چاہیے، چنانچہ میں نے سگریٹ میں سے تمباکو کو باہر نکالا اور ایک دوست کا بھیجا ہوا قیمتی سفوف اس میں مکس کرکے لمبا ’’سوٹا‘‘ لگایا تو مجھے لگا میں جنت میں ہوں، کیا خوبصورت نظارے تھے، ہر طرف حسن ہی حسن تھا، میں نے آنکھیں بند کرلیں اور ان نظاروں میں کھو گیا۔ کچھ دیر بعد جن کی آواز سنائی دی ’’میرے آقا! اگر آپ نے آرام کرلیا ہو تو مجھے کوئی حکم دیں۔ میں آپ کی قوم کی طرح بیکار بیٹھ کر جسم کے مختلف حصوں کو کھجلانے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔ مجھے یہ جن خاصا بدتمیز لگا، پہلے اس نے مجھ پر جملہ کسا تھا اور اب وہ میری قوم کے حوالے سے بے ہودہ گوئی کر رہا تھا، میں کروڑوں غداروں میں سے ایک ہی محب وطن بچا ہوں، چنانچہ مجھ سے مودی کے اس یار کی بکواس برداشت نہ ہوئی، میں نے اسے مخاطب کیا ’’تم شاید مجھے جانتے نہیں ہو، تمہیں علم نہیں میرے ہاتھ کتنے لمبے ہیں اور میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کر سکتا ہوں‘‘۔ اس کے جواب میں اس نے کمر خمیدہ اور ہاتھ باندھ کر کہا ’’میرے آقا، میں آپ کی طاقت سے پوری طرح واقف ہوں، بس میرا منہ نہ کھلوائیں‘‘۔ مجھے لگا کہ اب اخیر ہوگئی ہے اور سوچا کہ ایسے منہ پھٹ کو منہ نہیں لگانا چاہیے کہ اللہ جانے وہ اور کون کون سے انکشافات کر ڈالے۔ چنانچہ میں نے میٹھا بن کر نہایت ملائمت بھرے لہجے میں کہا ’’یار تم مائنڈ ہی کرگئے، میں تو تم سے مذاق کررہا تھا‘‘۔ یہ سن کر وہ دوبارہ ادب سے جھکا اوربولا ’’میرے آقا کوئی بات نہیں، بس آپ مجھے کوئی حکم دیں ‘‘۔ اس کے لب و لہجہ سے میں خوفزدہ ہو چکا تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے اندازِ گفتگو ہی بدل ڈالا اور کہا ’’یار تمہاری بڑی مہربانی اگر تم مجھے پاکستان کا وزیراعظم بنا دو‘‘۔ میرے آقا! آپ کو چند مہینے انتظار کرنا پڑے گا، ابھی وزیراعظم اور وزیراعظم بنانے والے دونوں ایک پیج پر ہیں، ویسے حتمی بات میں نجم سیٹھی سے باہمی مشاورت کے بعد بتائوں گا۔ اتنی دیر میں آپ ایک اور سگریٹ بھر لیں!‘‘۔
بشکریہ روزنامہ جنگ