قرضوں،آئی ایم ایف کو الوداع کہہ کر اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ کیا جائے،ماہرین معیشت کا مطالبہ


اسلام آباد(صباح نیوز)  جماعت اسلامی پاکستان کے زیر اہتمام موجودہ معاشی بحران اور اس کے حل کے حوالے سے منعقدہ قومی مشاورت کے بعد ماہرین  معیشت کی تجاویز پر مبنی قومی معاشی چارٹر جاری کردیا گیا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ قرضوں اور آئی ایم ایف کو الوداع کہہ کرعوام پر بوجھ کی بجائے اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ کیا جائے،انتظامی مصارف میں کمی،اسلامی نظام معیشت کا نفاذ کرکے سودی معیشت کا خاتمہ کیا جائے اور ملک میں نظام زکو و عشر کانفاذ کرتے ہوئے غیر ملکی قرضوں کے بوجھ سے نجات اور خود انحصاری کی جانب بڑھا جائے ۔

ملک کو موجودہ معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے  کے لئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کے زیرصدارت ہونے والی قومی مشاورت میں ملک کے ماہرین معیشت کے مشورہ سے قومی معاشی چارٹر کے مطابق  موجودہ انتہائی سنگین معاشی بحران کی وجہ سے پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین اور تشویش ناک دور سے گزررہاہے۔ آئی ایم ایف کی بدترین غلامی اور ان کی تمام ظالمانہ شرائط اور مطالبات پر بلا چوں وچرا عمل درآمد کی وجہ سے قوم کے احساس غلامی و بے بسی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ حکومت کی طرف سے گزشتہ 20دنوں میں پٹرول کی قیمت میں 84روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 120روپے گیس کی قیمتوں میں 45فیصد اور بجلی کی قیمت میں 9روپے فی یونٹ کے اضافہ سے عام آدمی اپنے ہی حکمرانوں سے خوفزدہ ہوگیاہے۔

اعلامیہ کے مطابق معیشت اس بند گلی تک پہنچ چکی ہے کہ جس سے نکلنے کاکوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ حد یہ ہے کہ حکومت کے لیے تیل امپورٹ کرنے کے لیے ایل سی کھولنا بھی مشکل ہوگیاہے۔ ایف اے ٹی ایف نے تمام شرائط مکمل ہونے پر سوائے شاباش کے کچھ نہیں دیااور گرے لسٹ سے نکالنا ایک مرتبہ پھر ملتوی کردیاگیا ہے۔ان حالات میں سراج الحق، امیرجماعت اسلامی پاکستان نے حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے اور اپنا حق احتجاج استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ پوری سنجیدگی کے ساتھ ملک کے نامور ترین ماہرین معیشت اور اصحاب فکر ونظر کو ایک قومی مشاورت میں جمع کیا تاکہ ملک کو موجودہ معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیاجاسکے۔ اس موقع پر ملک کے ماہرین معیشت کے مشورہ سے قومی معاشی چارٹر تیار کیا گیا جس کے  اہم نکات اس طر ح سے ہیں،(١)۔قرضوں اور آئی ایم ایف کو الوداع: ملکی و غیرملکی قرضوں پر انحصار نے ملک کی معیشت کو کھوکھلا کردیا ہے۔

اعلامیہ کے مطابق اس سال کا قومی بجٹ بھی 44366ارب روپے کے سرکاری اور 2470ارب روپے کے گردشی قرضہ کی وجہ سے3798ارب روپے کے خسارے کابجٹ ہے۔سخت ترین اور کڑی شرائط پر آئی ایم ایف کا پیکیج لیا گیاہے او ر قسط حاصل کرنے کے لئے بھی آئی ایم ایف سے جو معاہدہ ہواہے اس کی شرائط انتہائی سخت ہیں نیز اب مزید مطالبات کی فہرست سامنے آئی ہے۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ ہم بحیثیت قوم خود انحصاری،خود کفالت، سادگی اور ملکی وسائل پر انحصار کا فیصلہ کریں اور پارلیمنٹ کے فیصلہ کے تحت بطور قومی پالیسی مستقل بنیادوں پر طے کردیاجائے کہ پاکستان آئندہ کبھی بھی آئی ایم ایف کاکوئی پیکیج نہیں لے گااور آئندہ ایساکرنے والی حکومت قومی مجرم قرار پائے گی۔(٢)عوام پر بوجھ کی بجائے اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ: بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے ہر بار عوام سے ہی قربانی لی جاتی ہے۔اب بھی عوام کے لیے پٹرول، ڈیزل،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرکے ان پرناقابل برداشت مہنگائی مسلط کی گئی ہے۔اس مرتبہ قوم کامطالبہ ہے کہ سارا بوجھ اشرافیہ پر ڈالاجائے۔ تمام سول وملٹری بیوروکریسی،وزرا،پارلیمنٹیرین اور ججزکی بڑی بڑی سرکاری گاڑیوں کے استعمال پر فی الفور پابندی عائد کی جائے۔

اعلامیہ کے مطابق بطور پالیسی کردیا جائے کہ کسی کو بھی ذاتی استعمال کے لئے بطور مراعات ایک لیٹر پٹرول بھی مفت نہیں دیاجائے گانہ ہی بجلی و گیس کے مفت یونٹس فراہم کیے جائیں گے۔ اس کے برعکس غریبوں کے لیے انکم سپورٹ پروگرام، ہیلتھ کارڈ،موٹر سائیکل سواروں کے لیے رعایتی پٹرول وغیرہ کے لیے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں۔ ٹارگیٹڈ سبسڈی کے تحت ملک کے تمام غریب گھرانوں کو دس ہزار روپے ماہانہ کی مدد دی جائے۔(٣)انتظامی مصارف میں کمی: اس وقت 100روپے ریونیو کے مقابلے میں 200روپے کے سرکاری اخراجات ہیں جو قطعا ناقابل قبول ہیں۔ اس لیے فوری طور پر تمام غیر ترقیاتی اخراجات پر 30فیصد کٹ لگایاجائے۔ کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کے بعد صوبائی سبجیکٹ سے متعلق تمام وزارتیں اورڈویژن ختم کیے جائیں۔ دفاعی اداروں میں غیر جنگی اخراجات میں بھی 30فیصد کمی کی جائے۔ بیوروکریسی (سول و ملٹری) عدلیہ کے ریٹائرڈ افسران کی مراعات فی الفور نصف کی جائیں۔ بھاری مشاہروں پر کنٹریکٹ ملازمتیں ختم کی جائیں۔نیز ان 85اداروں کارپوریشنوں کے بارے میں جوکہ مسلسل خسارے پر چل رہی ہیں۔ اور جن پر ہر سال 500ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی مشاورت سے ٹھوس اور مستقل فیصلہ کیاجائے۔(٤)اسلامی معیشت کا نفاذ ۔ سودی معیشت کا خاتمہ: ملک میں حقیقی تبدیلی اسلامی نظام بالخصوص اسلامی نظام معیشت کے نفاذ کے ذریعہ ہوگی ۔

اعلامیہ کے مطابق معیشت کو سود سے پاک کرنا انتہائی لازمی ہے۔ 26رمضان المبارک 1443ھ کے وفاقی شرعی عدالت کے تاریخی فیصلے کے بعد قوم حکومت سے توقع کرتی ہے کہ وہ فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے تمام سودی قوانین ختم کرکے متبادل قانون سازی کا عمل مکمل کرے گی۔ اس سال کے بجٹ میں Debt servicesیعنی سود کے لئے 3980 ارب روپے رکھے گئے ہیں اس میں سے 85 فیصد سود اندرون ملک کمرشل بینکوں کا ہے جو بجٹ کا 41 فیصد ہے اس لئے لازم ہے کہ حکومت اندرون ملک قرضوں پر سودکا خاتمہ کرے اور قرضوں کو ایکٹویٹی اور مضاربہ میں تبدیل کرلے۔ تمام بنکنگ و نان بنکنگ سیکٹر اورمالیاتی معاہدوں اور ملکی و غیر ملکی قرضوں کو شریعت کے تقاضوں کے مطابق کیا جائے،ہاؤس بلڈنگ، زرعی و دیگر قرضوں پر سود معاف کیاجائے۔ حکومت اور سٹیٹ بنک کنونشنل بنکنگ کو بلاسود بنکنگ میں بدلنے کاروڈ میپ دے۔ ظاہر ہے کہ اللہ و رسول سے جنگ کرکے تو معیشت بحال نہیں ہوسکتی۔(٥)نظام زکو و عشر کانفاذ:زکوو عشر ایک ایسا دینی فریضہ ہے جو معاشرے میں غربت کے خاتمے، یتامی و بیوگان کی کفالت اورنیکی کے فروغ کا الہامی چارٹر ہے۔ اس کاپوٹینشل اتنا ہے کہ اگر 7کروڑ صاحبان نصاب سے مکمل زکو و عشر لیا جائے تو ہر غریب گھرانے کو سالانہ اڑھائی لاکھ روپے دیئے جاسکتے ہیں۔ نظام زکو و عشر کے صحیح نفاذ سے غربت کو مکمل طور پر ختم کیاجاسکتا ہے۔

اعلامیہ کے مطابق پاکستان میں روزانہ40ارب روپے کے صدقات دئے جاتے ہیں اس لئے ہر علاقہ میں صدقات بنک قائم کئے جائیں تو غربت کے خاتمے میں بڑی مدد مل سکتی ہے،(٦) غیر ملکی قرضوں کے بوجھ سے نجات: پاکستان پر آئی ایم ایف، ورلڈبنک و دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے بوجھ کو ختم کرنے کے لیے ارجنٹینا کی طرح Debt equity swapکاراستہ نکالا جاسکتا ہے۔ یعنی قرضوں کو لوکل کرنسی میں پاکستان میں ہی انویسٹمنٹ میں تبدیل کیاجائے۔ البتہ نفع کو فارن کرنسی میں منتقل کرنے کی سہولت ہو۔ پاکستان سے لوٹی ہوئی بیرون ملک دولت کو واپس لانے کے لئے سنجیدہ کوشش کی جائے۔ سکوک کے اجرا کی اسکیم جاری کی جائے ۔ اسی طرح بیرون ملک پاکستانیوں سے زر مبادلہ لینے کے لیے ہر شہر میں قیمتی سرکاری کمرشل اراضی کوزر مبادلہ میں ادائیگی کی شرط پر پرکشش قیمتوں پر فروخت کیاجائے۔ اس سے آئی ایم ایف کی قسط کے مطابق زرمبادلہ جمع ہوسکتا ہے۔

اعلامیہ کے مطابق اگر حکومت کی دیانت داری اور نیک نیتی پر قوم کو یقین ہو تو اندرون و بیرون ملک سے قرضہ اتار و مہم کے دوران کئی ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔(٧) خود انحصاری پروگرام:آئی ایم ایف سے نجات کے لیے جن ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ان میں مندرجہ ذیل انتہائی ضروری ہیں۔ میکرو اکنامک پالیسی کے ذریعے بزنس اور سروسز سیکٹر کی بجائے زراعت اور صنعت کو ترجیح دی جائے۔زرعی انقلاب: اس وقت ہم فوڈ آئٹمز درآمد کررہے ہیں۔ 30لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ خوردنی تیل، دالوں اور فوڈ آئٹمز پر 7ارب ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ خوراک میں خود کفالت،تیز رفتار زرعی انقلاب کی ضرورت ہے۔ بنجر زمینوں کی آبادکاری، بہترین بیج کی فراہمی،کاشتکار کو سہولت اور تحقیقات وغیرہ کے ذریعے فی ایکڑ پیداوار کو دوگناکرنے کے اہداف حاصل کیے جائیں۔ کپاس،گندم، دالوں، خوردنی تیل،گنا وغیرہ کی لازمی کاشت کے لیے قانون سازی کے ذریعہ زوننگ کی جائے نیز کسانوں کوفصلوں کی بہترین قیمت دی جائے۔

اعلامیہ کے مطابق تجارتی خسارہ میں کمی: اس سال تجارتی خسارہ 58فیصد اضافے کے ساتھ 43.3ارب ڈالر ہواہے۔ یعنی ہر 100ڈالر ایکسپورٹ کے مقابلے 220ڈالر کی امپورٹ ہے۔اس لیے فری ٹریڈ ایگریمنٹ (FDA) میں ایکسپورٹ کا اضافہ مدنظر رکھاجائے نیز FDIفارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں 50فیصد سے زائد نفع منتقل کرنے کی اجازت نہ ہو۔ گزشتہ مالی سال کے گیارہ مہینوں میں 30ارب کی ایکسپورٹ کے مقابلے میں 75ارب امپورٹ ہوئی ہے۔ اس لیے تجارتی خسارہ میں کمی کے لیے درآمدات پر بعض پابندیاں لازمی کی جائیں مثلا سامان تعیش کا سمیٹکس،فوڈبیوریجز، بلڈنگ و فرنیچر آئٹمز۔ پالتو جانوروں کی خوراک،شیمپو اور نان کمرشل مہنگی گاڑیوں وغیرہ کی درآمد پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ برآمدات میں اضافہ کے لیے نئے اکنامک و ٹیکس فری زونز بنائے جائیں۔متبادل توانائی:فرنس آئل سے بجلی 20روپے کوئلہ سے 6روپے اور ہائیڈرو سے4روپے فی یونٹ تیار ہوتی ہے۔ ہمیں انرجی کے قابل تجدید متبادل ذرائع کو اختیارکرنا ہو گاجس میں سولر،ونڈ، ہائیڈر ل اور کوئلہ سے بننے والی بجلی شامل ہے۔ برآمدات میں اضافہ کے لیے سستی بجلی ضروری ہے۔

اعلامیہ کے مطابق اس مقصد کے لیے آئی پی پیزسے غیر متوازن معاہدوں پر نظرثانی کی جائے۔ نئے معاہدات میں معاہدے کی خلاف ورزی کرنے اور بلیک میل کرنے والی کمپنیوں کو ہمیشہ کے لیے بلیک لسٹ کرنے کی شِق شامل ہو۔ صرف ان کمپنیوں سے معاہدے کیے جائیں جو ملکی ایندھن کو قبول کریں۔ تھرکول: جس کا معیار 6ہزار سے گیارہ ہزار بی ٹی یو ہے اور جس کے ذخائر تین سو سال تک کی ضروریات کے لیے کافی ہیں،اس کے ذریعے سستی بجلی بنائی جائے۔ سولر پینل انڈسٹری ملک میں قائم کی جائے۔ آف گرڈ سولر پاور کو ترجیح دی جائے۔ ہائیڈرو الیکٹرک پاور ترجیح اول ہو۔ زیروہیڈ ٹربائن کااستعمال کرکے نہروں سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایک سال میں تمام سرکاری عمارتوں کو سولر پر تبدیل کیا جائے بلڈنگ کوڈ میں تبدیلی کے ذریعہ تمام بڑی عمارتوں کے لئے سولر سسٹم اپنانالازم کر دیا جائے۔ واپڈا نیٹ میٹرنگ کے عمل کو تیز رفتاری سے مکمل کرے۔

اعلامیہ کے مطابق ریلوے کو فروغ: بار برداری کے لیے ریلوے پر توجہ دی جائے اس پر 1/3ایندھن خرچ ہوتا ہے۔ لمبے فاصلوں کے لیے کینٹنرز ٹرینیں چلائی جائیں۔کرپشن کا خاتمہ: کرپشن میں 140نمبر پر جانے کے نتیجے میں ہمارا سارا سسٹم تباہ ہورہاہے۔کرپشن کے خاتمہ کے لیے ملک بھر میں خدا خوفی کی فضا پیدا کی جائے۔نیزحکمران خود مثال بنیں ایف بی آر،نیب، اینٹی کرپشن پبلک اکاونٹس کمیٹیوں کے قوانین اور کارکردگی کے جائزہ کے لیے خود مختار کمیشن قائم کیاجائے۔صدر ، وزیراعظم ، وزرا اعلی وغیرہ وغیرہ پر ذاتی کاروبار کرنے پر مکمل پابندی ہو۔معاشی اہداف،ریونیواضافہ اور ٹیکس کلچر: ریونیو میں اضافہ کے بغیر بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ شرح ٹیکس کم کرکے ٹیکس نیٹ بڑھایاجائے۔ڈائریکٹ ٹیکس بڑھائے جائیں اوران ڈائریکٹ ٹیکسوں میں کمی کی جائے۔

وزیر خزانہ کے مطابق 3000ارب روپے کے ٹیکس چوری ہو رہی ہے حکومت اطلاع دینے کے بجائے اس ٹیکس کی وصولی کے انتظامات کرے۔ تیز رفتار معاشی ترقی کے لیے بہترین اہداف مقرر کیے جائیں۔ جی ڈی پی گروتھ ریٹ 6.5فیصدسے زیادہ ہو۔ افراط زر کا ہدف 11.5فیصد رکھا گیا۔ اسے 9.5فیصد رکھا جائے۔ GDP ٹیکس نسبت کا ہدف 9-2 % رکھا گیا ہے جو انتہائی کم ہے اسے %15 سے زیادہ ہونا چاہیئے۔ ایجوکیشن GDPکا4.5فیصد اور صحت 5فیصد ہو۔ کرنٹ اکاونٹ خسارہ کو 13.8ارب ڈالر سے کم کرے۔ 9.4ارب ڈالر مقرر کیاجائے۔ تجارتی خسارہ کو 43.3ارب ڈالر سے کم کرکے 20ارب ڈالر تک لایاجائے۔ زر مبادلہ کے ذخائر 35ارب ڈالر تک بڑھائے جائیں۔سمندرپار پاکستانیوں کی ترسیلات میں اضافہ کی کوشش کی جائے، ہائی ٹیک انڈسٹری اور آئی ٹی سیکٹر و سافٹ وہارڈ ویئر ٹیکنالوجی کی تیاری اور برآمدات کے لیے بجٹ مختص کیاجائے۔ یوتھ کے لیے بلاسود قرضوں کا بڑا پیکیج دیاجائے۔ 20بیس ایکٹر سے زائداراضی پر زرعی ٹیکس عائد کیاجائے۔