پی ٹی آئی۔ امریکہ مخالف یا صرف بائیڈن مخالف… تحریر محمود شام


پاکستان تحریک انصاف دنیا کی واحد سپر طاقت امریکہ کو سر بازار للکار رہی ہے۔ معلوم نہیں تاریخ کے اوراق میں عمران خان نے جھانکا ہے یا نہیں کہ ایسے چیلنج دینے والوں کا حشر کیا ہوتا رہا ہے۔سفید ہاتھی بڑا منتقم مزاج ہے۔حقیقی آزادی کی تلاش جہاں جاری ہو۔ وہاں اصولا جدو جہد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ساتھ ساتھ ہونی چاہئے۔ 2014 کے دھرنے میں بھی پارلیمنٹ کا میدان خالی کردیا گیا تھا۔ اب بھی وہ میدان میسر ہونے کے باوجود 14رکنی اتحاد کے حوالے کردیا گیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ 35سال میں کسی پارٹی کو اتنی عوامی جذباتی حمایت نصیب نہیں ہوئی ہے۔ چاروں صوبوں اور دونوں اکائیوں میں پی ٹی آئی کو مقبولیت حاصل ہے۔ اگر چہ یکساں نہیں ہے۔امریکہ مخالفت ایک اصولی موقف ہے مگر یہ صرف تقریروں اور نعروں تک محدود نہیں رہتا ہے۔ اس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔قدم قدم پہ قیامتیں رونما ہوتی ہیں۔ امریکہ کی اپنی ایک بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ بھی ہے اور وہ مختلف ممالک کی مقامی اسٹیبلشمنٹوں سے بھی رابطے میں رہتا ہے۔ ایک سپر طاقت کے یہی آداب ہوتے ہیں۔ پاکستان امریکہ ستمبر1947 سے ہی سفارتی رشتے میں بندھ گئے تھے۔ روس اور چین کی ہمسائیگی کے باعث امریکہ پاکستان میں اپنی موجودگی رکھنے کا خواہاں رہا ہے۔ پشاور کے قریب بڈھ بیر کے ہوائی اڈے سے ایک امریکی جاسوس طیارہ اڑا تھا۔ جسے روس میں گرالیا گیا۔ روسی وزیر اعظم خروشیف نے پاکستان کے گرد سرخ نشان لگادیا تھا۔ پھر چین سے لازوال دوستی نے بھی پاکستان کو امریکہ کیلئے اہم کردیا۔ اس75سالہ پس منظر میں امریکہ پاکستان کی حالیہ عوامی مزاحمت کا جائزہ لے رہا ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کے مقابلے میں صدر بائیڈن بہتر لگتے ہیں لیکن خود امریکی تجزیہ کاروں کی نظر میں بائیڈن امریکہ کے کمزور ترین صدور میں سے ہیں۔ جن کے دور میں عالمی تصور دھندلارہا ہے۔ اب یہ پاکستان تحریک انصاف کو واضح کرنا چاہئے کہ وہ امریکہ مخالف ہیں یا صرف بائیڈن مخالف۔ پھر پارٹی کو انہی بنیادوں پر تنظیم نو کرنا ہوگی۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ اب تک امریکہ مخالفت صرف نعروں تک ہے۔ امریکہ کے پرچم نہیں جلائے جارہے ہیں۔ جس سے امریکی عوام کو یہی پیغام پہنچتا ہے کہ امریکہ کیخلاف جذبات صرف بائیڈن انتظامیہ کے فیصلوں پر مبنی ہیں۔

امریکہ مخالفت کے تقاضے عالمی بھی ہیں اور مقامی بھی۔ بین الاقوامی سطح پر تو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ امریکہ کے عالمی متبادل کیا کیا ہیں۔ پہلے جب کمیونزم تھا تو سوویت یونین سب سے موثر متبادل بلاک تھا۔ اب بھی روس ہے۔ لیکن نظریاتی نہیں۔ البتہ چین اب بھی نظریاتی بنیادوں پر موثر متبادل ہے۔ چین نے سوشلزم کو برقرار رکھا ہے۔ ان کے ہاں بار بار یہ جملہ استعمال کیا جاتا ہے کہ سوشلزم چین کی خصوصیات کے ساتھ۔ پاکستان کے چین کیساتھ تعلقات ہمیشہ سے مثالی رہے ہیں۔ لیکن سوشلزم کو کبھی اپنے ہاں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بقول حبیب جالب:

چین اپنا یار ہے

اس پہ جاں نثار ہے

پر وہاں ہے جو نظام

اس کو دور سے سلام

لیکن اگر پاکستان میں کسی پارٹی کو امریکہ مخالف راستہ اپنانا ہے۔ تو اسے سوشلزم کے قریب جانا ہوگا۔ پاکستان میں متبادل سیاسی قوتیں تلاش کرنا ہوں گی۔بائیں بازو کے ہم نواؤں میں مل سکتی ہیں۔ اس کے لیے تحقیق کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ چین نے اپنی تنہائی سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کی بنیاد ہی خود داری، خود کفالت اور خود انحصاری پر ہے۔ اس نے اپنے وسائل، اپنے عوام کے زور بازو سے معاشی قوت بن کر دکھایا۔ پاکستان میں خود کفالت کا لفظ ہی لغت سے نکال دیا گیا ہے۔ کوئی ریکوڈک، سیندک،ڈھوڈک، بدین، تھر،اٹک، سوات کی بات نہیں کرتا۔ حالانکہ استحکام ہمارے پہاڑوں، ریگ زاروں، غاروںاور کھیتوں سے ہی مل سکتا ہے۔ امریکہ مخالفت کا سب سے اولیں تقاضا یہ ہے کہ ایک ملک اپنے وسائل پر کیسے مستحکم ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے با خبر اکنامسٹوں کی ضرورت ہے جو اپنے معدنی قدرتی وسائل، ان کے ذخائر سے اعداد و شمار سے واقف ہوں۔ بائیں بازو کے ساتھ ساتھ امریکہ کی اسرائیل نوازی کی وجہ سے مذہبی پارٹیاں بھی امریکہ کی مخالف ہیں۔ ان سے رابطے بھی تقویت کا باعث ہوسکتے ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر امریکہ مخالفت میں یورپ میں بھی ہم خیالوں کی تلاش فائدہ مند ہوسکتی ہے۔ مشرق وسطی میں امریکہ کے ستائے ہوئے موجود ہیں۔ خود امریکہ میں بہت سے گروپ ایسے ہیں جو حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ بہت سے سینیٹر اور کانگریس کے ارکان ایسے ہیں جو بائیڈن کی پالیسیوں کے ناقد ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں عوامی سطح پر اس وقت امریکہ مخالف جذبات شدت سے پائے جاتے ہیں۔ ان کا رخ درست سمت میں موڑنے کی ضرورت ہے۔ اور وہ سمت خود کفالت ہے کہ امریکی مصنوعات کے بغیر زندگی گزارنے کا سلیقہ اختیار کیا جائے۔ امریکہ میں مقیم قریبا چھ لاکھ پاکستانیوں کے خاندان یہاں ہیں۔ پاکستان میں قریبا پانچ ہزار امریکی سفارتی اور غیر سفارتی فرائض کے لیے موجود ہیں۔ جبکہ سی پیک کی وجہ سے چینی شہریوں کی تعداد ساٹھ ہزار کے قریب ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کے سارے لیڈر کیا واقعی امریکہ مخالف ہیں۔ امریکی مخالفت نظریاتی بنیادوں پر ہے یا صرف تحریک عدم اعتماد اور ڈونالڈلو کے حوالے سے ہے۔ تناظر کو وسیع کرکے یہ جاننا ہوگا کہ کیا امریکہ کو پاکستان کی اب بھی ضرورت ہے، اس کے محل وقوع کی وجہ سے۔ افغانستان سے فرار کے باوجود افغانستان میں امریکہ کے مفادات ہیں اور یہ پاکستان کے تعاون کے بغیر محفوظ نہیں ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفارت خانہ اسلام آباد اور کراچی کا قونصل خانہ دنیا میں امریکہ کے بڑے سفارت خانوں میں سے ہیں۔

امریکی مصنفین، سینیٹرز اور تھنک ٹینکوں کی مشترکہ رائے یہ ہے کہ پاکستان نہ تو کامیاب ریاست ہے اور نہ ہی ناکام۔ یہ رائے نہیں ہے بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہے کہ پاکستان کبھی کامیاب ریاست نہ ہو اور نہ ہی مکمل طور پر ناکام۔ بلکہ درمیان میں مختلف مسائل میں مبتلا اپنی بقا کے لیے کوشش کرتی ریاست رہے۔ اب تک کی پاکستانی حکومتیں امریکی دباؤ میں اسی کشمکش میں رہی ہیں۔ خود کفالت اور اپنے وسائل پر انحصار کرنے کی کوشش کی بجائے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے دروازے ہی کھٹکھٹائے گئے۔ جب تک پاکستان اپنے وسائل پر زندگی گزارنے کا راستہ اختیار نہیں کرے گا۔ اسی طرح معلق رہے گا۔ پی ٹی آئی کے ہاں بھی اپنے وسائل پر انحصار کی بات نہیں ہوتی ہے۔کسی وقت یہ بات بھی کریں گے کہ امریکہ پاکستان پر اپنا کنٹرول براہ راست رکھنا چاہتا ہے یا کسی اور ملک کے ذریعے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ