سسکتہ معاشرہ —— عامر لیاقت کی موت۔۔۔تحریر: شکیل احمد ترابی  


ڈاکٹر عامر لیاقت اس دنیا سے چلے گئے۔
اِنَّا لِلہ وَ اِنَّا اِلَیہِ راجِعُون۔
اللہ ان کی آخرت کی منزلیں آسان کرے۔آمین

کوئی زندہ ہو تو اُس سے اتفاق و اختلاف کیا جاسکتا ہے۔اختلاف کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں اخلاقیات کو دفن کیا جارہا ہے۔میں باالعموم اُن کے پروگرام نہیں دیکھتا تھا ۔ مگر ان کی تیسری شادی کے بعد جو خاک ہمارے ذرائع ابلاغ اور سماجی صفحات پر لوگوں نے اُڑائی اُس کی اجازت ہمارا دین دیتا نہ کوئی صحت مند معاشرہ۔ کردار کشی  کے بعد، تین ہفتے قبل ڈاکٹر عامر نے تقریباً پون گھنٹہ کی ایک ویڈیو ریکارڈ کروائی

جسے میں نے دیکھا۔ اُس ویڈیو میں عامر لیاقت نے بہت اہم سوال اُٹھائے مگر افسوس کہ کسی نے جواب ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی۔
ہمارے رب نے کہا کہ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْـرًا يَّرَهٝ۔وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٝ (سورہ الزلزال)۔ پھر جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔
اس دیکھنے سے مراد آخرت کی سزا و جزا ہے۔ دُنیا میں کسی کو نِکو بنا دینا نہیں ہے۔جیسے ہمارا رب کھلی برائی کو پسند نہیں کرتا ایسے ہی وہ انسانوں کے گناہوں کی پردہ پوشی کرنے والا ستار العیوب رب ہے۔ انسانوں کو معاف بھی کرتا ہے اور کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ کسی انسان کو معاشرے میں اس قدر بدنام کرکے رکھ دے۔ ڈاکٹر عامر کی زندگی میں اُن کی کسی لغزش پر توجہ دلائی جاسکتی تھی۔ دوسری یا تیسری شادی کرنے کے طریق کار میں کسی غلطی کا شائبہ ہو سکتا ہے مگر کوئی خاتون اپنے خاوند کی برہنہ ویڈیو بنا کر اُسے پوری دنیا میں پھیلا دے۔ خاتون کے قبیح جرم پر ہم نے اْسے مظلوم اور ڈاکٹر عامر لیاقت کو معاشرے کا بدترین فرد ثابت کیا۔
لگتا ہے ہم ایک شتر بے  مہار معاشرے میں رہتے ہیں جہاں جو جی چاہے کرتا پھرے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہمارے ملک میں “ اعلی و عظمی “ عدالتیں موجود ہیں۔ پیمرا اور پی ٹی اے موجود ہے یہ سب ادارے کس مرض کی دوا ہیں۔؟
وہ غلط یا صحیح تھے وہ جانیں اور اُن کا رب( ہم اُن کے آسان حساب کی رب سے دعا کرتے ہیں۔) مگر سوال یہ کہ اتنے بڑے اداروں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ وہاں کئی قائمہ کمیٹیاں موجود ہیں۔ اسپیکر اورکسی قائمہ کمیٹی کو اس بات کا خیال نہ آیا کہ وہ اُس خاتون کو نوٹس جاری کرتیں ، خاتون کو کسی انصاف و مدد کی ضرورت تھی تو اسے فراہم کیا جاتا مگر اُس خاتون سے سوال کیا جاتا کہ کس قانون اور روایت کے مطابق اُس نے اپنے خاوند کی برہنہ ویڈیو بنا کر بدنام ہی نہ کیا بلکہ اُسے مریض بنا دیا۔؟
یہ تحریر ڈاکٹر مرحوم کی بخشش کا سبب بن سکتی نہ کوئی اور فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ سسکیاں لیتے معاشرے کو موت سے بچایا جائے ۔ ہمارے ادارے صرف درخواستوں اور پٹیشنز کا انتظار نہ کریں بلکہ اس طرح کی بے حیائی اور ہتک عزت کے اقدامات کیخلاف بند باندھنے کی ازخود کوشش کریں۔ وہ ادارے جن کو ان برائیوں کیخلاف اقدامات کرنے تھے وہ خود خفیہ ویڈیوز اور دیگر اقدامات سے لوگوں کے چُھپے گوشے سامنے لا کر انھیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا یا بصورت دیگر بدنام کرنے پر لگے ہیں۔ ان اداروں کی بھی اصلاح احوال کی ضرورت ہے۔
ہم سب کسی نہ کسی مقام پر ذمہ دار ہیں، اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مطابق ہم سے ان ذمہ داریوں سے متعلق باز پُرس ہوگی۔
آئیں ہم سُدھر جائیں وگرنہ ہماری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔