کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کو بھارتی عدالت نے بے بنیاد اور جعلی مقدمات میں یکطرفہ فیصلہ کرتے ہوئے عمر قید کی سزا سنا دی۔ جہاں بھارتی عدلیہ کا یہ بے بنیاد فیصلہ بھارت کے نظام عدل پہ کئی سوالات اٹھاتے ہوئے بھارت کے سیکولرازم کے کھوکھلے دعووں پر سے پردہ اٹھا کر بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لاتا ہے۔ وہیں کشمیریوں کے وکیل اور شہ رگ کا راگ الاپتے پاکستان کے پچیس مئی کے رویے پر بھی کئی سوالات اٹھاتا ہے۔
سابق وزیراعظم اور چئیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے پچیس مئی کے دن لانگ مارچ کا اعلان کیا تو اس سے قبل ہی بھارتی عدلیہ نے یاسین ملک کو سزا سنائے جانے کے لئے پچیس مئی کا دن مقرر کر رکھا تھا۔ عمران خان کے اسی دن لانگ مارچ کے اعلان کے بعد کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک اور بیٹی رضیہ سلطانہ نے پریس کانفرنس کے دوران عمران خان سے ہاتھ جوڑ کر اپیل کی کہ وہ اپنا لانگ مارچ ایک یا دو دن آگے کر لیں۔ مشعال ملک کا کہنا تھا کہ وہ ،ان کی بیٹی اور پوری کشمیری قوم پچیس مئی کے دن یاسین ملک کے لئے نکل رہے ہیں لہذا آپ بھی اس دن کو کشمیری قوم کے نام کر دیں اور اس احتجاج میں ان کے ساتھ شامل ہوں اور اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سب مل کر بھارت پر پریشر بڑھائیں تا کہ بھارت یاسین ملک کے معاملے میں غیر قانونی اقدامات سے گریز کرے۔ عمران خان جو کہ خود کو کشمیری قوم کا سفیر کہتے ہیں ان سے کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کی دس سالہ بیٹی رضیہ سلطانہ نے بھی اپیل کہ ” عمران خان انکل مودی میرے پاپا کو مارنا چاہتا ہے۔ آپ اپنا پروگرام ایک یا دو دن بعد کر لیں اور اس دن ہمارے ساتھ مل کر میرے پاپا کے لئے آواز اٹھائیں”۔ مگر کشمیری قوم کے سفیر کا دل نہ مشعال ملک کی دہائیاں پگھلا سکیں اور نہ ہی ننھی رضیہ سلطانہ کی فریاد ۔
کیا فرق پڑتا تھا اگر تحریک انصاف اپنا لانگ مارچ ایک یا دو دن آگے کر دیتی؟ لانگ مارچ کا فیصلہ ملتوی کرنے کی اپیل تو نہیں کی گئی تھی۔ مارچ کی تاریخ ایک یا دو دن بعد کرنے کی اپیل ہی کی تھی ۔ مگر اقتدار کی ہوس میں پاگل ہوئے سیاست دان عملی اقدامات تو دور کی بات اپنے زبانی دعوؤں کا پاس بھی نہیں رکھ سکے۔
بھارت ہمارا کھلم کھلا دشمن ہے۔ بھارت کشمیر سے نہ صرف علانیہ دشمنی نبھا رہا ہے بلکہ کشمیریوں کی نسل کشی کے لئے ہر ممکن اقدامات کرتا آ رہا ہے۔ بھارت نے آج تک جتنے بھی زخم ہمیں دئیے ہیں وہ تو شائد مندمل ہو جائیں مگر پچیس مئی کے دن کشمیری قوم کے نام نہاد وکیل پاکستان کی طرف سے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا اس بے حسی نے ایسا گہرا زخم دیا ہے جس کا بھرنا شاید ممکن نہیں۔ کیا اس بے حسی کا مظاہرہ اس لئے کیا گیا کہ یاسین ملک کشمیر کی خود مختاری چاہتے ہیں؟
اس دن جہاں ایک طرف بھارت عظیم کشمیری حریت لیڈر یاسین ملک کو سزا سنانے جا رہا تھا وہیں دوسری طرف پاکستانی سیاستدان اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیا اور دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں مصروف تھے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنما اپنے اپنے حلقوں سے اپنے قافلے لے کر لانگ مارچ کے لئے نکلے تو دوسری طرف شہباز شریف کی حکومت نے پورے اسلام آباد کو بند کر دیا۔ پاکستانی میڈیا پورا دن لانگ مارچ اور حکومتی اقدامات کو لائیو کوریج دیتا رہا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشعال ملک اور کشمیری قوم کا احتجاج دب کر رہ گیا۔ اور دنیا کی نظریں یاسین ملک اور کشمیری قوم کے احتجاج سے ہٹ کر اسلام آباد پہ مرکوز ہو گئیں۔ یسین ملک کو بھارتی عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد عدلیہ بھی حرکت میں آتی ہے اور تحریک انصاف کو اسلام آباد میں جلسے اجازت مل جاتی ہے۔ اس کے بعد شہ رگ کے دعویدار پاکستانی سیاستدانوں کی جانب سے چند مذمتی بیانات کے علاوہ بھارتی ناطم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ تھما دیا جاتا ہے اور کشمیری قوم کو یہ کہہ کر بہلا دیا جاتا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔
کچھ سوالات اگرچہ تلخ ہیں لیکن اٹھتے تو ہیں۔ پچھتر سالوں سے آج تک بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے ۔ اب تک لاکھوں کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا یے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور نجانے کب تک جاری رہے گا۔ ہزاروں ماؤں کی گودیں اجاڑی جا چکی ہیں، لاکھوں کشمیری بچے یتیم ہو چکے ہیں مگر پاکستان کی اس اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی حمایت نے کشمیریوں کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ جس کشمیر کے پانیوں پہ پورے پاکستان کی زراعت اور معیشت کھڑی ہے اس کشمیر کے باسیوں کے خون کے بدلے میں اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت نے کشمیریوں کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ بھارتی ناظم الامور کو تھمائے جانے والے احتجاجی مراسلوں نے کتنے کشمیریوں کا خون بہنے سے روکا ہے۔ ان احتجاجی مراسلوں نے اور اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت نے بھارتی جیلوں میں قید کتنے بے گناہ کشمیریوں کو آزادی دلائی ہے؟ براہ مہربانی ہمیں اس تھالی کا نام بتا دیا جائے جس میں اس اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کے لالی پاپ کو رکھ کر چاٹتے رہیں۔
2019 میں بھارت نے جب پاکستان پر بالاکوٹ کی حدود پر حملہ کیا۔ اس حملے کے نتیجے میں کسی انسانی جان کا ضیاع تو نہیں ہوا البتہ بھارتی حملے میں ایک پاکستانی کوا مارا گیا۔ چند ہی گھنٹوں کے دوران پاکستانی فصائیہ نے ہندوستان کو وہ سبق سکھایا کہ پوری دنیا میں بھارت کی جگ ہنسائی ہوئی۔ ایک پاکستانی کوے کے بدلے میں دو انڈین طیارے مار گرائے گئے۔ کچھ انڈین پائلٹ ہلاک ہوئے اور ایک پائلٹ کو گرفتار کیا گیا اور پوری دنیا کے سامنے بھارت کا مذاق بنا کر رکھ دیا گیا۔ بھارت آج تک اس خفت کو مٹا نہیں پا رہا۔
آج ہر کشمیری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا ایک پاکستانی کوے کی جان لاکھوں کشمیریوں کے خون سے زیادہ قیمتی تھی کہ پاکستانی کوے کی ہلاکت پر پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا گیا مگر لاکھوں بے گناہ کشمیریوں کے خون کے بدلے میں محض مذمتی بیانات اور سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی حمایت کی تھپکی دے کر کشمیری قوم کو بہلا دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو خدارا شہ رگ کا راگ الاپنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جہاں یاسین ملک کے ساتھ سنگین نا انصافی ، مشعال ملک اور یاسین ملک کی بیٹی رضیہ سلطانہ کی فریادیں اور پاکستانی سیاستدانوں کے بے حس رویے الفاظ میں تلخی لاتے ہیں وہیں کشمیری وزیراعظم تنویر الیاس اور ان کی جماعت کے دیگر اراکین کے پچیس مئی کے رویے نے الفاظ میں مزید زہر گھول دیا ہے۔ جس دن کشمیری قوم اپنے عظیم لیڈر یاسین ملک کی جعلی مقدمات میں سزا کے خلاف سراپا احتجاج تھی اور عمران خان نے ان کی اہلیہ اور بیٹی کی فریاد کو بالاطاق رکھتے ہوئے اپنا لانگ مارچ کا پروگرام ایک یا دو دن آگے بڑھانے کی زحمت نہیں کی اسی دن تنویر الیاس اور ان کے ساتھی اپنی قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اپنے آقا عمران خان کی خوشنودی کی خاطر بیس کیمپ چھوڑ کر غیر ریاستی لانگ مارچ میں شرکت کے لئے چلے گئے۔
یہاں تنویر الیاس اور ان کے ساتھیوں سے چند سوالات کروں گی۔ تنویر الیاس صاحب! آپ کشمیریوں کے وزیراعظم کے منصب پر بیٹھے ہیں یا تحریک انصاف کے وزیراعظم کے منصب پر ہیں؟ آپ کو یاسین ملک کی اہلیہ اور بیٹی کی فریادیں کیوں نہ سنائی دیں؟ آپ کو کشمیری قوم کا درد کیوں نہ محسوس ہوا؟ آپ کو کشمیر کے وزیراعظم کا منصب دیا گیا ہے آپ نے اپنے اس عہدے کی لاج کیوں نہ رکھی؟ اگر آپ کے لئے اپنی ریاست ، اپنے عوام کے درد سے زیادہ اپنے غیر ریاستی آقا عمران خان کی خوشنودی اہم ہے تو یقین کریں کہ آپ اس ریاست کا وزیراعظم رہنے کا بھی حق نہیں رکھتے۔ آپ اس ریاست اور کشمیری عوام کی نمائندگی کا بھی کوئی حق نہیں رکھتے۔ آپ کو اپنے آقا کی خوشنودی اور ریاست جموں کشمیر کی نمائندگی میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہو گا۔
بھارتی عدالت کا یہ یکطرفہ فیصلہ ہماری جدوجہد آزادی کو کسی صورت دبا نہیں سکتا بلکہ جس طرح برہان وانی کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر میں نئی روح پھونکی تھی اسی طرح یاسین ملک کی جعلی مقدمات میں سزا نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ لگتا ہے کہ بحیثیت کشمیری اب ہمیں دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی منزل کا خود تعین کرنا پڑے گا۔
نہ شہ رگ ہوں نہ اٹوٹ انگ ہوں
میں تو اپنی ہی مٹی کے سنگ ہوں
ہے حاصل مجھے بھی اپنے وجود کا حق
مانو تو امن نہ مانو تو جنگ ہوں۔
Load/Hide Comments