اقتدار میں واپسی کا راستہ… تحریر مظہر عباس


سابق وزیر اعظم عمران خان نہ تو ٹیپو سلطان ہیں نہ ہی محمود غزنوی وہ پاکستان کی ایک سیاسی حقیقت ہیں اور اس وقت مقبول ترین لیڈر۔ باقی فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔ اقتدار میں آنے کا راستہ خاصہ کٹھن ہوتا ہے سمجھوتہ تو بہرحال کرنا پڑتا ہے کوئی ڈر کے کرتا ہے توکوئی لڑ کر کوئی اصول پر جان دے دیتا ہے تو کوئی اصولوں پر سمجھوتہ کر لیتا ہے۔ لہذا سیاست کو اگر سیاسی ٹچ تک ہی محدود رکھا جائے تو بہتر ہے۔

پاکستان تحریک انصاف اس وقت شاید واحد سیاسی جماعت ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات میں اس کو چاروں صوبوں سے سیٹیں مل سکتی ہیں۔ مگر کیا وہ دو تہائی اکثریت حاصل کر سکتی ہے۔ شاید یہ اب کسی بھی جماعت کے لیے ناممکن سا ہوتا جا رہا ہے۔

خان صاحب بہرحال ہمیشہ پر اعتماد رہتے ہیں مگر بعض فیصلے جلد بازی میں بغیر کسی حکمت کو سامنے رکھ کر کرجاتے ہیں جیسا کو قومی اسمبلی سے 150کے قریب  ایم این ایز کے استعفے۔ یہ منطق سے بالاتر فیصلہ تھا خاص طور پر اگر آپ سینٹ میں اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں اور ایک صوبہ میں حکومت بھی ہے۔ یہی غلطی 2014میں ہوئی تھی۔

اگر امپورٹڈ حکومت کی تھیوری درست بھی ہے تب بھی اعتراض یا احتجاج حکومت کی تبدیلی پر اسمبلی پر نہیں کیونکہ اسی اسمبلی نے آپ کو بھی وزیر اعظم منتخب کیا تھا۔

سیاسی تحریکوں میں حکمت عملی تبدیل کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں مگر جس طرح اچانک 26 مئی کو اسلام آباد پہنچنے کے بعدمارچ 6دن کے لیے موخر کیا گیا اس سے بہت سے کارکنوں میں مایوسی اور سوالات نے جنم لیا۔ ایسا ہی کچھ 20مئی کو ملتان کے جلسے میں بھی ہوا جب تاریخ دیتے دیتے دو دن کے لیے تاریخ ملتوی کر دی گئی۔ اب پھر ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد ایک نئی تاریخ۔ شاید وہ اب بھی پنڈی اور عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

کسی کیساتھ اگر عوام کا سمندر ہو تو اسے ادھر یا ادھر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے شاید یہی غلطی 1988 میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے کی تھی جب لاکھوں افراد ان کے ساتھ تھے وہ اگر مشروط حکومت لینے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھ جاتیں۔ صدارتی الیکشن میں غلام اسحاق خان کے بجائے  ایم آر ڈی کے امیدوار نواب زادہ نصر اللہ خان کی حمایت کرتیں تو آج سیاست مختلف ہوتی۔

یہ بھی ہماری سیاست کی حقیقتیں ہیں کہ 2007میں بے نظیر نے جب  این آر او کے بر خلاف پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا تو یہ پیغام واضح تھا کہ انہیں قتل کیا جا سکتا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا پہلے 18اکتوبر کو خود کش حملہ جس میں وہ محفوظ رہیں تو 27دسمبر کو لیاقت باغ میں نشانہ بنایا گیا اور وہ شہید ہو گئیں اور یوں سیاست کا ایک اہم باب بند کر دیا گیا۔

سیاست کے ایک ادنی طالب علم کے طور پر میں نے 50سال کی سیاست کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور یہ بات پورے اعتماد سے کہہ رہا ہوں کہ ہمارے کچھ لوگوں کو نہ ضرورت سے زیادہ مقبول جماعتیں پسند ہیں اور نہ ہی مقبول ترین لیڈر۔ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، الطاف حسین اور عمران خان ان سب کے پیچھے کروڑوں افراد رہے ہیں اور اب بھی شاید ہیں مگر پھر بھی کوئی دنیا سے رخصت ہوا تو کوئی سیاست سے بے دخل، اس میں خود ان کی بھی بڑی سیاسی غلطیاں اور کمزور حکمت عملی رہی کسی حد تک اقتدار کا نشہ بھی مگر محلاتی سازشوں کا بھی عمل دخل رہا۔

پچیس مئی کو اگر موجود حکومت اور ا سکے اتحادی فسطائی انداز نہ اپناتے اور ریاستی انداز کے برعکس مارچ کو ڈی چوک پر آنے دیتے تو شاید آج عمران خان زیادہ مشکل صورتحال میں ہوتے۔

رکاوٹیں، لاٹھی چارج، آنسو گیس، خواتین پر تشدد بے جا چھاپے اور گرفتاریوں نے لانگ مارچ کو خود ہی کامیاب کر دیا، پہلے صرف دھرنے کی تصویریں اور ویڈیو چلتیں تو حکومت کا امیج بہتر جاتا مگر کیا کریں جبر کے ذریعہ مخالفین کو دبانا ہماری روایت سی بن گئی ہے۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے ساتھ ماضی میں جو ہوا وہ آج بھی  پی ٹی آئی حکومت کے لیے شرم کا مقام ہے لیکن اس کا بدلہ جس انداز میں جسٹس (ر) ناصرہ اقبال، ڈاکٹر یاسمین راشد یا شیریں مزاری سے لیا گیا اس نے آمرانہ دور کی یاد تازہ کر دی۔

موجودہ حکومت اس وقت پی ٹی آئی سے زیادہ مہنگائی کے دباؤ میں ہے، اسی طرح جیسے 8 مارچ 2022 سے پہلے خان صاحب کی حکومت تھی اسی لیے عدم اعتماد کی تحریک، اس وقت کی اپوزیشن کی بڑی سیاسی غلطی تھی۔ اور خان صاحب بھی جلد اقتدار میں آنے کے لیے وہی راستہ اختیار کر رہے ہیں۔

آنے والے تین ماہ اہم ترین ہیں حکمران اتحاد کے سامنے مہنگائی کا پہاڑ ہے جس کا بوجھ بہرحال عوام پر ہی گرنا ہے ایسے میں اگر فوری الیکشن ہو بھی جائیں تو معاشی صورتحال میں بہتری کی گنجائش کم ہی ہے۔

اب اگر یہ حکومت الیکشن آئندہ سال کرانا چاہتی ہے تو وزیر اعظم شہباز شریف، ان کے فرزند حمزہ شہباز اور مریم نواز کو اپنے خلاف بنائے گئے مقدمات کی بجائے توجہ اس طرف دینی چاہئے۔ اس وقت  ایف آئی اے ، نیب میں افسران کی تبدیلی یا قوانین میں تبدیلی اہم ہے یا لوگوں کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔

دوسری طرف خان صاحب کے لیے بہتر ہو گا اگر وہ مارچ اور دھرنوں کے بجائے پارٹی کی تنظیم نواور الیکشن کی حکمت عملی بنائیں کیونکہ انتخابات محض جلسے جلوسوں یادھرنوں سے نہیں بلکہ مضبوط امیدواروں اور تنظیم سے جیتے جاتے ہیں جس کی پی ٹی آئی میں ہمیشہ سے کمی رہی ہے۔

ان تین ماہ میں کئی الیکشن ہونے ہیں۔ ایک قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب غالبا 16جون کو ہونا ہے پھر 17جولائی کو اہم ترین الیکشن پنجاب میں 20 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر جس کے بعد یا اسی دوران پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن۔ کراچی میں مقابلہ اس نشست پر ایم کیو ایم (پاکستان) اور تحریک لبیک میں لگتا ہے۔رہ گئی بات اعلی عدلیہ اور نیوٹرل ایمپائر کی تو بہتر ہے اگر یہ دو اہم ترین ادارے سیاسی معاملات سے اپنے آپ کو دور رکھیں، جھکاؤ ایک طرف نظر آئے یادوسری طرف، اچھا تاثر قائم نہیں کرتا۔

انتہائی ادب اور معذرت کے ساتھ پچھلے 75 برسوں میں نظریہ ضرورت اور ملکی قومی مفاد کے نام پر بہت نقصان ہو چکا ہے۔ رہی سہی کسر بعض میڈیا والوں نے پوری کر دی جو خود بھی دو مختلف کیمپوں میں تقسیم نظر آتے ہیں۔

جانبدارتبصرے اور تجزیہ ہماری کامیابی کی سند قرار دیے جا رہے ہیں ایسے میں پتا نہیں کیوں صحافت کہیں کھو سی گئی ہے۔ اس طرز صحافت کو اگر نہ روکا گیا تو نقصان زیادہ نہ ہو جائے۔ بس بات کو یہیں ختم کرتا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ