سکولوں بار ویکھاں گے۔۔۔تحریر محمد اظہر حفیظ


سکولوں اک واری بار نکل فر ویکھاں گا۔ہر کمزور انسان کی یہ سب سے کمزور دھمکی ہوتی ہے۔
بچپن میں سکول میں جب بھی لڑائی ہوتے دیکھی جس کی خوب دھلائی ہورہی ہوتی وہ روتا جاتا اور ساتھ کہتا جاتا سکولوں بار نکل فر ویکھاں گے۔ مارنے والا اس کو اور مارتا جاتا کہ پہلے توں سکول دے اندر ویکھ لے فر بار جاکے وی ویکھ لاں گے اور ہم نے کبھی سکول کے باہر اس لڑائی کا تسلسل نہیں دیکھا۔ حساب کتاب اندر ہوجاتا تھا اور دھمکی باہر کی دی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ دیکھتے عمر گزر گئی ۔ کامرس کالج میں ہمارے ایک دوست تھے ۔ اکثر کینٹین پر بیٹھ کر ساری دنیا کے مسائل حل کرتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے یار پیاجی ایک ضروری بات کرنی ہے میں پریشان ہوں ۔ کالج سے باہر چلتے ہیں۔ جیسے میرے دوست کا حکم اور ہم باہر چلے گئے۔ روز اینڈ جاسمین گارڈن گول میز کانفرنس کا وقوعہ طے پایا۔ دونوں وہاں پہنچ گئے۔ جی میری جان حکم کریں۔ پیاجی ہم غیرت مند لوگ ہیں ایک لڑکا میری بہن کو تنگ کرتا ہے کل اسکو میں نے کہا ہے کہ میں تینوں چھڈاں گا نہیں۔ توں ساڈی غیرت نوں نہیں جانداں۔ تو میرے دوست کل پر بات کیوں ڈالی اسی وقت اس کا سر کھول دینا تھا وٹے تو ہر جگہ مفت دستیاب ہوتے ہیں۔ حساب بے باک ہوجاتا۔ نہیں پیا جی تسی گل نہیں سمجھ رہے او۔ اے کم تسی کرنا اے بہنیں تو سانجھی ہوتی ہیں۔ جی میرے دوست پھر پارک کیوں آیا ہے سیدھے اسکی طرف ہی چلتے حساب کتاب کرلیتے۔ پیا جی ایک دن کی اسکو مہلت دی ہے۔ اگر آج تنگ کرے گا تو پھر ماریں گے۔ جی بہتر پر مجھے اس کہانی میں غیرت کہیں نظر نہیں آئی۔ میں حاضر ہوں پر غیرت والے مسائل خود حل کرتے ہیں۔امداد کا انتظار نہیں کرتے۔ یہ بھی غیرت کا تقاضہ نہیں ہے کہ کسی کو مدد کیلئے پکارا جائے جو ملکی حالات اس وقت چل رہے ہیں مجھے سکول اور کالج کی لڑائیاں یاد آرہی ہیں کسی کی درخواست اسٹیبلیشمنٹ سے مدد کی ہے، کوئی اس کو نیوٹرل رہنے کو کہہ رہا ہے۔ کوئی اس کو عدلیہ کی جنگ کہہ رہا ہے۔ اور اس کو ایکشن لینےکو کہہ رہا ہے۔ آنسو گیس بلکل وہی والی ہے جو ڈی چوک میں اساتذہ پر استعمال ہوئی اور اب ان کی دعا سے اس وقت چلانے والوں پر استعمال ہوئی ۔ جنہوں نے اب چلائی ہے ان پر بھی یہی چلائی جائے گی۔ یہ مکافات عمل ہے کچھ اور نہیں۔ مہلت لینا تو سمجھ آتا ہے جیسے ہم نےچائنہ، سعودیہ کا پیسہ دینا ہے ہم ان سے مہلت مانگتے ہیں کہ ہمیں کچھ اور وقت دے دیں۔ پر یہاں نظام ہی دوسرا ہے پہلے چھ دن کی مہلت اور اب میں چھ دن بعد بتاؤں گا کہ ہم کب عوام کو لے کر آئیں گے۔ میری درخواست ہے کہ ملکی مفاد میں ایک دفعہ آ ہی جائیں پوری طاقت کے ساتھ تاکہ یہ روز روز کا جھنجھٹ ہی ختم ہو۔ مجھے عمران خان صاحب، نواز شریف صاحب، آصف علی زرداری صاحب کسی کے بھی آنے اور جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ ہماری زندگی ویسے کی ویسی ہی رہے گی۔ یہ دھمکیاں دینی بند کردیں۔ وہ چاھے رانا ثناءاللہ صاحب ہوں یا عمران خان صاحب ۔ شیخ رشید اپنی سولہ وزارتوں میں نالہ لئی کی صفائی تک نہیں کروا سکا پر اس نے باقی سارے معاملات کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ برائے مہربانی کسی میز کرسی پر بیٹھ کر معاملات حل کریں ۔ یہ ملک کو نقصان پہنچانے والی اور الزامات والی سیاست بند ہونی چاہیے۔ اگر ملک کی خدمت کرسکتے ہیں تو کریں یہ تقریری مقابلے بند کریں۔ فوج کو عدلیہ کو اپنے گند میں مت گھسیٹیں ۔ آپ سب کی مہربانی ہوگی۔ سارے سیاستدان ایک جیسے ہیں اقتدار کے بھوکے پلیز اب انکو فرشتہ ثابت کرنا بند کردیں۔ سارے سیاستدان اکٹھے ہوں اپنے چاہنے والوں سے پیسے اکٹھے کریں جتنے پیسے اکٹھے ہوں اس کے برابر خود ڈالیں اور ملکی خزانہ میں وہ پیسے جمع کروا کر ملک کے مالی حالات کو بہتر کریں۔ جو پارٹی جتنے پیسے جمع کروائے اس کو ملکی تاریخ کا حصہ بنایا جائے۔ اور ان کی اس نیکی کو سراہا جائے۔ سارے سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں محب وطن ہیں آگے بڑھیں اور ملک کو سنواریں۔ میری درخواست ہے آج سے تمام پریس کانفرنسز اور سوشل میڈیا پر پابندی لگائی جائے جو ملک میں انتشار کا باعث بن رہی ہیں۔ ہر محکمہ اپنے کام سے کام رکھے ملک سنور جائے گا۔ انشاء الله ۔
اللہ تعالی ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
پاکستان زندہ باد