اللہ تعالی نے ایران کی مذہبی قیادت کو وہ بصیرت اور بصارت عطا فرمائی تھی کہ انہیں بوقت انقلاب کے اصل دشمن کی پہچان ہو گئی تھی۔انہیں بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ اس وقت دنیا میں اگر کوئی ملک یا قوت اسلامی اصطلاح میں طاغوت کے ہم معنی ہے تو وہ صرف امریکہ ہے۔ اسی لئے آیت اللہ خمینی نے امریکہ کو شیطان بزرگ یعنی سب سے بڑے شیطان کا نام دیا اور تمام مذہبی قیادت نے متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ جب تک ایران میں امریکی بالادستی اور امریکی اثرورسوخ کا شائبہ بھی موجود ہے،یہاں اسلامی انقلاب کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ یہ واحد فیصلہ ہے جس نے انسانی تاریخ کے ایک بہت بڑے انقلاب کی راہ ہموار کی۔ انقلاب سے پہلے کی ایرانی سیاست پچاس سالوں سے دو اہم سیاسی گروہوں میں منقسم تھی جبکہ علمائے کرام اپنی مخصوص غیر سیاسی دینی سرگرمیوں تک ہی محدود تھے۔ ویسے بھی اہل تشیع کے ہاں یہ عمومی تصور پایا جاتا ہے کہ سیدنا امام مہدی کی غیبت کبری کے آغاز سے ان کے ظہور تک کے عرصہ میں لاتعداد اجتماعی احکامات معطل ہیں اور جب سیدنا امام مہدی کا آخری الزمان میں ظہور ہو گا تو وہ یہ احکاماتِ الہی اس دنیا میں نافذ کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مشہد میں امام رضا کے مقبرے سے ملحقہ مسجد میں نماز کی امامت کا آج بھی مصلہ خالی رکھا جاتا ہے اور مکبر سامنے کھڑا ہو کر تکبیر بلند کرتا ہے جس سے مقتدی رکوع اور سجدے میں جاتے ہیں لیکن آیت اللہ خمینی نے ایران کے شیعہ علما کو اپنے اجتہاد سے ایک انقلابی تصور ولائتِ فقہیہ کی بنیاد پر اکٹھا کیا اور ان میں ایک نئی روح پھونکی۔ تصور یہ ہے کہ سیدنا امام مہدی کی آمد سے پہلے جو شخص اہلِ تشیع کے مرجع کے مقام پر فائز ہو گا وہ دراصل اس وقت امام کا نائب ہو گا۔ اس لئے اس پر فرض ہے کہ وہ تمام شرعی احکامات کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرے اور قوت حاصل کر کے انہیں نافذ بھی کرے۔ شاہ پرست علما اس کے خلاف تھے اور وہ ایران میں بالکل ویسی ہی زندگی گزار رہے تھے، جیسی پاکستان میں سرکار کے علما گزارتے ہیں۔ لیکن جب امریکہ نے 1953 میں سی آئی اے کی مدد سے مصدق کی حکومت بدلی(رجیم چینج) تو آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اپنے مضامین اور تقاریر میں امریکہ کے اس تسلط کے خلاف لکھنا شروع کیا۔ اس وقت تک شیعہ علما کی قیادت اور مرجع کا مقام دو بڑے علما آیت اللہ برجردی اور آیت اللہ کاشانی کے پاس تھا۔ایک 1961 میں اور دوسرا 1962 میں انتقال کر گیا۔ یہ دونوں علما ایسے وقت میں بھی بہت محتاط چل رہے تھے جب رضا شاہ، ایران میں انقلابِ سفید کے نام پر پورے معاشرے کو سیکولر بنانے کی جدوجہد میں مصروف تھا۔آیت اللہ روح اللہ خمینی نے جیسے ہی ان دونوں علما کے انتقال کے بعد ایرانی شیعہ علما کی قیادت سنبھالی تو انہوں نے 22 جنوری 1963 کو شاہ کے سیکولر سفید انقلاب کی مذمت میں ایک بیان جاری کیا۔ شاہ نے اس بیان کو اپنے لئے اس قدر خطرناک محسوس کیا کہ اس کے دو دن کے بعد ہی وہ ایران کے مذہبی شہر قم میں فوج کے ایک جتھے کے ساتھ پہنچا،اور اس نے جلسے میں ایسی تقریر کی جس میں تمام علما کی مذمت کی۔ ڈرنے کے بجائے 3 جون 1963 کو یومِ عاشور پر آیت اللہ خمینی نے ایسا خطبہ دیا جو ایک انقلابی تحریک کے آغاز کا باعث بن گیا۔ اس نے شاہِ ایران کو یزید سے مشابہہ قرار دیا۔ لیکن 26 اکتوبر 1964 کو آیت اللہ خمینی کا یہ اعلان کہ ہماری جنگ دراصل شاہِ ایران سے نہیں ہے بلکہ براہِ راست امریکہ سے ہے، اس کی مذہبی اور سیاسی بصیرت کی اعلی ترین مثال تھا۔ کسی بھی انقلاب میں دشمن کی پہچان ہی اصل مرحلہ ہوتا ہے، اس کے بعد ہدف کے خلاف تمام قوت مجتمع کی جاتی ہے۔ اس کے بعد قید اور چودہ سالہ جلاوطنی کی ایک لمبی داستان ہے۔ شاہ نے ایران کے علما پر کریک ڈاؤن کیا اور مذہبی طبقہ مسلسل شاہ کی خفیہ تنظیم ساواک کے مظالم برداشت کرتا رہا۔ شاہ کے خلاف منظم جدوجہد شروع ہوئی تو ان میں تین واضح گروہ شامل ہو گئے۔ پہلا، آئین پرست جن میں ایران کا نیشنل فرنٹ شامل تھا۔ ان کا بنیادی مطالبہ آئینی حکومت کی بحالی اور آزادانہ اور منصفانہ انتخاب کروانا تھا،دوسرا مارکسسٹ گروہ تھا یہ شاہ کے مظالم کی وجہ سے زیرِ زمین چلے گئے تھے اور یہ گوریلا سرگرمیوں پر یقین رکھتے تھے۔ ان میں دو اہم گروپ تودہ پارٹی اور فدائیانِ خلقِ ایران کے علاوہ چھوٹے چھوٹے اور مسلح گروہ بھی شامل تھے۔ اسلامی انقلاب والے بھی لاتعداد گروہوں میں تقسیم تھے۔ ایک تحریکِ آزادی تھی جس کی قیادت بازرگان اور تالقانی کر رہے تھے اور جو پرامن جدوجہد کی قائل تھی، دوسری سازمان مجاہدینِ خلقِ ایران جو اسلامی مارکسی نظریہ کے قائل تھی، اس کا سربراہ ابوالحسن بنی صدر تھا جو انقلاب کے بعد ایران کا صدر بنا۔ یہ تمام تنظیمیں بالکل مختلف نظریات اور مختلف خیالات کی حامل تھیں۔ ان میں سے بیشتر افراد اور قائدین ایسے تھے جو مذہبی قیادت اور علما سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ بیشتر سیکولر اور کیمونسٹ خیالات کے حامل تھے بلکہ اصل میں انقلاب کی شروع کی ساری جدوجہد تو کیمونسٹ پارٹی کے گوریلوں کی وجہ سے ہی تیز ہوئی تھی۔ علما کی شمولیت دیکھ کر شاہ آف ایران نے تودہ پارٹی کے لاتعداد افراد کو جیلوں سے رہا کر دیا تاکہ یہ باہمی اختلاف سے ایک مکمل اسلامی انقلاب کی طرف بڑھتے ہوئے ایران کو تقسیم کر دیں گے۔ لیکن جنوری 1978 سے فروری 1979 کا پورا سال آیت اللہ خمینی کی قیادت نے تمام مذہبی سیاسی قیادت کو سیکولر اور کیمونسٹ طاقتوں کے شانہ بشانہ لڑایا اور صرف امریکہ کو اپنا ہدف رکھا۔اسی سوچ اور صرف بڑے دشمن سے لڑنے کی یکسوئی ہی تھی جس نے ایران کو ایسے انقلاب کا تحفہ بخشا جو اپنی ہیئت میں فورا ایک اسلامی انقلاب میں ڈھل گیا۔ اس وقت پاکستان میں جو صورتِ حال ہے، اس کو سمجھنے کے لئے صرف ایک دفعہ سی آئی اے کی ویب سائٹ پر چلے جائیں تو معلوم ہو گا موجودہ پاکستان میں بھی وہی کچھ دہرایا جا رہا ہے، جو سی آئی اے اس سے پہلے کم از کم 72 ممالک میں کر چکی ہے۔ سی آئی اے کی ویب سائٹ پر تازہ ترین معلومات جو راز داری سے خارج ہوئی ہیں ان کے مطابق امریکہ ایران میں مصدق حکومت کے خاتمہ میں پوری طرح ملوث تھا،چلی کے صدر آلندے، گوئٹے مالا کے آربنز ویت نام کے ڈی ایم اور کانگو کے لوممبا کو بھی امریکہ نے برطرف کروایا تھا۔ امریکی اس قدر ظالم ہیں کہ مصدق حکومت کے بعد شاہِ ایران اور چلی کے آلندے کے بعد پنوشے کی حکومتوں نے جو لاکھوں لوگ قتل کئے، امریکہ نے ان اقدامات کو نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ ہنری کسنجر نے ان کی برملا تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دونوں سرمایہ دارانہ نظام کے محافظ تھے۔ مشہور کتاب معاشی غارت گر کے اعترافات کا مصنف جان پرکنر کہتا ہے کہ میں نے شاہِ ایران، انڈونیشیا، ایکواڈور اور پانامہ کے صدور کے علاوہ سعودی عرب کے شاہی خاندان کے سامنے کہا کہ دیکھو میرے ایک ہاتھ میں اربوں ڈالر ہیں جو تمہارے اور تمہارے دوستوں کے لئے ہیں جبکہ میرے دوسرے ہاتھ میں بندوق بھی ہے، اپنا فیصلہ سوچ لو۔۔ پاکستان آج اسی مرحلے سے گزر رہا ہے، لیکن ہماری مذہبی قیادت کو اس کا بالکل ادراک نہیں، وقت بہت جلد گزر رہا ہے۔ کل، فتح یا تو امریکہ کے حواریوں کی ہو گی اور ہم مکمل غلامی میں ڈوب جائیں گے یا پھر عوام کی ہو گی جن کی قیادت اس وقت عمران خان کے پاس ہے۔ مذہبی قیادت کو دونوں صورتوں میں اس وقت کی اپنی خاموشی کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز