مقبوضہ کشمیر کے مقبول حریت راہنما اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کےچئیرمین یاسین ملک صاحب کو 25 مئی 2022 کو بھارتی عدلیہ کی جانب سے سنگین غداری کے الزامات میں سزا سنائے جانے کا قوی امکان ہے بھارتی عدلیہ کے ماضی کے فیصلوں بالخصوص کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ یاسین ملک صاحب کو کم از کم عمر قید کی سزا سنائی جائے گی ماضی میں مقبول بٹ اور افضل گورو شھید کا معاملہ ہو یا گذشتہ 30 سال سے پابند سلاسل ڈاکٹر قاسم فکتو شبیر شاہ آسیہ اندرابی یا ان جیسے دیگر سینکڑوں قائدین و کارکنان تحریک آزادی کے خلاف روا رکھے جانیں والا بھارتی عدلیہ کا جانبدارانہ رویہ و کردار بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے کے حوالے سے پہلے ہی دنیا کے سامنے بےنقاب ہوچکا ہے بھارت میں تاریخی بابری مسجد کے حوالے سے فیصلے اور گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث افراد کی رہائی بھارتی عدلیہ کی جانب داری اور ناانصافی کا منہ بولتا ثبوت ہے
یاسین ملک صاحب جنہوں نے زمانہ طالب علمی سے ہی خود کو تحریک آزادی کے لئے وقف کر دیا تھا 1987 میں مسلم متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے سری نگر کے انتخابی حلقے سے وہ سید صلاح الدین چیرمین متحدہ جہاد کونسل کی انتخابی مہم میں صف اول کے کارکنان میں شامل تھے مگر جب بھارتی حکومت اور ایجنسیوں نے سنگین دھاندلی کا ارتکاب کرتے ہوئے یاسین ملک اور ان جیسے ہزاروں نوجوانوں کی آرزوں کا خون کر دیا تو یاسین ملک اور ان جیسے ہزاروں نوجوانوں نے بیلٹ کا راستہ ترک کر کے بلٹ کا راستہ اختیار کر لیا
1987 میں کشمیر کی وادی اور جموں کے میدانوں و پہاڑوں میں حاجی گروپ کے نام سے لبریشن فرنٹ کے چار قائدین حمید شیخ اشفاق مجید وانی جاوید میر اور یاسین ملک اس وقت ہر کشمیری کی آنکھ کا تارا بن گئے جب انہوں نے سرینگر اور وادی کے دوسرے علاقوں میں بھارتی مسلح دستوں کے خلاف عسکری کارروائیوں کا آغاز کر دیا لبریشن فرنٹ نے اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی سعید کی بیٹی ربیعہ سعید کو اغواء کر لیا اور ساتھ ہی سری نگر میں ڈی آئ جی پولیس علی محمد وٹالی کے گھر پر حملہ کر دیا جس میں اعجاز ڈار نام کے ایک عظیم کمانڈر شھید ہو گئے اور مقبول الائ جو بعد میں حزب المجاہدین کے ڈویژنل کمانڈر کی حثیت سے شھید ہوئے شدید زخمی ہو گئے
ان مسلح عسکری کارروائیوں کے شروع ہوتے ہی کشمیر کے ہر پیر وجوان مرد و زن نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر لیا اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان لائین آف کنٹرول کو عبور کر کے تربیت حاصل کرنے بیس کیمپ مظفرآباد آ گئے مسلح جہاد پر یقین اور اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے منتخب ارکان تک لائن آف کنٹرول کو عبور کر کے آزاد کشمیر آگئے جن میں غلام نبی نوشہری جو کے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے سیاسی جدوجہد ترک کر کے بندوق کے راستے پر چل نکلے وادی کشمیر میں بھارتی فوجوں کے لئے حالات اس قدر دگرگوں ہو گئے کہ انہیں سیگریٹ کی ڈبیا خریدنے کے لیے بھی باقاعدہ اسکواڈ ترتیب دینا پڑتا تھا جموں کشمیر میں درجنوں مسلح گروپ وجود میں آگئے جن میں حزب المجاہدین مسلم جانباز فورس العمر مجاہدین البرق مجاہدین حزب اللہ اور تحریک جہاد اسلامی وغیرہ شامل تھے
1993 میں کشمیر کے مسلح جہاد کو اس وقت ایک بڑا دھچکا لگا جب عسکریت کی بنیاد رکھنے کی دعویدار لبریشن فرنٹ نے مہاتما گاندھی کے اہنسا کے نظریے عدم تشدد سے متاثر ہو کر مسلح جدوجہد ترک کرنے کا اعلان کر دیا اور تحریک آزادی کے لئے صرف سیاسی اور سفارتی جدوجہد کا عزم کیا مگر مسلح جدوجہد ترک کرنے کے باوجود بھی بھارتی فوج نے لبریشن فرنٹ کے قائدین اور کارکنان کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے سینکڑوں قائدین و کارکنان کو شھید کر دیا 1993 سے لیکر آج تک یاسین ملک صاحب عدم تشدد اور پرامن جدوجہد کے سرخیل رہے مگر ان کا پر امن جدوجہد کا نظریہ بھارتی بربریت کو روکنے میں ناکام رہا اور یاسین ملک صاحب اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی تعزیب خانوں میں ہی گزارنے پر مجبور رہے
آج بھارتی ظالمانہ اقدامات اور یاسین ملک صاحب کو سنائی جانےوالی والی متوقع سزا اور کالے قوانین کے تحت جعلی مقدمات کے ذریعے انہیں اور دیگر قائدین کو ٹارچر سیلوں میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے پر یاسین ملک صاحب اور ان کے عدم تشدد کے نظریے پر یقین کرنے والے لوگ ایک بار پھر مسلح جہاد کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے لگے ہیں اور گاندھی کے اہنسا کے نظریے عدم تشدد کو ترک کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں حقیقت میں بھارت جیسے مکار اور سفاک دشمن کے مقابلے میں مسلح جہاد ہی واحد طریقہ اور راستہ باقی رہ جاتا ہے جو کہ ہندوستانی مظالم کے مقابلے میں مظلوم کشمیری قوم کو آزادی کی منزل سے ہمکنار کر سکتا ہے
یاسین ملک صاحب کو چاہیے کہ وہ کشمیر کے نوجوانوں اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو اپیل کریں کے وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لئے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کریں