بھارتی برہمنیت کے دلفگار حقائق۔۔۔تحریر تنویر قیصر شاہد


عالمی سطح پر بین الاقوامی برادری کا دل لبھانے کے لیے بھارتی دانشور اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ بھارت کے بارے میں شائننگ انڈیا اور سیکولر انڈیا اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دلفریب راگ الاپتے اور نعرہ لگاتے ہیں۔ بباطن مگر انڈیا دراصل ہے کیا ، یہ جاننے اور پہچاننے کے لیے ہمیں بھارتی دلت لٹریچر پر ایک تحقیقی نظر ڈالنی چاہیے ۔

ہم میں سے پاکستانی شہریوں کی اکثریت کو بھارتی دلتوں کے بارے میں مطلوبہ معلومات حاصل نہیں ہیں۔ بھارت میں بسنے والی جملہ نچلے درجے کی برادریوں اور ذاتوں کو آج کل دلت کہا جاتا ہے۔ کبھی یہ شودر اور کبھی یہ ان ٹچ ایبل کہلاتے تھے اور کبھی اِنہیں ہریجن کہا گیا اور کبھی شیڈول کاسٹ اور کبھی انھیں اچھوت کے نام سے پکارا گیا۔ ذلت، نارسائی اور توہین کے جتنے بھی معنی اور مفہوم پائے جاتے ہیں، بھارتی دلتوں کو ہمیشہ ان میں سے گزرنا پڑا ہے ۔

بھارت کے برہمن زدہ معاشرے میں دلتوں کو سماج کی ہر سطح پر کن کن رسوائیوں اور بے عزتیوں سے آئے روز گزرنا پڑتا ہے، ان کا احساس و ادراک اور مشاہدہ ہم لوگ نہیں کر سکتے کہ پاکستانی سماج میں ایسے ظالمانہ مظاہر نہ ہونے کے برابر ہیں۔

بھارتی سماج میں دلتوں کو سیاسی، ثقافتی، معاشی اور مذہبی بنیادوں پر جن ذلتوں سے عملی طور پر گزرنا پڑتا ہے، ان کے عکس ہمیں ان کتابوں اور سوانح عمریوں میں ملتے ہیں جنھیں نامور بھارتی دلت دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے بلا کم و کاست صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا ہے۔

اس سلسلے کے کئی عکس اگرچہ ہمیں بھارتی آئین لکھنے والے ممتاز ترین دلت دانشور اور سیاستدان  بی آر امبیڈکر،کے خطوط اور تقریروں میں بھی ملتے ہیں لیکن ادبی میدان میں یہ نقوش اور عکس ہمیں پہلی بار مشہور بھارتی دلت ادیب، اوم پرکاش والمیکی،کی سوانح حیات جوٹھن میں اپنی پوری قہرمانی کے ساتھ ملتے ہیں۔ جوٹھن پڑھتے ہوئے ہم اپنے اشکوں کو ضبط میں نہیں لا سکتے۔

بھارتی ہندو سماج نے مذہبی ہندو بنیادوں پر استوار کیے سماج میں دلتوں کو غیر انسانی درجہ دے رکھا ہے۔ اوم پرکاش والمیکی صاحب نے اِسی تاریخی احساس کو قلم کی زبان دے کر ساری دنیا میں بھارتی ہندو سماج کی بہیمیت اور ظالمانہ برہمنیت کو ننگا کر دیا ہے۔ اِسی بنیاد پر جوٹھن ایسی شاہکار کتاب کے اب تک دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ ہندو مذہب کی تنگ نظری اور تعصبات کو اگر کسی نے سائنسی طور پر سماجی سطح پر سمجھنا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ پہلی فرصت میں جوٹھن کا مطالعہ کرے ۔

جوٹھن کے بعد اب دلت لٹریچر میں ایک نیا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی بھارتی پنجاب کے ایک پنجابی دلت ہندو نے ہمیں تحفہ بخشا ہے۔ اِس نئی معرکہ آرا اور نقاب کشا کتاب کا نام ہے: چھانگیا رکھ۔بلبیر مادھو پوری صاحب اس کے مصنف ہیں۔ تقریبا ڈھائی سو صفحات پر مشتمل چھانگیا رکھ (جیسا کہ نام سے ظاہر ہے) نامی یہ کتاب بنیادی طور پر پنجابی زبان میں لکھی گئی ہے۔ بلبیر مادھو پوری مشرقی پنجاب کے ایک سرکاری افسر رہے ہیں لیکن وہ اساسی طور پر شاعر اور ادیب بھی ہیں ۔ چھانگیا رکھ کو اجمل کمال صاحب نے کمال مہارت اور محنت کے ساتھ اردو زبان میں ڈھالا ہے ۔

جن پنجابی محاوروں اور اصطلاحوں کو غیر پنجابیوں کے لیے سمجھنا دشوار ہو سکتا ہے، ان کی تفہیم کے لیے فٹ نوٹ بھی لکھے گئے ہیں اور کئی جگہوں پر بریکٹوں میں معنی بھی درج کر دیے گئے ہیں۔ یوں ساتھ ساتھ ایک ننھی منی لغت بھی مرتب ہوتی چلی گئی ہے ۔ یہ بڑی محنت اور کمٹمنٹ کا کام ہے۔ اس محنت و عرق ریزی کے لیے مترجم کی تعریف اور ستائش کی جانی چاہیے ۔

بھارتی سماج اور معاشرے میں ذلتوں کے مارے دلتوں کو تعلیم، سیاست اور ملازمتوں میں اعلی مقامات حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت اور جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ قدم قدم پر دلتوں کے آگے بڑھے قدم برہمن ذہنیت مسدود کرنے کی از حد کوشش کرتی ہے لیکن باہمت دلت نوجوان ہندو مذہبی بنیادوں پر کھڑی کی گئی ان چٹان نما رکاوٹوں کو پاش پاش کرتے ہوئے کامیابیوں سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔ چھانگیا رکھ کا زیادہ تر حصہ مصنف کے اپنے گاوں( مادھو پورجو گورداسپور اور جالندھر کے وسط میں واقع ہے) کی سماجی زندگی پر مشتمل ہے ۔

کمال کی بات یہی ہے کہ گاوں میں اپنا بچپن اورنوجوانی کے ایام گزارتے ہوئے بلبیر مادھوپوری صاحب نے جس مہارت اور مشاقی سے اپنی ذلتوں کی داستان رقم کی ہے، اِسی میں وہ ساری کتھا سمٹ آئی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہندو مذہب کی بنیاد پر استوار بھارتی سماج کا باطن کس قدر غیرانسانی، غیر منصف اور چنگیزی ذہنیت کا حامل ہے۔

بلبیر مادھوپوری صاحب ہمیں اپنی دلچسپ اور ذہن کشا سوانح حیات چھانگیا رکھ میں اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر انکشاف کرتے ہوئے دکھ کے ساتھ بتاتے ہیں کہ بھارتی پنجابی سکھوں میں بھی ذات پات کی پرستش پائی جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کہنے کو توبھارتی سکھوں میں مساوات پائی جاتی ہے۔ سکھ اکٹھی عبادت کرتے اور کسی تفریق کے بغیر لنگر کی تقسیم کرتے ہیں لیکن بباطن سکھ بھی دلتوں اور نچلی ذات کی برادریوں کو تحقیر اور تنفر سے دیکھتے ہیں۔ اس ضمن میں مصنف نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کو کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ مصنف دکھ کے ساتھ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے ہندوستان میں آکر اگرچہ بہت سی سماجی اور سائنسی تبدیلیاں کیں لیکن شودروں، اچھوتوں، ہریجنوں اور دلتوں کی بہبود اور سماجی مساوات اور معاشی برابری کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔

مثال کے طور پر بلبیر مادھو پوری اِسی ضمن میں اپنی کتاب (چھانگیا رکھ) میں یوں لکھتے ہیں: انگریز چاہے ملکوں کو فتح کرتے رہے لیکن ان کے بارے میں یہ خیال اب تک مروج ہے کہ وہ اصول پسند اور سائنسی نظریے والے تھے ، انھوں نے اپنی غلام بستیوں اور ملکوں کو بھرپور ترقی دی، بڑے بڑے منصوبے مکمل کیے ، لوگوں کو پڑھائی لکھائی کے ذریعے اپنے کلچر، تہذیب اور تاریخ سے واقف کرایا، ان کے اندر نیا نظریہ اپجایا۔ پر اچھوتوں کے معاملے میں انگریزوں کے خیالات پر سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ اور پھر ساتھ ہی مصنف بڑی تفصیل کے ساتھ پنجاب میں بسنے والی جملہ کمین ذاتوں کے نام لے لے کر ہمیں بتاتے ہیں کہ انگریز سرکار کے دوران ریاستی سطح پر ان ذاتوں کو کس طرح نچلی سطح پر اور معاشی و سماجی طور پر غلام رکھنے کے لیے منظم طریقے بروئے کار لائے گئے۔ اب مگر یہ ساری زنجیریں ایک ایک کرکے ٹوٹ رہی ہیں اور دلت بھی آزادی کی نعمتوں سے تھوڑا بہت فیضیاب ہونے لگے ہیں ۔

بھارتی ہندو اور برہمنی ذہنیت کو بلبیر مادھو پوری نے بڑی احتیاط ، سچ اور انصاف کا ترازو تھام کر بیان کر دیا ہے ۔ اور ساتھ ہی بھارت کے پہلے وزیراعظم، جواہر لال نہرو، کا ایک قول بھی بطورِ ثبوت دیا ہے کہ بھارتی ہندو کس قدر متعصب ہوتا ہے۔

نہرو نے کہا تھا: (بھارتی) ہندو یقینا روادار اور برداشت رکھنے والا نہیں ہے ۔ ہندو سے زیادہ تنگ دل بندہ دنیا میں کہیں نہیں اور پھر مصنف اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات پر ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کے گاوں میں اگر کوئی نچلی ذات کا دلت اپنے نو مولود کا نام اونچی ذات کے ہندووں ایسا نام رکھ لیتا تو اسے سزا دی جاتی اور کوئی دوسرا توہین آمیز نام رکھنے کے لیے دباو ڈالا جاتا۔ بھارتی برہمنی سماج اور ہندو مذہب کو سمجھنے کے لیے زیر نظر کتاب (چھانگیا رکھ) کا مطالعہ بے حد ضروری ہے ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس