ہم جونہی سُر بندر جیٹی (بندر گاہ کی گودی) میں داخل ہوئے، پانی میں تیرتی سینکڑوں کشتیوں اور چھو ٹے جہازوں سے درجنوں ماہی گیر باہر نکلے اور انہوں نے آگے بڑھ کر ہمارا استقبال، بلوچی میں نعرہ بازی کرتے ہوئے کیا۔مولانا ہدایت الرحمٰن اس سفر میں ہمارے ہمراہ تھے اور یہ خوشگوار استقبال ہمارا نہیں دراصل انہیں کا تھا۔اب یہ ماہی گیر ،انکے بچے/بڑے اور خواتین “حق دو” تحریک کے پُر جوش کارکن اور مولانا ہدایت کے متوالے بن چکے ہیں۔
سُر بندر، گوادر شہر کی ایک بڑی مضافاتی بستی ہے جہاں کے مکینوں کا صدیوں سے گُزر بسر مچھلیاں پکڑنے کے سوا کسی دوسری چیز پر نہیں۔
گوادر، پچھلی دو دھائیوں سے کئی اہم اوربنیادی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے ۔ یہ تبدیلیاں کچھ طبقات کے لئے توخوشگوار ہیں مگر کچھ دوسروں کے لئے بہت تکلیف دہ بھی۔ یہاں بین الاقوامی بندرگاہ بننے کے ساتھ ہی بڑی بڑی عمارتیں، شاندار سڑکیں، کرکٹ اور فٹ بال کے سٹیڈیم ، پرل کانٹینینٹل اور نئی ائیر پورٹ جیسے بڑے بڑے پراجیکٹس بن چکے یا آخری مراحل میں ہیں۔
دوسری طرف یہاں کی مقامی آبادی کے اصل باسی علم، صحت، رہائش، پانی اور بجلی کی بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہیں۔وہ دکھ اور حسرت سے اپنی ہی سرزمین پر ان تبدیلیوں کا مشاہدہ کرتے اور بے بسی کے گھونٹ پی کر بیگانے سے ہو رہتے ہیں۔مقامی نوجوانوں کے پاس بس دو ہی چوائس ہیں ۔ منشیات کا شکار ہوکربے خودی کے اندھیروں میں ڈوب جائیں یا نا پسندیدہ (اندرونی و بیرونی) قوتوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر تشدد اور انتقام کا راستہ اختیار کرلیں۔ گوادر و مکران کی پٹی کے درجنوں نوجوان
بدقسمتی سے دوسرے راستے کو اختیار کر چکے ہیں۔
غربت، محرومیوں اور ناہمواریوں کی نفسیات کو سمجھے بغیر امن و امان کے لئے قائم کردہ چوکیاں اور تلاشیاں کبھی کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ یہ چوکیاں،کچھ مدت بعد تذلیل، رشوت اور افراتفری کی نئی لہر کو جنم دیتی ہیں۔
گوادر ایسی ہی کربناک صورتحال سے گزرتا چلاآرہا تھا۔مقامی باشندے روزانہ کی بنیاد پرسمندر اور خشکی دونوں جگہ ستائے جارہے تھے۔ سمندر میں باہر سے آنے والے بڑے بڑے ٹرالر انتظامیہ اور مافیا کی ملی بھگت سے زبردستی داخل ہوتے اور بڑی مقدار میں مچھلیاں پکڑ کر مقامی آبادی کے چھوٹے ماہی گیروں کو وسائل رزق سے محروم کردیتے۔
خشکی پر پولیس اور انتظامیہ ان کمزور محنت کشوں سے رشوت بھی لیتی، تذلیل بھی کرتی اور انہیں کام پر جانے سے روک بھی دیتی۔
احتساب اور خدا کی پکڑ سے بے خوف یہ انتظامیہ ایک دن ان مچھیروں اور ان کے خاندانوں کو کام کی طرف بڑھنے سےروک رہی تھی کہ ایک عمر رسیدہ، ان پڑھ مگر بہادر خاتون ماسی زینی بپھری ہوئی شیرنی کی طرح آگے بڑھی، محلے کی خواتین کو جمع کیا اور پولیس گردی کے سامنے ڈٹ گئی۔ ایک غیرت مند استاد اور عالم دین مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ تک ماؤں، بہنوں کی چیخ و پکار پہنچی تو اس سے رہا نہ گیا اوراس نے اللہ پہ بھروسہ کرتے ہوئے جبر کو چیلنج کرنے اور ان خواتین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔احتجاج کی لہریں بلند تر ہونے لگیں۔ شہر کا شہر سڑکوں پہ نکل آیا۔ مقتدر قوتوں نے خوف، دھمکیوں اور گرفتاریوں کے پرانےحربے آزمانا چاہے، مگر کامیابی نہ ہوئی۔
احتجاج نے دھرنے کی شکل اختیار کر لی ۔بے خوف، بے وسیلہ مگر دور اندیش مولانا نے جدوجہدترک نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب خوف زدہ مقتدر قوتوں نے گرفتاریوں، لاٹھی چارج اور خون خرابے کی پلاننگ کی تو گوادر کے بازاروں نے ہزاروں پُرجوش خواتین کو حقوق کی اس جدوجہد میں مولانا ہدایت کی ڈھال بنے دیکھا۔
ماسی زینی اور اسکی جانثار خواتین ساتھی ایک طرف احتجاج میں روزانہ شرکت کرتیں، دوسری طرف اپنے گھروں سے تازہ روٹیاں پکا کر لاتیں اور دھرنے کے شرکاء میں تقسیم کرنے میں مصروف نظر آتیں۔
ایک ماہ تک جاری یہ جدوجہد اتنی پُرامن تھی کہ ایک گلاس تک نہ ٹوٹا ،نہ مظاہرین میں سے کسی نے ہوا میں ایک پتھر ہی اُچھالا۔
بلآخر مقتدر قوتوں کو ہار مان کر مطالبات تسلیم کرنا پڑے، سمندر سے ٹرالر ہٹا دیے گئے، بیشتر چیک پوسٹیں ختم کر دی گئیں۔ ماہی گیروں کو ذلتوں اور اذیتوں سے نجات ملی۔
دھرنا مزا ہمت کے دوران جب میں نے ماسی زینی کے جذبہ ایمانی کے بارے میں سنا تو دل میں طے کیا کہ مجھے جب بھی گوادر جانے کا موقع ملا، میں اس خاتوں کے عزمِ حُریت کو سلام پیش کرنے ضرور پہنچوں گا۔
حقوق کی جدوجہد اور سیاسی رسہ کشی میں بڑا فرق ہے۔ ماسی زینی اور مولانا ہدایت الرحمان کی
جد و جہد کوئی سیاسی جنگ نہ تھی ۔یہ ایمان ،عزت ، وقار اور اپنی پہچان کی جنگ تھی۔
کل جب ہم سُر بندر میں مچھیروں کو ،مولانا ہدایت کو اپنے درمیان پا کر، خوشی سے مچلتے دیکھ رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا ، پُر امن اور پُرعزم جد و جہد کا پھل کتنا میٹھا اور تاثیر کس قدر رگوں تک سرایت کرنے والی ہوتی ہے۔
اسی سہ پہر الخدمت ٹیم کے ہمراہ ماسی زینی سے ایک کھانے پہ ملاقات طے تھی۔ میں نے اسے قرآنِ مجید اور چادر کاتحفہ پیش کیا۔ اسے اردو بولنے میں دِقت پیش آ رہی تھی۔ مگر اس کا پورا سراپا تشکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ ماسی زینی جیسی پُر عزم خاتون کو انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ایوارڈ ملنے چاہئیں اور اس کے نام سے گوادر میں خواتین کی بہبود کے ادارے بننے چاہئیں۔
ماسی زینی یا ملکہ الزبیتھ اگر مجھے انتخاب کر کے کسی ایک کو چادر کا تحفہ پیش کرنا ہوتا تو میں کس کا انتخاب کرتا، میں نے دل سے پوچھا۔ جواب ملنے میں ذرا دیر نہ لگی ” ماسی زینی، کیونکہ ماسی زینی جد وجہد اور عزت و وقار کی علامت ہے جبکہ ملکہ محض دولت اور دبدبہ کی یادگار”