پیر کی صبح چھپے کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ شہباز شریف صاحب کی قیادت میں قائم ہوئے حکومتی بندوست نے اتوار کی رات تک معیشت کے بارے میں کڑے مگر قطعی فیصلوں کا اعلان نہ کیا تو بازار میں مندی بدستور جاری رہے گی۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر بھی مستحکم نہ ہوپائے گی۔ اخبار میں چھپے اس کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لئے لیپ ٹاپ کھولا تو میرے خدشات کی توثیق ہوتی نظر آئی۔ اپنی بقراطی پر فخر کرنے کے بجائے دل گھبرانا شروع ہوگیا۔
وزیراعظم نے دس وزرا کی منڈلی سمیت لندن میں تین دن گزارے ہیں۔ رازداری کا حلف اٹھانے کے بعد یہ تینوں دن انہوں نے سابق وزیر اعظم کے ساتھ طویل مشاورت میں صرف کئے۔ اسحاق ڈار بھی وہاں موجود رہے جو ڈالر کو اس کی اوقات میں رکھنے کی وجہ سے مسلم لیگ (نون) کے حامیوں میں بہت قبول مگر کاروباری حلقوں کے ایک موثر گروہ میں عدم مقبول ہیں۔ وزیراعظم کے ساتھ گئے وزرا کی اکثریت ہفتے کی شام وطن لوٹ آئی تھی۔ شہباز صاحب مگر برادر دوست متحدہ عرب امارات کے سربراہ کی رحلت پر تعزیت کے لئے ابوظہبی چلے گئے۔اتوار کی شام وہ بھی وطن لوٹ آئے ہیں۔
ہم سب نے امید باندھی ہوئی تھی کہ وطن لوٹتے ہی وزیراعظم قوم سے خطاب کے ذریعے لندن میں مشاورت کی بدولت طے ہوئے فیصلوں کا اعلان کردیں گے۔ایسا مگر ہوا نہیں۔ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے فقط یہ اعلان کیا ہے کہ فی الحال پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھائی نہیں جارہیں۔ منڈی پر چھائے سیٹھوں کو مطمئن کرنے کے لئے مذکورہ اعلان کافی نہیں تھا۔اسی باعث پیر کے روزبھی بازار میں مندی اور پاکستانی روپے کی گراوٹ جاری رہی۔
شہباز صاحب کی فیصلہ ساز صلاحیتوں یا شہرت کو عموما سراہنے والے مبصرین بھی اِن دنوں ان کے اپنائے گومگو والے رویے سے پریشان ہوگئے ہیں۔ گیارہ جماعتوں کے اشتراک سے بھان متی کا کنبہ نظر آنے والی حکومت کی محدودات کو خاطر میں نہیں لارہے۔ سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ شہباز شریف اور ان کی جماعت سیاست میں نووارد نہیں ہیں۔1985سے اقتدار کے کھیل سے وابستہ ہیں۔عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کے وقت انہیں معاشی بحران کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے تھا جو حکومت سنبھالتے ہی انہیں حواس باختہ کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ جس بحران کا حکومت سامنا کررہی ہے اچانک نمودار نہیں ہوا۔ وقت اس حادثے کی برسوں سے پرورش کررہا تھا۔ مسلم لیگ (نون) اور اس کے اتحادیوں کو حکومت سنبھالنے سے قبل مہینوں سے پل رہے بحران کے حل کا نسخہ سوچ لینا چاہیے تھا۔ اقتدار سنبھالنے کے پہلے دن سے شہباز حکومت کو بحران کے حل کے لئے اعتماد کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے نظر آنا چاہیے تھا۔
حکومت کو مفلوج کئے تذبذب کے برعکس عمران خان صاحب روزانہ کی بنیاد پر شہر شہر جاکر امریکی سازش کو اپنی حکومت کی برطرفی کا واحد سبب بیان کرتے چلے جارہے ہیں۔ سامراج کے مددگارمیر جعفر بھی ان کے ہاتھوں رسوا ہورہے ہیں۔ اب یہ دعوی بھی ہوگیا ہے کہ انہیں پراسرار انداز میں غالبا خوراک میں زہر ملاتے ہوئے قتل کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ عمران خان صاحب کے دیرینہ مخالف سازشی داستان کا تمسخراڑارہے ہیں۔ وطن عزیز میں تاہم حکومتوں کو 1950کی دہائی سے ہی محلاتی سازشوں کے ذریعے گھربھیجنے کا چلن نمودار ہوگیا تھا۔ ہمارے پہلے وزیر اعظم راولپنڈی کے جلسہ عام میں قتل بھی ہوگئے تھے۔ ان کے قاتلوں کا آج تک سراغ نہیں ملا۔ جنرل ضیا کی 1988میں فضائی حادثے میں ہلاکت بھی سازش ہی تصور ہوتی رہی ہے۔محترمہ بے نظیر صاحبہ بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں راولپنڈی کے بازار میں دن دہاڑے قتل ہوئی تھیں۔ عمران خان صاحب کے بتائے خدشات کو لہذا تاریخی تناظر میں سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ رب کریم انہیں قتل کی سازشوں سے محفوظ رکھے۔ اپنے جارحانہ انداز میں سیاست سے اگرچہ انہوں نے حکومت کو دیوار سے لگارکھا ہے۔
عمران خان صاحب کے بنائے تحریکی ماحول کے برعکس حکومتی عدم فعالیت عوام کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ کسی بھی حکومت کو مضبوط دکھانے کے لئے معاشی استحکام کلیدی کردار ادا کرتاہے۔معاشی معاملات پر نگاہ رکھنے والے مبصرین مگر دہائی مچائے چلے جارہے ہیں کہ آئی ایم ایف ہماری مدد کو آمادہ نہ ہوا تو پاکستان جلد ہی دیوالیہ ہوجائے گا۔ ہمارے ہا ںسری لنکا جیسے فسادات پھوٹ پڑیں گے۔آئی ایم ایف مگر مصر ہے کہ ہماری مدد درکار ہے تو پیٹرول کی قیمت میں یکمشت کمرتوڑ اضافے کا اعلان کیا جائے۔
ہمیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اگر پیٹرل اور ڈیزل کی قیمتوں میں فی الفور اضافے کا اعلان نہ ہوا تو آئی ایم ایف کا وفد قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچ کر ہمارے وزیر خزانہ سے 18مئی کے دن سے مذاکرات کا آغاز بھی نہیں کر پائے گا۔پیر کی شام مگر مفتاح اسماعیل مذکورہ مذاکرات کے لئے پرواز کرجائیں گے۔ ان کی پرواز کم از کم یہ تسلی فراہم کرتی ہے کہ پیٹرول کے نرخوں میں اضافے کا اعلان نہ ہونے کے باوجود عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ پاکستان کا کیس زیرغور لانے کو اب بھی تیار ہے۔ حکومت مگر تسلی کے اس پہلو کو عوام کے روبرو لانے میں ناکام رہی ہے۔ ریاست اپنے مالی معاملات کیسے چلاتی ہے اس کی بابت مجھ عام صحافی کو ککھ خبر نہیں۔ جبلی طورپر اگرچہ محسوس کررہا ہوں کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے لئے لندن میں ہوئے مشاورتی اجلاس کے دوران کوئی جگاڑ دریافت کرلی گئی ہوگی۔ مفتاح اسماعیل اگر اتوار کے دن ممکنہ جگاڑ کی تفصیلات بیان کردیتے تو بازار کا رویہ پیر کے دن غالبا مختلف ہوتا۔
وہ صحافی جن پر یہ حکومت اعتماد کرتی ہے اشاروں کنا یوں میں دعوی کررہے ہیں کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا نسخہ تیار کرلیا گیا ہے۔ اسے منظر عام پر لانے سے قبل مگر اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ ان کی تائید بھی لیکن کافی تصور نہیں کی جارہی۔ ہمارے قومی سلامتی کے نگہبانوں کو بھی آن بورڈلینا ہوگا۔اس کی خاطر آئندہ 48گھنٹوں میں اہم ترین ملاقاتوں کی قیاس آرائی ہورہی ہے۔ وہ اگر رضا مند نہ ہوئے تو نئے انتخاب کے اعلان کی توقع باندھی جارہی ہے۔ قصہ مختصر آئندہ دو سے تین دن ہمیں مخمصوں ہی میں مبتلا رکھیں گے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت