مقام فیض کوئی۔۔۔تحریر جاوید چوہدری


میجر جنرل اکبر خان پاکستان کے پہلے چیف آف جنرل اسٹاف تھے یہ 1895 میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے والد چکوال کے بڑے زمین دار تھے برطانوی فوج میں اس وقت گھڑ سواروں کی دو بڑی رجمنٹس ہوتی تھیں۔

ہڈسن ہارس اور پروبن ہارس پاکستان کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل والٹر میسوری ہڈسن ہارس سے تعلق رکھتے تھے جب کہ جنرل اکبر خان پروبن ہارس میں بھرتی ہوئے تھے دونوں نے 1914 میں انڈین آرمی جوائن کی تھی جنرل اکبرسوار سے ترقی کرتے کرتے میجر جنرل بن گئے جبکہ میسوری پاکستان کے پہلے کمانڈر انچیف ہو گئے جنرل اکبر کی شادی نامور مسلم لیگی خاتون جہاں آرا شاہ نواز کی صاحب زادی نسیم شاہ نواز کے ساتھ ہوئی یہ لارڈ مائونٹ بیٹن کے اے ڈی سی بھی رہے۔

قیام پاکستان کے وقت جواہر لعل نہرو اور مہاتما گاندھی نے انھیں ہندوستان میں روکنے کی بہت کوشش کی لیکن یہ نہیں رکے اور قائداعظم نے انھیں چیف آف جنرل اسٹاف بنا دیا جنرل میسوری کے بعد جنرل ڈگلس گریسی کمانڈر انچیف بن گئے جنرل اکبر جنرل گریسی کے ساتھ خوش نہیں تھے کیوں؟ وجوہات دلچسپ تھیں مثلا جنرل گریسی جنرل اکبر سے جونیئر تھے لہذا یہ سمجھتے تھے مجھے آرمی چیف ہونا چاہیے دوسرا یہ کشمیر بزور بازو حاصل کرنا چاہتے تھے۔
ان کا خیال تھا یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں کبھی حل نہیں ہو سکے گا لیکن جنرل گریسی ان کے راستے میں حائل ہو گئے اور تیسری وجہ ملک آزاد ہو گیا لیکن فوج میں تاحال انگریز افسر موجود تھے یہ افسر مسلمان افسروں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بھی تھے اور ان کی موجودگی میں فوجی راز بھی راز نہیں رہ رہے تھے بہرحال وقت گزرتا رہا قائداعظم کا وصال ہو گیا اور ملک میں سیاسی افراتفری شروع ہو گئی آئین ساز اسمبلی آئین بنانے میں ناکام ہو رہی تھی الیکشن بھی نہیں ہو رہے تھے لینڈ ریفارمز میں بھی تاخیر تھی اور کرپشن اور اقربا پروری بھی زوروں پر تھی۔

جنرل اکبر خان اس صورت حال سے مطمئن نہیں تھے یہ چاہتے تھے وزیراعظم لیاقت علی خان برطانوی افسروں کو فارغ کر دیں تاکہ فوج کو اسلامی طرز پر بنایا اور چلایا جا سکے لیکن شاید ان کی سنوائی نہیں ہو رہی تھی لہذا انھوں نے حکومت کو برطرف کرنے اور ملک میں پہلا مارشل لا لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ راولپنڈی میں اپنے ہم خیال افسروں دانش وروں سیاست دانوں اور بزنس مینوں کو اکٹھا کیا اور فروری 1951 کے آخر میں اپنا ایجنڈا ان کے سامنے رکھ دیا یہ آٹھ گھنٹے پر محیط لمبی میٹنگ تھی جس میں جنرل اکبر خان نے شرکا کو بتایا ہم گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو گرفتار کریں گے حکومت کے خاتمے کا اعلان کریں گے۔

گورنر جنرل تمام اختیارات مجھے سونپ دے گا اور میں جنرل الیکشن کرا دوں گا شرکا یہ گفتگو سن کر چپ چاپ چلے گئے لیکن اسی شام حکومت تک اطلاعات پہنچ گئیں اور حکومت نے 15 سازشیوں کو گرفتار کر لیا سازشیوں میں 11 فوجی افسر اور 4 سویلین شامل تھے ان تمام کے خلاف 9 مارچ 1951 کو مقدمہ دائر کر دیا گیا یہ مقدمہ آگے چل کر راولپنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا اور مقدمے میں فیض احمد فیض اور نامور کمیونسٹ لیڈر سید سجاد ظہیر بھی شامل تھے۔

فیض احمد فیض میجر جنرل اکبر کے دوست تھے یہ دوست کی حیثیت سے جنرل کے کھانے میں شریک ہوئے تھے اور یہ ان کا واحد جرم تھا ملزموں کو حیدرآباد پہنچا دیا گیا ٹربیونل بنا اور اس نے کارروائی شروع کر دی فیض صاحب کو شروع میں تین ماہ قید تنہائی میں رکھا گیا یہ ان کی زندگی کے خوف ناک ترین دن تھے انھوں نے 90 دنوں تک کسی شخص کا چہرہ دیکھا تھا اور نہ کوئی انسانی آواز سنی تھی 90 دن بعد جب انھیں قیدیوں کی گاڑی میں بٹھایا گیا اور وہاں انھوں نے میجر اسحاق محمود اور کیپٹن خضر حیات کا چہرہ دیکھا تو یہ دیوانوں کی طرح قہقہے لگانے لگے۔

ان سے خوشی کی وجہ پوچھی گئی تو فیض صاحب نے جواب دیا میں انسانی چہرے کو ترس گیا تھا میں آپ کو دیکھ کر اندر سے خوش ہو گیا ہوں بہرحال مقدمہ چلتا رہا اس دوران16اکتوبر 1951 کو خان لیاقت علی قتل ہو گئے اور ملک میں سیاسی افراتفری میں مزید اضافہ ہو گیا اور یہ افراتفری بالآخر جنرل ایوب خان کے مارشل لا پر پہنچ کر ختم ہوئی فیض احمد فیض کو اس دوران سزائے موت ہو گئی یہ حیدر آباد جیل میں محبوس رہے لیکن پھر 1955 میں انھیں میجر اسحاق محمود اور کیپٹن خضر حیات کے ساتھ ساہیوال جیل شفٹ کر دیا گیا یہ شہر اس وقت تک مونٹگمری کہلاتا تھا۔

مونٹگمری کی جیل 1872میں بنی تھی اور یہ اس زمانے میں سائز کے لحاظ سے ایشیا کی سب سے بڑی اور سختی میں یہ دوسری بڑی خوف ناک جیل تھی مچھ جیل اس سے بھی خطرناک اور ناقابل برداشت ہوتی تھی فیض صاحب کو جیل میں خصوصی وارڈ میں رکھا گیا یہ وارڈ آج تک موجود ہے اور میں جمعہ 6 مئی کو یہ دیکھنے ساہیوال پہنچا وارڈ جیل کے درمیان ایک الگ احاطے میں ہے احاطے کی دیواریں کچی اور دروازہ چھوٹا اور تنگ ہے میں جوں ہی دروازے سے اندر داخل ہوا تو سامنے بڑا سا صحن آ گیا۔

فیض صاحب کا سیل صحن کے درمیان تھا یہ دو مختلف کمروں پر مشتمل تھا اس کی چاروں سائیڈز پر لوہے کی سلاخیں لگی ہیں چھتیں اونچی ہیں اور دیواروں پر کچی مٹی کا لیپ ہے ان پر سال چھ ماہ بعد چونا پھیر دیا جاتا تھا دونوں سیلز کے ساتھ اٹیچ باتھ بھی ہیں اور باتھ میں پرانے زمانے کے کموڈ بھی لگے ہیں جیل سپرنٹنڈنٹ نے بتایا یہ سیل انگریزوں نے اپنے انگریز قیدیوں کے لیے بنایا تھا شاید اسی لیے اس میں انگریز دور سے کموڈ اور واش بیسن چلا آ رہا ہے فیض صاحب کے دور میں چھت پر پنکھا نہیں ہوتا تھا اب ہے لیکن یہ بھی پرانا اور اونچا ہے۔

فیض صاحب اپنے ساتھ 9 روپے 14 آنے اور 3 پیسے لے کر آئے تھے پچاس روپے انھیں گھر سے موصول ہوئے تھے یہ اس رقم سے اپنے اخراجات چلاتے رہے چھ ماہ بعد جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو جیل ریکارڈ کے مطابق انھیں 28 روپے اور دس آنے واپس دیے گئے جیل کی سلاخوں سے احاطے کا صحن دکھائی دیتا رہتا تھا فیض صاحب رات کے وقت بھی یہ منظر دیکھتے تھے اور انھی مناظر سے ایک دن زندان کی ایک شام نے جنم لیا تھا۔

شام کے پیچ وخم ستاروں سے۔۔۔۔زینہ زینہ اتر رہی ہے شام۔۔۔۔یوں صبا پاس سے گزرتی ہے ۔۔۔۔جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات۔ صحن زندان کے بے وطن اشجار۔ سرنگوں محو ہیں بنانے میں۔۔۔۔ دامن آسمان پر نقش ونگار۔۔۔شانہ بام پر دمکتا ہے۔۔۔۔ مہربان چاندنی کا دست جمیل۔۔۔۔ خاک میں گھل گئی ہے آب نجوم ۔۔۔۔نور میں گھل گیا ہے عرش کا نیل۔۔۔ یہ سب انھی سلاخوں کے پیچھے اسی صحن میں کاشت ہوا تھا۔

فیض صاحب کا مشہور شعر مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں۔۔۔۔جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے یہ بھی اسی فضا میں پروان چڑھا تھا میں دیر تک اس کوٹھڑی میں پھرتا رہا اور ان سلاخوں کو چھو چھو کر دیکھتا رہا جنھیں فیض صاحب کے دست ہنر نے چکھا تھا اور اس فضا میں لمبی لمبی سانسیں لیتا رہا جہاں فیض صاحب کے تخیل کی خوشبو آج تک موجود تھی۔

ساہیوال کی جیل ایک تاریخی دستاویز ہے یہاں خان عبدالقیوم خان آغا شورش کشمیری اور ولی خان محبوس رہے ہیں انگریز دور کی نامور شخصیات بھی اس جیل میں بند رہیں جب کہ جیل کی دو عمارتیں گھنٹی خانہ اور سپرنٹنڈنٹ کا کورٹ روم سوا سو سال پرانا ہے اور اس کی چھتیں کولونیل آرکی ٹیکچر کی علامت ہیں یہ ریکارڈ اور یہ عمارتیں قومی اثاثہ ہیں میری حکومت سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر فیض احمد فیض وارڈ کو قومی اثاثہ ڈکلیئر کر دیں اس کی ضروری مرمت کرائیں۔

فیض کی تصویریں البم اور وہ شاعری جو انھوں نے ساہیوال جیل میں کی تھی وہ ان دیواروں پر لگائیں اور اس کے ساتھ ساہیوال جیل کے قیدیوں کے لیے فیض فنڈ جاری کر دیا جائے یہ فنڈ ان قیدیوں کو دیا جائے جو فیض صاحب کی شاعری یاد کر لیں اور اسے خوب صورت طریقے سے سنا اور گا سکیں اسی طرح ہفتے میں دو دن کے لیے فیض وارڈ کو عام پبلک کے لیے بھی کھول دیا جائے لوگ قبل از وقت بکنگ کرائیں اور فیض وارڈ کی سیر کریں یہ وارڈ اگر مقتدرہ قومی زبان اکادمی ادبیات یا نیشنل آرٹس کونسل کے حوالے کر دی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا جب کہ اس کی بحالی کا کام این سی اے یا لمز یونیورسٹی کو دے دیا جائے۔

فیض صاحب جیسے لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں ہم نے ان کے ساتھ ان کی زندگی میں بھی زیادتی کی اور ہم اب ان کے انتقال کے بعد بھی اچھا سلوک نہیں کر رہے ہم نے انھیں 1951 میں فوجی بغاوت کے الزام میں موت کی چکی میں ڈال دیا تھا اور ہم آج انھیں گم نامی کی موت مارنے کی کوشش کر رہے ہیں لہذا میری درخواست ہے وزیراعظم صرف فیض احمد فیض کے شعر نہ پڑھا کریں، یہ ان کے لیے عملا بھی کچھ کریں، فیض احمد فیض کے ساتھ اچھا سلوک کریں قوم دل سے آپ کا شکریہ ادا کرے گی۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس