اسلام آباد(صباح نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ نے قراردیاہے کہ بادی النظرمیں مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی جیسا شخص اس وقت تک عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتا جب تک مجاز عدالت مطلوبہ عدالتی عمل کے ذریعے سزا کالعدم قرار نہیں دیتی۔ یہ معاملہ وزیراعظم کے سامنے رکھاجائے اگر حنیف عباسی کو سنائی گئی سزا ابھی تک کالعدم قرار نہیں دی گئی تو وزیراعظم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ حنیف عباسی کی تقرری کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔
ہائی کورٹ نے سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی جانب سے ایفی ڈرین کیس میں سزا یافتہ ن لیگی رہنماء حنیف عباسی کے خلاف دائر درخواست کی 9 مئی 2022ء کو ہونے والی پہلی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری کیا گیا حکم نامہ تین صفحات پر مشتمل ہے شیخ رشید کی جانب سے یہ رٹ پٹیشن انتظار حسین پنجوتھا اور نعیم حیدر پنجوتھاایڈووکیٹس کے توسط سے دائر کی گئی تھیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ میں لکھا ہے کہ درخواست گزار شیخ رشید احمد نے 27 اپریل 2022ء کو جاری کیا گیا نوٹی فیکشن چیلنج کیا ہے جس کے ذریعے فریق نمبر 2 محمد حنیف عباسی کو وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا ہے۔عدالت کے استفسار پر درخواست گزار نے عدالت پر بھر پور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مقدمہ کی سماعت یہی عدالت کرے۔
عدالت نے فیصلہ میں لکھا ہے کہ شیخ رشید کے وکیل نے 21 ستمبر 2018ء کو انسداد منشیات عدالت راولپنڈی کے سپیشل سیشن جج کی طرف سے جاری کیے گئے حکم کی طرف توجہ دلائی جس میں حنیف عباسی کو مجرم قرار دے کر سزا سنائی تھی۔عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ انسداد منشیات عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا ہائی کورٹ نے گیارہ اپریل 2019ء کو معطل کر دی تھی۔ شیخ رشید کے وکیل نے موقف اپنایا کہ حنیف عباسی کی اپیل تا حال ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس کا فیصلہ تاحال نہیں ہو سکا اس لیے وکیل نے موقف اپنایا کہ جب تک سزا موجود رہتی ہے اس وقت تک حنیف عباسی کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتے۔
عدالت نے دفتر کو ہدایت کی ہے کہ اس رٹ پٹیشن نمبر 1550/2022 میں بنائے گئے تمام فریقین کو نوٹس جاری کیے جائیں اور ان سے رپورٹس اور پیراوائزکمنٹس طلب کیے جائیں
متفرق درخواست نمبر 02/2022 میں بھی عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریق نمبر ایک کو ہدایت کی ہے کہ یہ معاملہ فاضل وزیراعظم کے سامنے رکھیں اور اگر حنیف عباسی کو سنائی گئی سزا ابھی تک کالعدم قرار نہیں دی گئی تو وزیراعظم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ حنیف عباسی کی تقرری کا دوبارہ جائزہ لیں گے
عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اپیل سننے والی عدالت کی طرف سے سزا کی معطلی کا سزا پر کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاق بنام میاں نواز شریف کیس( پی ایل ڈی 2009ایس سی 289) کے فیصلے میں اور کا فرق بالکل واضح کر دیا ہے۔عدالت نے فیصلے میں لکھا ہ کہ آئین کے آرٹیکل 45 کی روشنی میں صدر کے اختیارات کے تناظر میں سپریم کورٹ نے ایک اور کیس نواز شریف بنام وفاق پاکستان (پی ایل ڈی 2009ایس سی 814)کیس کے فیصلے میں قرار دیا ہے ۔صدر کی جانب سے دی گئی معافی بھی اس طرح کی بریت تصور نہیں ہو گی جس طرح بریت عدالتی حکم سے ہوگی ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ حنیف عباسی کی سزا کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں زیر التواء ہے تاہم سزا معطل کی گئی ہے اس
لیے متاثر نہیں ہوگی۔اگر ایسا ہے تو بادی النظر میں ایسا شخص اس وقت تک عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتا جب تک مجاز عدالت مطلوبہ عدالتی عمل کے ذریعے سزا کالعدم قرار نہیں دیتی۔